• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مرتب: محمّد ہمایوں ظفر

میری پیاری خالہ، نگار، اگرچہ اب اِس دنیا میں موجود نہیں، لیکن اُن کی بے لوث محبّت، خلوص اور شفقت بَھرا چہرہ مجھے آج بھی اچھی طرح سے یاد ہے۔ وہ جو ہے ناں کہ ؎ اِک شخص سارے شہر کو ویران کرگیا۔ میرے نانا ابّو محمد اکرم لودھی کی تین بیٹیوں میں نگار خالہ تیسرے نمبر پر تھیں۔ نانا ابو، جیکب آباد کی معروف کاروباری شخصیت اور اناج کے معروف بیوپاری تھے۔

انہوں نے اپنی اولاد کی بہت اچھے انداز میں پرورش کی۔ نانا ابّو اور نانی نے خالہ نگار کی شادی بچپن ہی میں جیکب آباد کے معروف ڈینٹل سرجن، ڈاکٹر محمد یونس لودھی سے کردی تھی۔ خالہ جب کبھی اپنی بڑی بہن یعنی میری امّی جان سے ملنے جیکب آباد سے حیدر آباد آتیں، تو جیکب آباد کی مشہور سوغات، مٹھائی ضرور لے کر آتیں۔

بچپن میں وہ ہم سب بہن، بھائیوں میں سب سے زیادہ پیار مجھ سے کرتی تھیں بلکہ مجھ پر جان نچھاور کرتی تھیں۔ صبح سویرے اٹھ کر سب سے پہلے ناشتا کرواتیں، پھر اسکول کے لیے تیار کرتیں، اسکول سے گھر آتا، تو اپنے پاس بٹھاکر دوپہر کا کھانا کِھلاتیں، کھانے کے بعد ہوم ورک سے متعلق پوچھتیں، جب ہوم ورک مکمل کرکے انھیں دِکھا دیتا، تو خوش ہوکر کچھ پیسے دے دیتیں۔

ایک روز حسبِ معمول خالہ نے مجھے اسکول جانے کے لیے تیارکیا، تو مَیں نے ضد شروع کردی کہ اسکول نہیں جاؤں گا۔ پہلے تو خالہ نے پیار سے سمجھانے کی کوشش کی، لیکن کسی طرح نہ مانا، تو انہوں نے زچ ہوکر میرے گال پراچانک ایک زوردار سے تھپڑ رسید کردیا۔

تھپڑ اس قدر شدید تھا کہ میری آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔ خالہ نے صرف اسی پر بس نہیں کیا، غصّے سے ہاتھ پکڑ کر کہنے لگیں کہ ’’آج تو تیرے اچھے بھی اسکول جائیں گے۔‘‘لیکن میں خالہ سے ہاتھ چھڑوا کر باہر بھاگ گیا اور گھر کے باہر ایک بڑے گندے نالے کے پاس جاکر بیٹھ گیا۔ اس دوران ایک بس بالکل میرے قریب آکر رُکی۔ 

اس کے پچھلے حصّے پر لوہے کا ایک تِیر نما سریا تھا، جس کی دو طرف سے نوکیں نکلی ہوئی تھیں۔ مسافروں کے بیٹھنے کے بعد بس چلی، تو مَیں اُس وقت بس کے بالکل نزدیک کھڑا تھا، وہ میرے پاس سے گزرتے ہوئے جیسے ہی آگے بڑھی، اس میں لگا لوہے کا سریا میرے پاؤں کو چیرتا چلا گیا اور مَیں بری طرح زخمی ہوگیا، شدید ضرب لگنے کی وجہ سے میں تڑپ کر رہ گیا اور میری چیخیں نکل گئیں۔

تاہم، اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ موقعے پر موجود لوگوں نے مجھے بروقت قریبی اسپتال پہنچاکر میرے گھروالوں کو اس حادثے کی اطلاع کردی۔ اطلاع ملتے ہی گھر والے فوری طور پر اسپتال پہنچ گئے۔ ڈاکٹرز نے فوری طبی امداد کے بعد میرے زخم پر 32ٹانکے لگائے۔ کئی ماہ بعد زخم بَھرے تو چلنے پھرنے کے قابل ہوا۔

آج بھی جب اپنے پاؤں کی طرف دیکھتا ہوں، تو بے اختیار خالہ نگار یاد آجاتی ہیں۔ اگر اُس روز اُن کی بات مان لیتا، ترو اتنی بڑی تکلیف کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ اللہ تعالیٰ میری پیاری خالہ کی مغفرت فرمائے اورانھیں جنّت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ (اسلم قریشی، آٹوبھان روڈ، ٹھنڈی سڑک، حیدرآباد)