• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مرتب: محمّد ہمایوں ظفر

یہ 2006ء کی بات ہے، اُس وقت میں نویں جماعت میں زیرِ تعلیم تھی۔ ہمارا اپنا کوئی گھر نہیں تھا اور میری والدہ نے روز مرّہ اخراجات سے بچت کرکرکے کچھ رقم پس انداز کی تھی۔ رشتے داروں سے مکان یا پلاٹ خریدنے کے ضمن میں مشورہ کیا، تو سب ہی نے کہا کہ دو بچّوں کا ساتھ ہے، شوہر کا سایہ بھی سر پہ نہیں، بہتر یہی ہے کہ کوئی پلاٹ خرید لو۔ پھر چند برسوں میں یا تو رقم جوڑ کے گھر بنوالو یا منافعے پہ فروخت کردینا۔ امّی کو یہ مشورہ پسند آیا۔ آس پاس کے لوگوں سے بات کی۔ 

ہماری نانی کی ایک پرانی پڑوسی خاتون سے امّی کی برسوں کی جان پہچان تھی، وہ میری امّی کی بچپن کی سہیلی بھی تھیں۔ اُن کے بڑے بھائی، جنھیں ہم عقیل ماموں کہتے تھے، امّی کے منہ بولے بھائی بنے ہوئے تھے۔ برسوں کے غمی، خوشی کے ساتھی تھے۔ عقیل ماموں سے بات کی، تو انھوں نے بتایا کہ’’ میری سالی کے شوہر رئیل اسٹیٹ کا کام کرتے ہیں، وہ کوئی اچھا سا پلاٹ دلوا دیں گے۔‘‘

پھر چند روز بعد عقیل بھائی رئیل اسٹیٹ والے سے ہمارا رابطہ کرواکے، دوسرے ہی روز کراچی کے مضافات میں میری والدہ کو پلاٹ دکھانے لے گئے اور بتایا کہ کچھ عرصے میں یہاں آبادی ہو جائے گی، تو پلاٹ کی قیمت دگنی ہو جائے گی۔ امّی نے کہا کہ ’’مجھے تو اِن معاملات کی کوئی سمجھ بوجھ نہیں، سارا معاملہ عقیل بھائی ہی دیکھیں گے، انھیں اگر مناسب لگے گا، تو سودا طے کرلیں گے۔‘‘ خیر، بات بن گئی، بیعانہ نامے پر دستخط ہوگئے۔

کچھ روز بعد جب پلاٹ کی پیمنٹ کا دن آیا، تو عقیل بھائی نے کہا کہ ’’ہم گاڑی لے کر آئیں گے اور آپ کو بینک لے جائیں گے، پھر وہیں رقم کی ادائی اور کاغذات وغیرہ کا کام ہو جائے گا۔‘‘ امّی نے میرے بھائی کو بھی لے لیا، جو اس وقت محض 14برس کے تھے۔ جب گاڑی آئی تو اُنھوں نے بتایاکہ پلاٹ کے مالک کو بھی راستے سے اُٹھانا ہے، گاڑی میں اتنی جگہ نہیں ہے کہ آپ کا بیٹا بھی جاسکے، لہٰذا امّی اکیلی ہی ان لوگوں کے ساتھ چلی گئیں۔ 

وہ لوگ پہلے امّی کو لے کر بینک گئے اور وہاں سے رقم نکلوا کر کسی اَن جان گلی میں گاڑی پارک کردی، تھوڑی دیر میں عجیب و غریب حلیے کا ایک شخص گاڑی میں آکر بیٹھ گیا، جس کے متعلق عقیل ماموں نے بتایا کہ یہ پلاٹ کا مالک محمد رمیز ہے۔ اس شخص کی قمیص کچھ جگہوں سے پھٹی ہوئی تھی، کہنی اور گالوں سے ہلکا ہلکا خون رِس رہا تھا، جیسے کسی سے ہاتھا پائی ہوئی ہے۔ یہ دیکھ کر امّی پریشان ہوگئیں اور اس بابت دریافت کیا ،تو اُس نے بتایا کہ ’’ارے کوئی بات نہیں باجی، ابھی کچھ دیر پہلے سڑک پہ ایک بائیک والے نے ٹکر مار دی تھی۔

زیادہ چوٹیں نہیں آئیں، بس یہاں سے کام نمٹا کے مرہم پٹی کروا لوں گا، آپ فکر نہ کریں، وقت کم ہے۔ گاڑی ہی میں کاغذات اور پیسوں کا لین دین کر لیتے ہیں۔‘‘ امی نے بادل نخواستہ کاغذات پر دستخط کر کے عقیل بھائی کو تھمادیئے کہ آپ چیک کر لیں۔ انہوں نے الٹ پلٹ کر دیکھا اور فوراً ہی اعلان کردیا کہ ’’سب ٹھیک ہے‘‘ تو امّی پیسے دے کر کاغذات لے کر گھر آگئیں۔ گھر آکر فائل کھول کر کاغذات دیکھے تو معلوم ہوا کہ وہ جعلی تھا۔ پلاٹ کے مالک کے نام کے بجائے ہر جگہ کسی اور کے نام اور دستخط تھے۔ یہ دیکھ کر امّی بہت پریشان ہوگئیں۔

عقیل بھائی کو فون کیا، تو انھوں نے نہیں اٹھایا۔ چاروناچار، اُن کے گھر گئیں اور کاغذات دکھا کر بتایا کہ یہ جعلی ہیں، تو انہوں نے کہا کہ ’’میری سالی کے شوہر سے بات کریں، مجھے نہیں پتا، کیا معاملہ ہے۔‘‘ امی دو تین بار اُن کے گھر گئیں، مگر ہر بار اُن کی بیوی بہانہ بنا دیتی کہ میرے شوہر گھر پہ نہیں ہیں۔ امّی کے کئی بار چکر لگانے پر عقیل بھائی نے صاف کہہ دیا کہ ’’میرے سسرال کا معاملہ ہے، مَیں کچھ زیادہ نہیں کر سکتا، آپ جانیں اور میری سالی کے شوہر جانیں۔‘‘

خیر، امّی مایوس ہو کر دوبارہ اُن کے گھر پہنچیں۔ کافی دیر ہم لوگوں نے دروازہ بجایا۔ اس بار تو اُن کی بیوی نے دروازہ تک نہیں کھولا۔ گرمیوں کے دن تھے۔ ہم ایک گھنٹے کا بس کا سفر کر کے اُن کے گھر جاتے تھے۔ گرمی اور پیاس سے ہم دونوں ماں، بیٹی کی حالت خراب ہوجاتی تھی، ایک بار سوچا کہ نیچے کرائے داروں کا دروازہ بجا کر پانی ہی مانگ لیں۔ اُن کی کرائے دار بہت اچھی خاتون تھیں۔ انہوں نے گھر کے اندر بلا کے بٹھایا۔ امّی نے انھیں پورا قصّہ سنایا، تو بہت افسوس کرنے لگیں کہ ’’ہائے، آپ بھی پھنس گئیں۔

ان کا تو کاروبار ہی یہی ہے کہ لوگوں کو لے جا کر کوئی فرضی پلاٹ دکھا کر پیسے بٹور لیتے ہیں۔ آپ سے پہلے بھی دو تین لوگ اس طرح چکر لگا لگا کے ہار مان چکے ہیں۔‘‘ امی نے کہا۔ مَیں پولیس کے پاس جا کے کیس کروں گی، تو بولیں۔ ’’کوئی فائدہ نہیں، پولیس کچھ نہیں کرے گی، یہ انھیں پیسے کھلاتے ہیں ۔ 

آپ ہی کا وقت اور پیسے برباد ہوں گے۔‘‘ یہ تفصیلات سن کر ہم وہاں سے ناکام لوٹ گئے۔ تاہم، اس کے بعد بھی امّی نے اپنے تئیں بہت کوشش کی، مگر کچھ حاصل نہیں ہوا۔ عقیل بھائی کے پورے خاندان والوں نے امّی سے تعلق ختم کر لیا کہ کہیں وہ انھیں کیس میں پھنسا نہ لیں۔

بالآخر امّی نے تھک کر ہار مان لی۔ ایک اکیلی عورت بھلا کہاں تک اتنے بدمعاشوں سے لڑتی۔ اپنی ساری جمع پونجی لٹا کے گھر بیٹھ گئیں، مگر ان لوگوں کے مکروفریب کا جھوٹا کاروبار یونہی جاری ہے۔ نہ جانے معاشرے میں ایسے کتنے ہی لوگ غریب معصوم لوگوں کے جمع پونجی لوٹ کے اپنا کاروبار چمکا رہے ہیں اور حرام کی کمائی پہ عیش کر رہے ہیں۔ (قرأت نقوی، ٹیکساس، امریکا)

ناقابلِ اشاعت نگارشات اور اُن کےتخلیق کار

برائے صفحہ ’’ناقابلِ فراموش‘‘

٭ بھینس کا واقعہ +تھانے دار کا گھوڑا+آدمی بلبلہ ہے پانی کا (ظہیر انجم تبسّم، جی پی او، خوشاب)٭سپنوں کے گائوں میں (جمیل ادیب سیّد)٭شہر میں دندناتے قاتل، خونی ڈمپرز (زہرا یاسمین، کراچی)٭معجزے اب بھی ہوتے ہیں(سہیل رضا تبسم،کراچی) ٭پرندے کی قبر (انجینئر محمد فاروق جان ، اسلام آباد)

برائے صفحہ’’ متفرق‘‘

٭ٹیپو سلطان: اِک مردِ مجاہد(بابر سلیم خان، لاہور)٭ حکیم محمد سعید شہید کا طرز زندگی، مشعلِ راہ +پنڈت نیول کشور، غیر مسلم کا ناقابلِ فراموش واقعہ (ارشد مبین احمد)٭ ریل کی پٹری (ڈاکٹر محمد عظیم شاہ بخاری)٭ حسینہ معین (ذوالفقار نقوی)٭تیس سالہ ادبی محافل کی روداد، (یگانہ نجمی)