السّلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
کمپوزنگ کی غلطی نہیں لگتی!
یکم جون کے’’سنڈے میگزین‘‘ میں شائع ہونے والے ڈاکٹر ناظر محمود کے آرٹیکل کی ایک فروگزاشت کی طرف آپ کی توجّہ مبذول کروانا چاہتاہوں کہ اُس میں معروف صحافی، دانش ور الطاف حسن قریشی کا نام الطاف حسین قریشی لکھا گیا، جو درست نہیں۔ اور یہ کمپوزنگ کی غلطی نہیں لگتی، کیوں کہ ایسا دو مرتبہ ہوا۔ (ایک دفعہ متن میں، ایک باراُن کی تصویر کے نیچے) اور ڈاکٹر ناظر محمود جیسے صاحبِ علم لکھاری سےبھی اِس کی توقع نہیں کی جاسکتی، تو پھر یہ آپ کا قصور ہوا۔
بہرحال، میگزین کی کسی آئندہ اشاعت میں اِس کی تصحیح کردیں۔ الطاف صاحب اکثر اس بات کا گلہ کرتے ہیں کہ اُن کانام غلط لکھ دیاجاتاہے،جس سے اُنہیں بڑی کوفت ہوتی ہے۔ آخر میں ایک ذاتی شکایت کہ 15فروری کو ایک آرٹیکل ’’مینارِ پاکستان‘‘ اور ’’ڈائجسٹ‘‘ صفحے کے لیے ایک واقعہ ’’گنبد کی آواز‘‘ بھجوایا تھا۔
مضمون تو شائع ہوگیا، مگر واقعے سے متعلق آج تک پتا نہیں چلا کہ اُس کے ساتھ آپ نے کیا سلوک کیا کہ نہ تو وہ شائع ہوا، نہ ہی عنوان مسترد فہرست میں پایا گیا۔ چلتےچلتےایک گزارش کہ میگزین میں کبھی کبھار طنز و مزاح کو بھی جگہ دے دیا کریں کہ یہ بھی زندگی کاحصّہ ہے اور روتے بسورتے چہروں پر مسکراہٹ لے آتا ہے۔ (محمّد عارف قریشی، فرنیچر مارکیٹ، بھکر)
ج: جب آپ کو سوفی صد یقین ہے کہ کمپوزنگ کی غلطی نہیں، تو پھریقیناً نہیں ہوگی۔ دانستہ ایک بزرگ صحافی کو تنگ کرنےکی نیّت سے ان کا نام دوبارغلط لکھا گیا ہوگا۔ ہمیں تو بس رہ رہ کر ایک ہی خیال آتا ہے کہ اگر آپ جیسے بدگمان لوگ دنیا میں نہ ہوتے، تو یہ کاروبارِ حیات کیسے چلتا۔
غالباً اپنے کسی سابقہ خط سے متعلق بھی آپ نے کچھ ایسے ہی شکوک و شبہات کا اظہار فرمایا تھا۔ اب بھیجی گئی تحریر کے ضمن میں بھی وہی اندازِ گفتگو ہے، جب کہ خود آپ کو اتنا بھی نہیں معلوم کہ واقعات ’’ناقابلِ فراموش‘‘ کے صفحے پر شایع کیے جاتے ہیں، ’’ڈائجسٹ‘‘سلسلے میں نہیں، جس سے متعلق بار بار بتایا جارہا ہے کہ جب تک معیاری تحریریں وصول نہیں پائیں گی، صفحہ شیڈول نہیں ہوگا۔بہرحال، اِن سب باتوں کے باوجود آپ کی تحریر، خط کی اشاعت سے قبل شایع ہوچُکی ہے اور یقیناً آپ نے ملاحظہ بھی فرما لی ہوگی۔
دیکھا دیکھی تنقید و تبصرے
شمارہ ملا۔ ؎ اُس کا تو اپنا نام خوشبو ہے… کے عنوان سے، ماڈل رائنہ خان سُچّے گلابوں کی مانند ٹائٹل پرکِھلی کِھلی نظرآئیں۔ یہاں تک کہ خوشبو سے پورا میگزین مہک رہا تھا۔ پیارے سنڈے میگزین کا پیارا صفحہ ’’آپ کا صفحہ‘‘ رنگا رنگ خطوط سے خُوب چمک دمک رہا تھا، تو میرا بھی ایک مختصر سا نامہ شاملِ اشاعت تھا، جس میں ’’آواز دے کہاں ہے تُو!‘‘ سلسلہ شروع کرنے کا مشورہ دیا گیا تھا، کوئی بھی کام اچھی نیّت سےکیا جائے تو اللہ مدد کرتا ہے، کوئی ایک بھی بچھڑا ہوا مل جاتا، ہمیں نہ سہی، کسی کو بھی، تو کاوش اکارت نہیں جاتی، پھر ثواب، دُعائیں بونس میں۔
میڈم! یہ جو آپ نے لکھا کہ اِس ڈیجیٹل دَور میں اخبارات وجرائد پڑھنے والوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے، توخریدنے والوں کی تعداد واقعی کم ہے، لیکن بذریعہ موبائل مطالعہ کرنے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے، پھر یہ بھی کہ بہت سے نہ سہی، کسی ایک آدھ چہرے پر تو مسرت آئے گی۔ اچھا، آج ایک اوراہم بات بھی لکھ رہا ہوں، غور فرمائیے گا کہ خادم ملک (عرف نواب زادہ بےکارملک)کی دیکھا دیکھی اب بہت سے قارئین نے ایک دوسرے پر بلاوجہ ہی تنقید و تبصرے شروع کردئیے ہیں۔ حالیہ شمارے میں بھی اِسی قسم کی تحریر ایک صاحب کی طرف سے لکھی گئی۔
میرے خیال میں ایک قاری کو دوسرے پر اس قسم کی حاشیہ آرائی کا کوئی استحقاق نہیں۔ مجموعی طور پر جریدے کی لگ بھگ تمام ہی تحریریں سبق آموز تھیں، خصوصاً ثانیہ انورکی تحریر’’بیوگی کا کڑا تلخ و تند سفر‘‘ ایک لاجواب تحریر تھی، جس میں انہوں نے بیوہ خواتین کا درد دل سے محسوس کرکے، اُن کے دیرینہ مسائل اجاگرکیے اور بڑی دانش مندی سے ممکنہ حل کی تجاویز بھی پیش کیں۔ (محمّد صفدر خان ساغر، نزد مکّی مسجد، محلہ شریف فارم، راہوالی، گوجرانوالہ)
ج: آپ کی شکایت نوٹ کرلی ہے۔ آئندہ کوشش رہے گی کہ اگر کسی قاری کی طرف سے، کسی دوسرے قاری سے متعلق ناحق یا غیر ضروری طور پرکوئی تنقید و تبصرہ ہو، تو اُسے قلم زد کردیا جائے۔
جان دار تجزیے وتبصرے
تازہ سنڈے میگزین کے ’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا موجود ہیں، بہت ہی جان دار تجزیے و تبصرے کرتے ہیں، پڑھ کر مزہ آجاتا ہے۔ عرفان جاوید کا ’’نئی کہانی، نیا فسانہ‘‘ کے صفحے کا تو کوئی مول ہی نہیں، سلسلہ بہت ہی اچھا جا رہا ہے۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں افسانہ ’’گلِ نا آشنا‘‘ پسند آیا۔ اور ہاں، آپ کی بڑی لمبی چوڑی ’’ناقابل اشاعت کی لسٹ‘‘ بھی پڑھ لی۔
بہاول نگر کے پرنس افضل شاہین بھی لسٹ میں موجود نظر آئے، تو حیرت ہوئی۔ ایک چھوٹی فہرست ’’پیارا گھر‘‘ میں بھی موجود تھی۔ لگتا ہے، اس بار کافی محنت کی ہے آپ سب نے۔ ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں سلیم راجا موجود تھے، اور خوشی اِس بات کی ہوئی کہ آتے ہی ’’اِس ہفتے کی چٹھی‘‘ کی نشست پر بھی براجمان ہوگئے۔ (رونق افروز برقی، دستگیر کالونی، کراچی)
ج: فہرستیں توعموماً ساتھ ساتھ ہی مرتّب ہوتی رہتی ہیں۔ شایع تب کی جاتی ہیں، جب کسی صفحے پر کچھ اسپیس میسّر آتی ہے۔ اور فہرست تیار کرنے میں کیسی محنت، اصل محنت تو کسی ناقابلِ اشاعت تحریر کو لائقِ اشاعت بنانے پر ہوتی ہے۔
اب ہوائیں ہی کریں گی، روشنی کا فیصلہ…
اعزازی چٹھی، مبارک باد اورحوصلہ افزائی پر اللہ تعالیٰ کے حضور شُکر گزار ہوں اوراپنی اعزازی چٹھی مرحوم والدین کے نام کرتا ہوں۔ وہ کیا ہے کہ خواب ہم بھی دیکھتے تھے، مگر کبھی گمان بھی نہ کیا تھا کہ ایسی تعبیر ملے گی۔ ایک وجہ یہ بھی تھی کہ تعلق میمن ونتھلی برادری سے ہے اور مادری زبان گجراتی / میمنی ہے۔ سو، دہری خوشی اس بات کی ہے کہ آپ کے یہاں آج بھی سارے فیصلے میرٹ پر ہوتے ہیں۔
وہ شعر ہے ناں کہ ؎ اب ہوائیں ہی کریں گی، روشنی کا فیصلہ… جس دیئے میں جان ہوگی، وہ دیا رہ جائے گا۔ ’’روشنی کے مینار‘‘ سلسلے میں، محمود میاں نجمی پیارے نبی ﷺ کے ساتھیوں کی داستانِ حیات نہایت عُمدگی سے بیان کر رہے ہیں۔ رب تعالیٰ اُنہیں خدمتِ دین کی مزید ہمّت دے۔
منیر احمد خلیلی ’’اشاعتِ خصوصی‘‘میں’’غزہ آخری سانسیں لے رہا ہے؟‘‘ اور ’’شام: عہدِ قدیم سے دورِ حاضر تک‘‘ جیسے فکر انگیز مضامین لائے، پڑھ کر معلومات میں حددرجہ اضافہ ہوا۔ ’’نئی کہانی، نیا فسانہ‘‘ عرفان جاوید کاایک اور منفرد سلسلہ ہے۔ ’’میری وفات‘‘ اور’’مارٹن کوارٹرز کا ماسٹر‘‘ کیاشاہ کار افسانوں کا انتخاب کیا گیا۔
’’ڈائجسٹ‘‘ میں نظیرفاطمہ کی ’’معذور‘‘ اور خنساء محمود جاوید کی ’’گلِ نا آشنا‘‘ دونوں ہی اعلیٰ نگارشات تھیں۔ دونوں افسانہ نگاروں نے معاشرتی المیوں کی بھرپور عکّاسی کی۔ معاشرے کی ایسی ہی بےحسی پر سانحہ سوات کے حوالے سے معروف صحافی محمود شام نے لکھا تھا۔ ’’ہم سب پتھر کے ہوگئے ہیں، کراچی سے خیبر تک۔
جیتے جاگتے انسان پورے پاکستان کے سامنے موت کے منہ میں جارہے تھے، لیکن کوئی ٹس سے مس نہ ہوا۔‘‘ ’’نئی کتابیں‘‘ میں منور راجپوت نے ’’صحافت بینی‘‘ پر لاجواب تبصرہ کیا۔ اس کتاب میں شعبۂ صحافت سے وابستہ سات اہم شخصیات کے مُلک کی سترسالہ صحافتی تاریخ کے اوراق محفوظ کرنے کا احوال ہے۔ (محمد ادریس سلیمان، سعدی ٹاؤن، کراچی)
ج: جی، کوشش تو پوری ہوتی ہے کہ تحریروں کے انتخاب کے ضمن میں ’’میرٹ‘‘ پرکسی صُورت سمجھوتا نہ ہو، لیکن کبھی کبھار کوئی انتہائی مجبوری آڑےآجائے، تو کمپرومائز کرنا بھی پڑ جاتا ہے۔
جون میں موسمِ بہار کا آغاز…؟؟
جیسا کہ ہم نے اپنے پچھلے خط میں بتایا تھا کہ ’’رُوپ مَتی‘‘ کے عنوان سے آزاد اور کچھ پابند نظموں کا ایک مجموعہ زیرِ ترتیب ہے، جن میں ’’سنڈے میگزین‘‘ میں شائع شدہ نظم ’’رُوپ مَتی‘‘ بھی شامل ہوگی۔ نیز، مختلف ڈائریز میں اپنی کہی پچاس سالہ نظموں کا مجموعہ شائع کرنے کا بھی پروگرام ہے۔
جیسا کہ ہر سال جون کے مہینے سے موسمِ بہار شروع ہوتا ہے، تو اِک نیا احساس جنم لیتا ہے، خصوصاً حسّاس دل شعراء پر تو گویا یہ وُرود کا موسم ہوتا ہے۔ سو، ایسے ہی خُوب صُورت موسم کی ایک نظم آپ کے ذوق کی نذر ہے۔ جہاں تک جنگ، سنڈے میگزین کی بات ہے، تو واقعی یہ کمال لوگوں کے باکمال ذہنوں اور دستِ رسا کی تزئین کا منہ بولتا شاہ کار ہوتا ہے اور وہ بھی ہر ہفتے۔ کیا کہیں کہ سولہ صفحات میں گویا ایک دنیا بند (کوزے میں دریا) ملتی ہے۔ (جمیل ادیب سیّد، کراچی)
ج: جون میں آپ کے جس موسمِ بہار کا آغاز ہوتا ہے (کہ عمومی طور پر دنیا بھر میں موسمِ بہار کا آغاز21 مارچ سے ہوتا ہے اور اگر مزید تفصیل میں جائیں تو شمالی نصف کرّے میں یہ موسم، مارچ تا مئی اور جنوبی نصف کرّے میں ستمبر تا نومبر رہتا ہے) اُس سے متاثر ہو کر لکھی جانے والی نظم باری آنے پر ’’ڈائجسٹ‘‘ کے صفحے میں شامل کرلی جائے گی کہ اب ہر نظم پر’’سینٹر اسپریڈ‘‘ کا رائٹ اَپ تو لکھنے سے رہے۔
آنکھیں چندھیا گئیں
شمارہ اپنے معمول کے مطابق صبح9 بجے ہمارے ہاتھوں میں تھا۔ حسبِ سابق سرِورق کی ماڈل کو دیکھ کر آنکھیں چندھیا گئیں۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘(روشنی کے مینار) میں محمودمیاں نجمی کی حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ کے حالاتِ زندگی سے متعلق کاوش رُوح پرور تھی۔
’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا کا ایران، اسرائیل جنگ کے حوالے سےتجزیہ شان دارتھا۔ اور ’’سنڈے اسپیشل‘‘ میں ثانیہ انور کی کاوش، ’’ماہِ جولائی کے اہم عالمی ایّام کا جائزہ‘‘ انتہائی معلوماتی ثابت ہوئی۔ (صبور مشتاق حسن،رمضان گارڈن، شومارکیٹ، کراچی)
ج:تین جملوں میں جریدے کے مندرجات پر تبصرے کے بعد آپ نے بیگم کے ساتھ سُسرال یاترا کا احوال رقم کیا، جس کی قطعاً ضرورت نہ تھی۔ سو، بہرطور قلم زد ہی کرنا ٹھہرا، مگر حیرت اس بات پرہے کہ بیوی، بچّوں کے ہوتے بھی ماڈل کو دیکھ کر آپ کی آنکھیں چندھیا جاتی ہیں۔ اِس پر آپ اپنا تفصیلی تعارف بھیج کر فرماتےہیں کہ ہم کوئی ایسے ’’پڑے گِرے‘‘ بھی نہیں ہیں۔
فی امان اللہ
سنڈے مارننگ میز پر ناشتا، ’’ہمارے، ناشتے اور میگزین‘‘ کا حسین امتزاج ہوتا ہے۔ وہ کیا ہے کہ ؎ کتنے حسیں عالم ہو جاتے …مَیں اور تم، گر ہم ہو جاتے۔ ’’ہیپی فادرزڈے‘‘ وِش کرتا جریدہ صحنِ دل میں جلوہ گر ہوا۔ ٹائٹل پر کسی کافر ادا نازنین کا قبضہ نہ تھا کہ معروف شاعر و ادیب عطاء الحق قاسمی رونق افروز تھے۔ قارئین کی دینی راہ نمائی کرنے والے صفحے ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ پر حضرت سلمان فارسیؓ کی داستانِ حیات الف تا ے پڑھی۔
بارگاہِ خداوندی سے طالبانِ ہدایت ہی کو ہدایت عطا ہوتی ہے۔ ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں صاحبِ مضمون نے غزہ سے متعلق کماحقہ لکھا۔ ’’خلیجی حُکم ران ٹرمپ سے دس سال کے معاہدے کر کے اپنے اقتدار کی ضمانت پکی کررہے ہیں۔‘‘ اِدھر بھی تین آمر، دس ہی سال کی اوسط سے جمہور پر تیس سال مسلط رہے۔ پناہ گزینوں کے عالمی یوم پر دل، اولادِ آدم کے غمِ ہجراں سے آشکارا ہوا۔
وہ ہے ناں کہ ؎ بیٹھ جاتا ہوں جہاں چھاؤں گھنی ہوتی ہے … ہائے کیا چیز غریب الوطنی ہوتی ہے۔ ’’فادرزڈے اسپیشل‘‘ میں بابائے اٹامک پاکستان، ذوالفقار علی بھٹو کا تاریخی جملہ نظر سے گزرا۔ ’’ہم گھاس کھالیں گے، مگر ایٹم بم بنائیں گے۔‘‘ بےشک زندہ قوم، نسلوں کا مستقبل محفوظ کرنے والوں کو سدا یاد رکھتی ہے، جب کہ نسلِ نو بگاڑنے والے کو کوئی گھاس بھی نہیں ڈالتا۔
میگزین کے مستقل سلسلے’’حالات و واقعات‘‘ میں مضمون نگار نے ریاستی پالیسی سازوں کو عالمی ترقی کے گُر بتاتے ہوئے ’’پاکستان فرسٹ‘‘ کا گولڈن سلوگن دیا۔ ’’شاہ محمد کا تانگا‘‘ پڑھوا کر گویا ہمیں سہانے ماضی کی ٹھنڈی ٹھار سیف الملوک میں پھینک دیا گیا، تو دل جھلا بول اٹھا؎ ڈُب گیاں قدراں، ویلے دیاں چَھلّاں وِچ‘‘ صفحاتِ وسطیٰ (اسٹائل) پر بمطابق معمول کسی ماڈل کے جلووں کا منظر نہ تھا، جس سبب رائٹ اَپ سے شاعری کی شیرینی کشید نہ کرسکے۔ کوئی گل نئیں، اگلی واری سہی۔
فرزندِ پیر عطاالحق قاسمی (یاسر پیر زادہ) نے بزمِ فادرزڈے میں والدِ محترم کو شُستہ خراجِ تحسین کیا کہ ’’والد صاحب فطری طور پر ہی شگفتہ مزاج ہیں۔‘‘ ’’پیارا گھر‘‘ کے بالائی مضمون کے آغاز میں عشق دا معاملہ دیکھا کہ ’’عہدِ شباب میں چاہت سے متعلق سوچتے ہی موسم رنگین ہوجاتا ہے…‘‘ جنگ لائبریری کاؤنٹر پر اس ہفتے صرف تین ’’نئی کتابیں‘‘ تھیں، شاید ناشرین بوجہ بقرعید بکروں کے مول تول میں مصروف رہے۔
ورلڈ فادرزڈے کے یادگار موقعے کو سازگار جانتے ہوئے عقلِ سلیم نے ایک نئی پنجابی کہاوت گھڑی ہے۔ ’’پیو، گرم گھیو‘‘ (باپ کی گرم جوشی اولاد کے لیے آمرت دھارا ہے) میگزین کے استاد شاعر نے سپہ سالار کی سپاہیانہ خدمات پرشان دار 21 اشعاری سپاس نامہ لکھا، جس پر ہم قارئین اُنہیں21 توپوں کی سلامی پیش کرتے ہیں۔
آخر میں اب نظر کے سامنے، چشمے کے نیچے اور دل کے پاس خطوط سے سجا ’’آپ کا صفحہ‘‘ ہے۔ جہاں مسند نشین تاریخ پر برجستہ وفریفتہ اور پرنس افضل، بِھٹ آئی لینڈ یاترا کے لیے سنجیدہ ورنجیدہ تھے۔ جب کہ نواب آف سعید آباد کو ہمیشہ کی طرح برافروختہ و برانگیختہ پایا۔ تو اب دیکھتے ہیں، ایسے رنگ برنگے موسم میں راجا کے اس ریختہ نامے کو کیا جواب ملتا ہے۔ (محمد سلیم راجا، لال کوٹھی، فیصل آباد)
ج: آپ کا جواب تو جیسے فکس ہی ہو کے رہ گیا ہے۔ جب چٹھی آئےگی، مسند نشیں ہی ہوگی۔
* اگر امریکا، افغان وار کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ بیس سالہ جنگ میں، صرف بھارت ہی ایسا کھلاڑی تھا، جو ہر لحاظ سےفائدے میں رہا۔جب افغانستان پرحامد کرزئی کی حکومت تھی، تب بھی بھارت پر افغانستان کے دروازے کُھلے تھے، اب طالبان حکومت ہے تو بھی دروازے کُھلے ہیں، جب کہ پاکستان کی نام نہاد ’’اسٹریٹجک ڈیپتھ‘‘ کے چکر میں ڈیڑھ لاکھ پاکستانی قبروں میں چلے گئے۔ منور مزرا نے درست کہا کہ اہلِ پاکستان نے افغانستان کے ہر بادشاہ کو اپنا ہیرو بنایا، جب کہ حقیقتاً یہ لُٹیرے تھے۔ (محمّد کاشف، کراچی)
* سنڈے میگزین باقاعدگی سے پڑھتی ہوں اور آپ لوگوں کی محنتوں کی دل سے قدردان ہوں۔ (صاعقہ سبحان)
* مَیں بچپن سے ’’سنڈے میگزین‘‘ کی قاریہ ہوں اور اب جریدے میں اپنی ایک کہانی شائع کروانا چاہتی ہوں۔ کیا بھیج دوں، اگر آپ کی اجازت ہو تو؟؟ (فاطمہ زہرا)
ج: کوئی تحریر بھیجنے کی حد تک تو ہماری طرف سے اجازت ہی اجازت ہے، اصل مسئلہ تو اُس کے لائقِ اشاعت ہونے کا ہے، اوراِسی ایک مسئلے پر لکھاریوں سے معاملات خراب ہوتے ہیں۔
* مَیں اپنی ایک اُردو زبان میں لکھی گئی تحریر ’’خوف ناک معاشرہ‘‘ شایع کروانا چاہتا ہوں۔ (یاسرحسین جاکھرانی)
ج: ہمارے یہاں کوئی بھی تحریر بھیجنے کے لیے اجازت کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔ ہاں، یہ آپ نے بڑا کرم کیا کہ اُردو جریدے کے لیےاُردو ہی میں تحریر لکھ ڈالی، سنسکرت میں لکھ بھیجتے، تو بھی ہم نے کیا کر لینا تھا۔
* مَیں آپ کا بہت ممنون ہوں کہ میرا عید کا پیغام، میرے بچّوں کے نام شائع کردیا۔ یقین کریں، میرا میگزین کے ساتھ تعلق کچھ اور مضبوط ہو گیا ہے۔ (واجد علی شاہین، لاہور)
ج: چلیں، یہ تو بہت اچھی بات ہے۔
* سنڈے میگزین میں سب کے لیے سب کچھ دست یاب ہے۔ ہروہ موضوع جو دل چسپ ہے، جریدے کا حصّہ ہے۔ جیسا کہ ذوالفقار چیمہ کی داستان نے کیا ہی لُطف دیا۔ اگلی قسط کا انتظار مشکل ہوجاتا، شاباش سنڈے میگزین۔ اب اگلی ای میل میں ’’آپ کا صفحہ‘‘ پر بات ہوگی۔ (طاہرہ طلعت، کراچی)
قارئینِ کرام کے نام !
ہمارے ہر صفحے، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ ہمارا پتا یہ ہے۔
نرجس ملک
ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘
روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی
sundaymagazine@janggroup.com.pk