• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وہ تصویر جو میری آنکھوں کوبار بار اشکبار کررہی ہے۔ اس تصویرجس نے خود میرے جسم میں ایک نئی لہر دوڑا دی ، جسم میں ایسی حرارت محسوس کررہا ہوں کہ جیسے کسی تنِ مردہ کو نئی زندگی مل گئی ہو۔

پاکستان کے وزیر خارجہ اسحٰق ڈار زندگی میں ہزارہا لوگوں کو ملے ہونگے مگر انکی خوش بختی کہ آج وہ اس قافلہ سالار کو ملے جس کی جماعت نے پاکستان کی سالمیت کی خاطر اور تقسیم روکنے کیلئے ایک نہیں دس ہزار سے زائد جانوں کا نذرانہ پیش کیا تھا۔ جن کی ذمہ داری ہی لڑنا اور ملک کا دفاع ہے، وہ تو ہتھیار پھینک دئیے تھے مگر سید مودودی کے رفیق کار پروفیسر غلام اعظم کے قافلہ نے رضا کارانہ کردار 1971ءہی نہیں اب تک جاری رکھا ۔ حسینہ واجد نے جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے کیسے کیسے لعل و گوہر پھانسیوں پر چڑھا دئیے مگر سلام ہے سید مودودی کے بنگلہ دیش کے کارواں کو کہ وہ خوشی خوشی سرِ دار گئے۔ فیض کی یہ نظم لگتا ہے ان لوگوں ہی کیلئے لکھی گئی تھی کہ

دربار وطن میں جب اک دن سب جانیوالے جائینگے

کچھ اپنی سزا کو پہنچیں گے، کچھ اپنی جزا لے جائینگے

اے خاک نشینو اٹھ بیٹھو وہ وقت قریب آ پہنچا ہے

جب تخت گرائے جائینگے جب تاج اچھالے جائینگے

اے ظلم کے ماتو لب کھولو چپ رہنے والو چپ کب تک

کچھ حشر تو ان سے اٹھے گا کچھ دور تو نالے جائینگے

تخت گر گئے، تاج اچھالے گئے، زندان کھل گئے،بہت لوگ کٹے ، بہت سے بازو سر کام آئےلب کھلے اور ایک نہیں بنگالیوں کا پیر و جواں گلیوں بازاروں اور ایوانوں میں لب کھول کھول کر پکار اٹھا

تم کون ہم کون ؟ رضا کار رضا کار ۔رضا کار کو تو گالی بنا دیا گیا تھا۔ گالی ہی نہیں بلکہ جس کی زبان پر یہ کلمہ آتا وہ غدار ٹھہرتا۔ مگر اصحاب استقامت کی قربانیوں اور مزاحمت نے آج اسے جیسے بنگلہ دیش کا ترانہ بنا دیا ۔ہاں جس منزل پر ڈیرے ڈالنے کی فیض نے بات کی تھی وہ منزل ان شاء اللہ قریب ہے۔ بنگالی اب کسی ہندوتوا کے پجاری کو ایوان اقتدار تک نہیں پہنچنے دینگے۔ ہندوستان کی اربوں کی سرمایہ کاری ضائع چلی گئی۔ اسے ضائع کرنے میں کسی بیرونی نہیں بنگالیوں کا اپنا کردار ہے۔

پاکستان کا قیام معجزہ تھا۔ جو ناقابل شمار قربانیاں دیکر حاصل کیا گیا تھا۔اقبال کا خواب اور قائد کی جدوجہد کا حاصل پاکستان،دشمن کی سازشوں اور اپنوں کی عیاریوں اور غفلت نے جسے دو لخت کردیا۔ نیازی ٹولے نے معجزے کی قدر نہ کی تھی مگر وہ جو کائنات کا رب ہے کیا وہ بھی قربانیاں ضائع کردیتا ہے۔؟ ہر گز نہیں۔

امت مسلمہ کی امیدوں کا مرکز پاکستان ۔اس کے مغرب و مشرق میں ہم اب ایک بار پھر معجزے دیکھ رہے ہیں ۔مغرب میں امریکہ اور نیٹو ، اللہ کی زمین کے مالک بن بیٹھے تھے۔ اپنی طاقتوں پر جنھیں بہت ناز تھا۔ مسلمان حکمرانوں کا افغانوں کا مدد گار بننا تو درکنار، وہ اغیار کے پٹھو غلام بن گئے تھے۔نہتے افغانوں کے عزم مصمم اور بے بہا قربانیوں نے طاقت وروں کے ڈیزی کٹر بم و ڈرون یا دیگر مہلک ہتھیار سب کو بھسم کردیا۔

اسحٰق ڈارا ور امیر جماعت اسلامی بنگلہ دیش ڈاکٹر شفیق الرحمٰن کی تصویر نے دل کے تار ایسے ہلائے کے چند سطریں کالم کی شکل اختیار کرگئیں۔مسلمان تو مشرق و مغرب کا قیدی نہیں اس لئے بات مشرق سے مغرب کی طرف چلی گئی۔جائے بھی کیسے ناں کہ مغرب کے آباد کار ہمارے لئے باعث افتخار ہیں اور میرا تو خون بھی اس چمن کی آبیاری میں شامل ہے۔افغانوں کو سوویت یونین کی غلامی سے بچانے میں پاکستان کا شاندار کردار تھا۔9الیون کا نزلہ پاکستان پر ایسا پڑا کہ کشمیر کی تحریک آزادی کی پیٹھ میں چھرا گھونپ دیا گیا اور اس کے نتیجے میں بھارت نے بلوچستان میں شورش بپا کروادی۔سابق فوجی حکمران پرویز کی پہاڑ ایسی غلطیوں نے ہماری تزویراتی منصوبہ بندی کو خاک میں ملا دیا۔جن افغانوں کے ہم محسن تھے، پرویز مشرف کے اقدامات نے ہمیں محسن کُش بنا دیا اور پاکستان کے حامی افغانیوں کو بعض لوگوں نے نمک حرام کہنا شروع کردیا۔

امارت اسلامی افغانستان والوں کو رب نے فتح بخشی تو انھوں عفو و درگزر کی بجائے پاکستان دشمنوں کو طاقت نہیں تو پناہ تو ضرور دی۔اب دونوں ملکوں کو اپنے مفادات کی خاطر چین قریب لا رہا ہے، مگر ایسی بے بسی اور انانیت افغان و پاکستان کی قیادت میں کیوں حائل ہوگئی کہ کوئی ہمارا ثالث بن رہا ہے۔ ایسے فاصلے کیوں کہ گھر کی بات (اسلام آباد و کابل ) واشنگٹن اور برسلز میں جا کرکی جارہی ہے۔

طرفین ایک دوسرے کی ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھیں ۔ ایک دوسرے کو دھوکہ نہ دیں اور یک زبان ہوکر اپنے مشترک دشمن کیخلاف بنیان مرصوص بن جائیں ۔مغرب کو محفوظ بنا کر ہم مشرق میں بیٹھے ناگ کو اچھی طرح قابو کرسکتے ہیں ۔ہم درست سمت قدم اٹھائیں تو مشرق و مغرب میں ہمیں دشمن نہیں دوست ملیں گے۔اسکے نتیجے میں بلوچستان میں شرپسند ، دہشت گرد ہی قابو میں نہیں آئینگے بلکہ ٹی ٹی پی کے ناسور کا خاتمہ بھی آسانی سے ہوسکے گا۔اسحاق ڈار تم واقعی خوش قسمت ہو کہ آج تم ایسے شخص، ڈاکٹر شفیق الرحمن کے گھر گے جو قابل فخر انسان ہے ۔

ہم جعفر از بنگال و صادق از دکن

ننگ آدم ، ننگ دین ، ننگ وطن

نا قبول و ناامید و نامرادان سے جس دن جان چھڑا لینگے وہ دن ہمیں اوج ثریا پر پہنچا دیگا۔

(صاحب تحریر جماعت اسلامی پاکستان کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات ہیں)

تازہ ترین