• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کے نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار کے حالیہ دورہ بنگلہ دیش کے دوران دونوں برادر ممالک کے درمیان چھ معاہدوں اور مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط ہو گئے ہیں، میڈیا رپورٹس کے مطابق بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکہ میں منعقد ہ تقریب میں بنگلہ دیش کے مشیر برائے خارجہ امور محمد توحید حسین سمیت اعلیٰ حکومتی حکام بھی شریک ہوئے، اس سےپہلے تیرہ سال قبل پاکستانی وزیر خارجہ حنا ربانی کھراس وقت کی بنگلہ وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کو سارک کانفرنس میں شرکت کیلئے دورہ اسلام آباد کی دعوت دینے گئی تھیں لیکن انہوں نے پڑوسی ملک کے ایماءپر دعوت نامہ مسترد کردیا تھا۔ تاریخی طور پر سرزمین بنگال کے تحریک پاکستان میں کلیدی کردارسے کسی کو انکار نہیں، پاکستان کی خالق سیاسی جماعت آل انڈیا مسلم لیگ کا قیام ڈھاکہ میں ہوا، بنگال میں بسنے والوں نے مذہبی تفریق سے بالاتر قائداعظم کے شانہ بشانہ تحریک پاکستان میں بھرپور حصہ لیاجسکی روشن مثال جوگندرناتھ منڈل اورخواجہ ناظم الدین جیسے بنگالی اکابر کی صورت میں ملتی ہے،لاہور میںواقع مینار پاکستان کے مقام پر مسلم لیگ کے 23مارچ 1940ء کے تاریخی جلسے میں قراردادِ پاکستان پیش کرنے کا اعزاز شیرِبنگال اے کے فضل الحق کو حاصل ہوا۔ میں مختلف مواقع پر اپنے خیالات کا اظہار کرتا آیا ہوں کہ انگریز سامراج کی آمد سے قبل برصغیر کا روایتی معاشرہ مذہبی ہم آہنگی اور سماجی یکجہتی کا حامل تھا،بالخصوص بنگال کو مذہبی ہم آہنگی کا مرکز مانا جا تا تھا جہاںمسلمان نواب سراج الدولہ کی حکومت تھی، ہندوستان کے نوآبادیاتی دورکی مردم شمار ی کےنتائج میں واضح ہے کہ بنگال میںبسنے والے باشندےثقافتی طور پر ایک دوسرے کے قریب تھے، وہ ایک ہی زبان بولتے تھے،ایک جیسے رسم و رواج، ایک جیسا لباس اور مشترکہ پکوان کھاتے تھے۔تاریخی طورپر آٹھویں صدی سے بارہویں صدی تک بنگال بُدھ مت کے پیروکارپالا راجاؤں کے زیر نگیں رہا اور سرزمین بنگال نے بدھ مت کے ایک بڑے مرکز کی حیثیت اختیار کرلی،آج بھی بنگلہ دیش کے مختلف علاقوں میں بدھ مت کے بہت سے آثار موجود ہیں جن میں اسٹوپا اور خانقاہیں شامل ہیں،بعد ازاں سین خاندان نے ہندو دھرم کو مرکزی حیثیت دی ،تیرہویںویں صدی میںمسلمان صوفیائے کرام بشمول شاہ جلال (سلہٹ) اور خان جہاں علی (بگرہٹ) نے مقامی ہندو اور بدھسٹ آبادی کے ساتھ میل جول کے ذریعے اسلام کا پیغام عام کیا،مغل بادشاہ اکبر اعظم کے دور میں بنگال کو مغلیہ سلطنت کا سب سے زیادہ امیر اور خوشحال صوبہ سمجھا جاتا تھا،مغل سلطنت کے زوال کے بعد یہاں نوابِ بنگال کانیم خودمختارانہ راج قائم ہواتو نوابوں کادربار مرشد آباد میں لگا کرتا تھا جو اُس زمانے میں ہندوستان کا سب سے امیر شہر تھا، تاہم یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ بنگال پر حکومت چاہے کسی کی رہی ہو یہاں پر اصل راج رواداری، بھائی چارے اورہم آہنگی کا ہی رہا۔ بنگال کی زرخیز زمین سے اُگنے والی کپاس،پٹ سن، ریشم اور نیل کی پیداوار نے بنگال کو عالمی تجارتی مرکز بنا دیاتھا، یہی وجہ تھی کہ ایسٹ انڈیا کمپنی نے اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کیلئے سب سے پہلے سرزمین بنگال پر قدم گاڑے اور پھرانگریز سرکار نےتقسیم کرو اور حکومت کرو کی نفرت انگیز پالیسی کے تحت مقامی بنگالی آبادی میں نفرتوں کے بیج بونا شروع کیے جسکی مثال1905ء میں بنگال کی تقسیم اور پھر پانچ سال بعد منسوخی کی صورت میں پیش کی جاسکتی ہے۔تحریک پاکستان کے دوران بنگال کی سیاست میں بھی ہندو مسلم اتحاد کی مثالیں ملتی ہیں،کئی مواقع پر ہندو مسلم رہنما مل کر انگریز سرکارکے خلاف جدوجہد کرتے رہے، رابندر ناتھ ٹیگور اور مولانا ابوالکلام آزاد جیسی اعلیٰ شخصیات نے مشترکہ طور پر غیرملکی سامراج کے خلاف تحریک آزادی میں حصہ لیا۔میں سمجھتا ہوں کہ اگر ایک طرف مسلمان صوفیائے کرام نےسرزمین بنگال میں پیار محبت کی شمع جلائی تو دوسری طرف ہندو بھگتی تحریکیں بھی انسانیت، محبت اور مساوات کے فروغ کیلئےپیچھے نہ رہیں اور یوں بنگال ایک ایسا خطہ بن گیا جہاں مذہبی روایات ایک دوسرے کے قریب ہو گئیں۔ سرزمین بنگال ہندوکمیونٹی کیلئے صرف ایک جغرافیائی خطہ نہیں بلکہ ایک روحانی اور مذہبی مرکز کی حیثیت رکھتا ہے، سندربن کے جنگلات کو ہندو دھرم میں مقدس مقام کا درجہ حاصل ہے،مقامی عقیدے کےتحت سندربن جنگل کی محافظ دیوی بون بی بی سے عقیدت صدیوں سے ہندو اور مسلمانوں کے درمیان ایک منفرد مشترکہ مذہبی روایت ہے، آج بھی سندربن میں جانے والا ہر بنگالی فرد، خواہ ہندو ہو یا مسلمان، بون بی بی کے دربار میں چڑھاوا چڑھاتا ہے، اسی طرح حضرت شاہ جلال (سلہٹ) کے مزار پر مسلمان زائرین کے ہمراہ ہندو عقیدت مندوں کا رش پایا جاتا ہے، دونوں مذاہب کے پیروکار ایک دوسرے کی خوشی غمی میں شریک ہوتے ہیں،بنگالی لوک گیتوں اور داستانوں میں ہندو اور مسلم کرداروں کا یکساں تذکرہ پایا جاتا ہے، شاعر لالون فقیر کے گیت بنگال کے ہر باسی میں مقبول ہیں جومذہب سے بالاترہوکر انسانیت اور وحدت کا پیغام دیتے ہیں۔ بدقسمتی سے آزادی کے فقط چوبیس سال بعد ہی تحریک پاکستان میں آگے آگے مشرقی بنگال کا خطہ 1971ء میں ہم سے جدا ہوگیا، بنگلہ دیش بن جانے کے باعث یہاں پاکستان مخالف قوتوں کا راج قائم ہوگیا، نفرتوں کے علمبرداروں نے ایک طویل عرصے تک پیارمحبت کی سرزمین کو اپنی تاریخی شناخت سے محروم رکھا۔مجھے خوشی ہے کہ بنگلہ دیش کے بہادر و غیور عوام نے شیخ حسینہ کے طویل دورِ آمریت سے چھٹکارا پالیا ہے تو اب وہ ایک مرتبہ پھراپنے ماضی کے ہم وطن پاکستانیوں سے رابطے استوار کررہے ہیں، آج میری نظر میں بنگلہ سرزمین ایک مرتبہ پھر مذہبی ہم آہنگی کی جیتی جاگتی مثال بننے کیلئے تیار ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ماضی کی کوتاہیوں کو درگزر کرتے ہوئے ایک دوسرے کا ہاتھ تھامیں، پاکستان اور بنگلہ دیش کے مابین قریبی تعلقات نہ صرف دونوں ممالک کے مفاد میں ہیں بلکہ پاکستان میں بسنے والوں کیلئے بھی ایک سبق ہیں کہ کس طرح مختلف عقائد کے پیروکار نفرتوں کو خیرباد کہہ کر امن، برداشت اور رواداری پرمبنی سماج کی تشکیل میں اپنا بھرپور کردار ادا کرسکتے ہیں۔

تازہ ترین