دوبڑی عالمی طاقتوں کی آویزش اور لمبی سرد جنگ کے بعد سے دنیا تیزی سے بدل رہی ہے، نئے اتحاد بن رہے ہیں، پرانی دوستیاں ٹوٹ رہی ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ سرد جنگ کے بعد سے دنیا میں جو عدم توازن اور کنفیوژن کی صورتحال تھی اس میں وقت کیساتھ نئے متحارب بلاکس بنتے گئے، چین کی فوجی پریڈ میں روس، چین اور شمالی کوریا کا یک جہتی کا اظہار لازمی طور پر امریکہ کے نئے متحارب فریق کے ابھرنے کا آغاز ہے ۔یہ نیا مقابلہ کیا رخ اختیارکریگا یہ تو آئندہ دنوں میں پتہ چلے گا لیکن بدلتی دنیا میں سب سے زیادہ کنفیوژڈ، غیر محفوظ اور اکیلے مسلم ممالک ہی ہیں۔ سرد جنگ کے دوران دوعالمی طاقتوں کی لڑائی کی وجہ سے بیشتر مسلم ممالک غلامی سے آزاد ہوئے، سرد جنگ کے دوران زیادہ تر مسلمان ممالک ماسوائے چند ایک کے امریکہ اور یورپ کے اتحادی رہے مگر سرد جنگ کے دوسرے بڑے حریف کا لیبیا، عراق، ایران اور شام کو بھی بڑا سہارا رہا۔ ایک زمانے میں مصر بھی روس کا اتحادی رہا مگر پھر انور السادات نے اپنا وزن امریکی پلڑے میں ڈال دیا۔
نائن الیون کے بعد مسلم دنیا نشانہ بن گئی افغانستان کے بعد عراق کی باری آئی صدر صدام رخصت کیے گئے اور پھانسی چڑھائے گئے۔ لیبیا میں خانہ جنگی ہوئی اور صدر قذافی قتل ہوگئے۔ شام میں خونریز جنگ ہوئی دہائیوں سے حکمران خاندان کے بشار الاسد کو فرار ہوکر ماسکومیں پناہ لینی پڑی اور پھر غزہ اور لبنان پر حملوں میں امریکہ اور اسرائیل مخالف فلسطینی حریت پسندوں کو چن چن کر نشانہ بنایاگیا۔ آخر میں ایران کی باری آئی اور چند ہی دنوں میں ایران کے ایٹمی اثاثے اور قابل ترین جرنیل اور سائنسدان سب رخصت کردئیے گئے، گویا اسلامی دنیا میں امریکہ مخالف بلاک کا خاتمہ ہوچکا ہے۔ میری حقیر رائے میں، جس کا پہلے بھی میں ان کالموں میں اظہار کرچکا ہوں، روس نے مشرق وسطیٰ اور مسلم ممالک سے اپنا ہاتھ اٹھالیا ہے اور بدلے میں صرف یوکرائن مانگ لیا ہے۔ نئی صورتحال اسلامی دنیا کیلئے لمحہ فکریہ ہے۔ ایک طرف تو ان میں سرے سے نہ اتحاد ہے اور نہ مستقبل قریب میں اسکا امکان ہے۔ دوسری طرف نئے بننے والے بلاکس میں کہیں بھی انکے پاس فیصلہ کن اختیار ہے اور نہ ہی انہیں اہم ترین حیثیت حاصل رہی ہے۔ چین اور روس، امریکہ کی مخالفت میں ایران،عراق ، لیبیا، شام اور یمن کی حمایت کرتے رہے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ روس اور چین دونوں کو اسلامی انتہا پسندی کا سامنا ہے اور وہ خود اس خطرے سے نمٹنے کیلئے اپنے وسائل صرف کررہے ہیں گویا کسی بھی مسلم ملک کے انتہا پسندانہ مذہبی عزائم کیخلاف امریکہ روس اور چین اکھٹے ہونگے۔
سلطنت عثمانیہ کیخلاف عرب بغاوت سے پہلےبرطانیہ اورفرانس نے افریقہ کےاکثر مسلمان ممالک کو اپنی کالونی بنالیا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد اقوام متحدہ کے قیام اور سرد جنگ کے آغاز کے بعد سے مسلمان ممالک کو آزادی، خود مختاری یا نیم آزادی ملی تو عمومی طور پر دوطرح کے ردعمل سامنے آئے۔ اکثر مسلم ممالک کا حکمران طبقہ مغربی ممالک کو اپنا حلیف بناکر خود کو طاقتور سمجھنے لگا۔ عوامی طور پرمعاشرہ مغرب کی سائنسی ترقی اور جدید طرز زندگی سے متاثر ہوا ، مغربی تعلیم ،طور طریقوں اور فلسفہ زندگی نے مسلمانوں پر گہرے اثرات ڈالے، ترکی میں مصطفیٰ کمال پاشا کی سربراہی میں کمالسٹ تحریک نے جنم لیا ،مصر میں محمد عبدہ نے نظام تعلیم میں تبدیلیاں اور نئی اسلامی تشریحات پر زور دیا، سعد زغلول نے برطانیہ سے آزادی کی تحریک چلائی،عراق میں ینگ ترک تحریک اور کمالسٹ تحریک کے زیر اثر مغرب اور اسلام کے ملاپ سے نئی سوچ نے جنم لیا۔ ہندوستان میںسرسید احمد خان اور علامہ اقبال نےمسلمانوں کو تعلیم،اجتہاد اور نئے نظریات سے ہم آہنگی کا درس دیا۔علامہ اقبال نے تو مسلمانوں کو مغرب سے مرعوبیت کی بجائے اپنی شناخت قائم رکھنے پر بھی زور دیا ۔
مغرب سے متاثرہ تحریکوں کے بالکل مخالف ایک نئی سوچ نے بھی جنم لیا جس میں مسلمانوں کے زوال کو مذہبی فکر سے دوری کیساتھ جوڑا اور مسلمانوں کی مذہبی نشاۃ ثانیہ پر زور دیا گیا۔ ترکی کے اندر کمالسٹ حکمرانوں نے اسلام پسند تحریکوں کو اٹھنے نہ دیا مگر ابھی تک ان تحریکوں کے اثرات اردوان کی شکل میں کہیںنہ کہیں نظر آتے ہیں تاہم مصر میں اخوان المسلمین اور پاکستان میں جماعت اسلامی نے مکمل اسلامی نظام کو مسلمانوں کا ہدف اور انکی ترقی کا واحد راستہ قرار دیا۔ جماعت اسلامی نے چند مستثنیات کے علاوہ پرامن سیاسی تحریک کے ذریعے اسلامی انقلاب کا راستہ اپنائے رکھا مگر اخوان المسلمین پر تشدد راستے پہ گامزن ہوگئی اور اسکے اثرات نہ صرف مصر میں انور السادات کے قتل پر منتج ہوئے بلکہ اس قتل کا معاون ایمن الظواہری پاکستان میں بے نظیر بھٹو کے قتل کا منصوبہ ساز بھی نکلا۔ اخوان کی سوچ میں انتہا پسندی آتی گئی افغانستان کے اندر روس کیخلاف جنگ نے دنیا بھرکے مسلم انتہا پسندوں کو اسلامی جہاد کے نام پر اکٹھا کیا، اس زمانے میں اس کازکو امریکہ کی حمایت حاصل تھی چنانچہ دنیا بھر کے اسلامی ممالک حتیٰ کہ امریکہ اور روس تک اسکے اثرات پہنچے، نائن الیون نے امریکہ کو جہادی خطرے کیخلاف لڑنے پر آمادہ کیا اور ماسکو کے اندرچیچنیا کے افغانستان میں تربیت یافتہ جہادیوں نے سینکڑوں شہریوں کو قتل کیا جس سے دنیا بھر میں جہاد کے ذریعے اسلامی نشاۃ ثانیہ کا خواب ادھورا رہ گیا۔حزب اللہ کی لبنان میں تباہی اور غزہ میں حماس قیادت کے خاتمے کے بعد اسلامی دنیا ایک دفعہ پھر بڑے فکری بحرا ن کا شکار ہے ایک طرف اسے اپنی بقاکی جنگ لڑنی ہے، اپنی انفرادیت برقرار رکھنے کیلئے جدوجہد کرنی ہے اور دوسری طرف نئے زمانے کیساتھ قدم بھی ملاکر چلنا ہے۔
حالیہ ایس سی او اور پھر چین کی فوجی پریڈ کے بعد پہلی بار امریکی صدر ٹرمپ کی طرف سے روس، چین اور شمالی کوریا کے اتحاد پر منفی ردعمل آیا ہے اس نئی پیش رفت کے بعد اسلامی ممالک کیلئے ایک نیا مخمصہ پیدا ہوگیا ہے کہ وہ آنیوالے دور میں کس راستے کا انتخاب کریں گو روس یا چین کی کسی بھی اسلامی ملک سے دشمنی نہیں مگر چین کی فوجی پریڈ میں صرف جن دو مسلم ممالک کی شرکت کا نمایاں طور پرنام لیا گیا ان میں پاکستان اور ایران شامل ہیں۔ کسی زمانے میں امریکہ کا قریب ترین حلیف اسلامی ملک سعودی عرب تھا لیکن حالیہ پاک بھارت جنگ کے بعد سے پاکستان بھی امریکہ کے قریب ترین حلیفوں میں شمار ہونے لگا ہے یہ بھی قیاس آرائی کی جارہی ہے کہ ایران اور امریکہ کے درمیان جنگ بندی اور مصالحت میں پاکستان نے فیصلہ کن کردار ادا کیا ہے حیران کن طور پر پاکستان چین کے بھی بڑے اتحادیوں میں نہ صرف شمارہوتا ہے بلکہ حالیہ فوجی پریڈ میں اس کا اظہار بھی ہوا ہے، کہا جارہا ہے کہ پاکستان ، چین اور امریکہ کے درمیان تعلقات میں توازن رکھنے میں کامیاب ہوجائیگا۔ مگربدلتے ہوئے حالات میں مسلم ممالک بالعموم اور پاکستان بالخصوص دوراہے پرکھڑے ہیں۔ مسلم دنیا میں اسوقت کوئی ایسا بڑا لیڈر یا ملک نہیں جس کی قیادت پر سب کا اتفاق ہو۔ فکری اور نظریاتی طور پر مذہبی انتہا پسندی کیخلاف بین الاقوامی اتحاد کے بعد سے طالبان، القاعدہ، اخوان، آئی ایس آئی ایس کے راستے پر چلنا خطرناک اور تباہ کن ہوچکا۔ دوسری طرف مسلم ممالک میں جمہوریت ابھی تک ابتدائی منزلوں میں ہے اکثر ملکوں میں تو بادشاہی اور آمرانہ نظام قائم ہیں جبکہ تقریباًہر اسلامی ملک میں جہادی گروپس سب سے بڑی اپوزیشن ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اسرائیل نے لبنان ، شام، غزہ اور ایران میں گرائونڈ فورس نہیں بلکہ ٹیکنالوجی اور مصنوعی ذہانت کے ذریعے نشانے لگائے۔ مسلم دنیا جب تک تعلیم سائنس اور ٹیکنالوجی میں قدم نہیں جماتی انکی دولت، طاقت حتیٰ کہ نیوکلیئر صلاحیت بھی انہیں دستِ نگر ہی رکھے گی، انکی آزادی، خود مختاری یا مکمل خوشحالی ہمیشہ کمپرومائز ہی رہے گی۔ دیکھنا یہ ہے کہ مسلم دنیا کیا اس بار کوئی مثبت انگڑائی لیکر آزادی، جمہوریت اور خوشحالی کی طرف بڑھے گی یا نہیں؟۔