دریائے راوی، جو صدیوں سے پنجاب بالخصوص لاہور کے دِل کی دھڑکن تھا،زندگی کی علامت تھا، دریاکی لہریں یہاں کے باسیوں کیلئےخوشیوں کا سندیسہ لاتی تھیں، راوی کنارے محبت کی کہانیاں جنم لیتی تھیں، جسکے پانی میں خواب اور امیدیں بہا کرتی تھیں، وہ عظیم الشان دریائے راوی ماضی کے جھروکوں میں کہیں کھو گیا تھا، اسکےکنارے ویران ہوگئے تھے، لہریں تھم گئی تھیں اور لوگوں نے دریائے راوی کو داستانِ ماضی بناڈالا تھا۔تاہم حالیہ دنوں میں آسمان نے ایک ناقابل ِ یقین منظر دیکھا کہ اڑتیس سال پر محیط طویل عرصہ دریائے راوی نے جیسے لمحوں میں طے کرلیا اور انسان کے تعمیرکردہ تمام طاقتور ڈیم، بنداورسرحدی رکاوٹیں فاتحانہ انداز میں عبور کرتےہوئے دریائے سندھ سے ملن کرنےٹھاٹھیں مارتا پاکستان پہنچ گیا۔ تاریخی طور پر زمانہ قدیم سے دریا انسانی تہذیب کا مرکز رہے ہیں، جہاں پانی ہوتا ہے وہاں زندگی پھلتی پھولتی ہے، ہندوستان کی پانچ ہزار سال سے زائد تاریخ میں دریائے راوی کا شمار ان بڑے دریاؤں میں کیا جاتا ہے جو مذہبی اعتبار سے بھی نہایت تقدس و عقیدت کا حامل ہے۔ہندو دھرم کے قدیم ترین وید وں میں دریائے راوی کا تذکرہ اراوتی کے نام سے ہوتا ہے، ہندو عقیدے کے تحت دریائے راوی کو اراوتی دیوی سے منسوب کیا جاتا ہے، راوی کا دریا زندگی کی علامت اور پاکیزگی کا ذریعہ ہےجسکے پانی میں اشنان جسمانی و روحانی آسودگی بخشتا ہے، رامائن اور مہابھارت کے رزمیہ کلام کے مطابق راوی کے کنارے حق و باطل کےمختلف معرکے برپا ہوئے،قدیم ویدک دور میں یہاں رشی مراقبہ کرتے اور اپنے شاگردوں کونفس پر قابو پانے کی تعلیمات دیتے تھے، گنگا کی طرح راوی کے پانی کوبھی پوجا پاٹ اور مذہبی رسومات میں شامل کرنا نیک شگون سمجھا جاتا ہے۔ اڑھائی ہزار سال پہلےدریائے راوی کو یہ شرف حاصل ہوا کہ نیپال کے شہزادےسِدھارتھ نے اس پر سفر کیا اور راوی کے کنارے اپنے خوبصورت بال کٹواکر بھکشو کا روپ دھارا ،بُدھ مت کے ماننے والوں کیلئےدریائے راوی کا بہتا پانی جنم اور تجدید کی علامت ہے، یہی وجہ ہے کہ جہاں جہاں سے راوی گزرا، وہاں کی بستیوں میں گوتم بُدھ کے شاگردوں نے امن کا پیغام عام کیا، بُدھ مت کے پیروکاروں نے راوی کنارے اسٹوپا اور آشرم قائم کیے،بُدھوں کاماننا ہے کہ دریا اپنی روانی کے ذریعےدنیا کی ناپائیداری اور مسلسل تبدیلی کا استعارہ ہے۔ جین مت میں فطرت کو مقدس مانا جاتا ہے اور جین تعلیمات میں دریا کو زندگی کی بقا اور آتمک شُدھی (روحانی پاکیزگی) کیلئے لازمی قرار دیا گیا ہے، راوی کے کناروں پر جین سنتوں نے تپسیا (ریاضت) کی اور متعدد مندر تعمیر کیے۔ پنجاب سکھ مت کے بانی باباگورونانک کی جائے پیدائش ہے،جن پانچ دریاؤں کی وجہ سے اِسےپنجاب کا نام ملا،ان میں دریائے راوی نمایاں ترین ہے، بابا گورو نانک نے دریائے راوی کے کناروں پر اپنی زندگی کا بڑا حصہ گزارا،انہوں نے راوی کے کنارے واقع کرتارپور صاحب میں اپنی زندگی کے آخری ایام گزارے اور وصال کے بعد دریائے راوی کی لہروں نے بابا گورونانک کے جسدخاکی کو خود میں سمو لیا ۔مغل سلطنت میں دریائے راوی کے کنارے واقع لاہور کو خصوصی شان و شوکت حاصل ہوئی، راوی کے پانی سے شالیمار باغ اور شاہی قلعے کو سیراب کیا جاتا اور مغل فن تعمیر کی شاہکار بادشاہی مسجد میں راوی کے پانی سےمسلمان نمازی وضو کیا کرتے تھے، یہی وہ دور تھا جب دریا کا ویدک نام اراوتی عام عوام میں راوی کے سنسکرت نام سے مشہور ہوگیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ دریائے راوی کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ یہ صرف کسی مخصوص علاقے کا دریا نہیں بلکہ خطے کی تمام مذہبی روایات کا مشترکہ امین ہے۔راوی کنارے بسنے والے ہرمسلمان، ہندو، بدھ، جین اور سکھ نے راوی کو اپنی عقیدت کا محور بنایا ، دریائے راوی نے انگریزسامراج کے عہد کا بھی سامنا کیااور پہلی جنگ آزادی 1857ء میں کمپنی راج کے خلاف جدوجہد کرنے والوں کی گزرگاہ بنا، اسی دریا نے مسجدوں میں گونجتی اذانیں سنیں، ہندو رشیوں کی پوجا دیکھی،بُدھ بھکشوؤں کی وِہار سنی، جین سنتوں کی تپسیا کا نظارہ کیا ، مندروں کلیساؤں میں بجتی گھنٹیاں سنیں اور بابا گورونانک کی تعلیمات کو اپنے کناروں پر پروان چڑھتے دیکھا۔ دریائے راوی ہندوستان کی تاریخ میں صرف ایک جغرافیائی حقیقت نہیں بلکہ مختلف مذاہب کے ماننے والوںکو ایک دوسرے کے قریب لانے کیلئےایک روحانی علامت بنکر اُبھرا،آج ہماری سرزمین پر راوی کنارےکرتار پور کی مانند ایسے بے شمار مقدس مقامات موجود ہیں جہاں مذہبی ہم آہنگی ، برداشت اور بھائی چارے کے فروغ کیلئے نئے سیاحتی منصوبے شروع کیے جا سکتے ہیں۔دریا ئے راوی ہمیں یہ آفاقی پیغام دیتا ہے کہ قدرت کے اصول سب انسانوں کیلئے برابر ہیں اور مذہب کے اختلافات کے باوجود ایک بہتا ہوا دریا سب کو اپنی آغوش میں لے لیتا ہے۔پاکستان میں بسنے والے ہندووؤں کیلئے دریا ئے راوی آج بھی اسی طرح مقدس ہے جیسے گنگا یا جمنا، فرق صرف یہ ہے کہ وقت اور حالات نے اسےہم سے جُدا کر دیا تھا لیکن طویل عرصے بعد اسکی فقید المثال واپسی نے ثابت کردیا ہےکہ دریا اپنی فطرت سے بےوفائی نہیں کرتا، انسان وقتی طور پرتو اسکا قدرتی رُخ موڑ سکتا ہے مگر اسے اپنے قدرتی راستے بھُلانے پر مجبور نہیں کرسکتا۔آج مجھے دریائےراوی اپنی لہروں کی زبان میں تمام پاکستانیوں سے یہ کہتا سنائی دے رہا ہے کہ میں تمہیں چھوڑ کر نہیں گیا تھا، مجھےزبردستی جُدا کردیا گیا تھا،میری واپسی صرف ایک دریا کی واپسی نہیں بلکہ اس احساس کی واپسی ہے کہ قدرت کو جتنا بھی فراموش کر دیا جائے، وہ دھرتی سے کبھی اپنا رشتہ نہیں توڑتی،میں تو دریائے سندھ سے ملنے واپس آیا ہوں، پھر سے خوشحالی کا سندیسہ لیکر ماحول کو آلودگی سے صاف ستھرا کرنے کیلئے آیا ہوں،میرے پانی میں اشنان کرکے موکشا (نجات)حاصل کرلو،سیلاب کی تباہ کاریوں کا مجھے بھی افسوس ہے لیکن اس میں میرا قصور نہیں ، یہ تو انسان کی اپنی کوتاہیوں، نا اہلی، ایک دوسرے سے نفرت اور فطرت سے چھیڑ چھاڑکا نتیجہ ہے۔