• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان اس وقت سیلاب کی شدید لپیٹ میں آچکا ہے، ہمارے دریاؤں میں طغیانی اور ندی نالوں میں بے قابو بہاؤ معمول بن چکا ہے۔مختلف علاقوں میں کلاؤڈبرسٹ کی خبریں سامنے آرہی ہیں، لاتعداد گھروں کی تباہی، کھیتوں کا ڈوبنا، سڑکوں اور پلوں کی بربادی اور لاکھوں لوگوں کا بے گھر ہونا ایک نئے انسانی بحران کو جنم دے رہا ہے۔ ہر سال مون سون کی بارشوں کے بعد یہی منظرنظر آتا ہے اور ہر بار یہی سوال اٹھتا ہے کہ آخر ہم کب تک بے بسی کا مظاہرہ کرتے رہیںگے؟ہر مرتبہ کالاباغ ڈیم کے تناظر میں قومی میڈیا میں بحث چھِڑ جاتی ہے، کچھ حلقوں کا کہناہے کہ ڈیم سیلاب کو روکتے ہیں، آج اگر کالاباغ جیسے ڈیم موجود ہوتے تو پانی کا ذخیرہ کرلیا جاتا اور ایسی بحرانی صورتحال کا سامنا نہ کرنا پڑتا، تاہم دوسری طرف یہ دعویٰ بھی کیا جاتاہے کہ ڈیم اصل میں سیلاب کو آگے بڑھاتے ہیں ، اگر دریائی پانی کو اپنے قدرتی بہاؤ پر بغیر کسی رکاوٹ بہنے دیا جائے تو وہ اتنا زیادہ تباہ کُن ثابت نہیں ہوسکتا۔ ایسے حالات میں واٹر وارجیسا بھارت مخالف بیانیہ بھی شدت سے اُبھر کر سامنے آتا ہے کہ ہمارا پڑوسی ملک خفیہ طور پر ہمارے خلاف آبی جارحیت کا مرتکب ہورہا ہے، ایک طرف سرحد پارمختلف ڈیم تعمیر کرکے پاکستان کو پانی سے محروم کیا جارہا ہے تو دوسری طرف ڈیم کے دروازے کھول کر بپھرے پانی کو پاکستان کی طرف جان بوجھ کر تباہی مچانے کیلئے چھوڑ دیا جاتاہے۔ کسی زمانے میں پانچ دریاؤں کی سرزمین کہلانے والے پنجاب کے دریا اپنے اپنے فطری راستوں پر پوری آن بان شان سے بہا کرتے تھے، انکے اردگرد چراہ گاہیں اور جنگل تھے، یہ جہاں سے گزرتے تھے وہاں کی سرزمین کو آلودگی سے پاک کرکے زرخیز کردیتے تھے، یہ دریا ہزاروں کلومیٹر کا سفرطے کرکے دریائے سندھ میں جاملتے تھے، اگر کبھی شدید بارشوں کا سامنا کرنا پڑجاتا تو ان دریاؤں کے پانی کو انسانی آبادی میں تباہی مچانے کیلئے داخل ہونے سے پہلے ہی دائیں بائیں کی چراہ گاہیں اپنے اندر سمو لیتیں، یہ چراہ گاہیں عوام کی سانجھی ہوتی تھیں جہاں فطری طور پر چرند پرند کی پرورش ہوا کرتی تھی، انگریزوں نے انہی دریاؤں کے پانی کا بہترین استعمال کرتے ہوئے دنیا کا سب سے بڑا زبردست نہری نظام قائم کیا۔ جغرافیائی طور پر پاکستان میں بہنے والے تمام دریا بھارت کے زیرانتظام علاقوں سے ہوکر آتے ہیں،تاہم ساٹھ کی دہائی میں سندھ طاس معاہدے کے تحت دونوں پڑوسی ممالک دریاؤں کی تقسیم پر راضی ہوگئے اور دونوں ممالک میں نئے ڈیم کی تعمیرات کا آغاز ہوگیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ دریاؤں کے رُخ موڑے جانے لگے، ہزاروں کلومیٹروں والے عظیم الشان دریا نہروں ندی نالوں کا روپ دھارنے لگے، چراگاہوں جنگلات پر قبضے کرلیے گئے، پہاڑ کاٹے جانے لگے، خشک دریاؤںکے پاٹوں میں بستیاں بسالی گئیں اور ماضی کے دریاؤں کی سرزمین پر کنکریٹ کی عمارتیں تعمیر کر لی گئیں۔ یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ ڈیم بذاتِ خود سیلاب پیدا نہیں کرتے۔ ان کا بنیادی مقصد پانی ذخیرہ کرنا اور بجلی پیدا کرنا ہے لیکن جب غیرمعمولی بارشوں کا سامنا کرنا پڑجائے اور ڈیم اپنی گنجائش سے زیادہ بھر جائیں توپھر بند توڑنے اور ڈیم کے اسپل ویز کھولنے کے علاوہ اور کوئی آپشن نہیں ہوتی، جب سرحد پار ڈیم پانی سے لبالب بھر جاتے ہیں تو وہاں کا چھوڑا ہوا پانی ٹھاٹھیں مارتا پاکستان میں داخل ہوجاتا ہے، اسی طرح جب ہمارے اپنے ملک میں جب تربیلا، منگلا یا راول ڈیم بھر جاتے ہیں تو ہمیں بھی یہی راستہ اختیار کرنا پڑتا ہے، ماہرین کی نظر میں یہ عمل حالات کا تقاضا قرار دیا جاتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہمارا پورا خطہ کلائمیٹ چینج کے شدید منفی اثرات کا سامنا کر رہا ہے ، کبھی غیر معمولی بارشیں اور سیلاب، کبھی خشک سالی اور پانی کا بحران، اور کبھی گلیشیئرز کے تیزی سے پگھلنے کے خطرات پاکستان اور بھارت میں بسنے والوں کیلئے یکساں طور پر باعثِ تشویش ہیں، ایسی صورتحال میں اگر ہمارا پڑوسی اپنی جغرافیائی پوزیشن کا ناجائز فائدہ اُٹھاتے ہوئے دانستہ طور پر پانی روکنے یا چھوڑنے کی پالیسی اختیار کرکے واٹر وار مسلط کرنے کی کوشش کرتا ہے تو پاکستان کو انسانی بحران کی صورت میں نقصان پہنچے گا لیکن اس سے پورےخطہ بشمول بھارت عدم استحکام کا شکار ہوجائے گا۔ بھارت سرکار کو سمجھنا چاہیے کہ واٹر وار ایک ایسی جنگ ہے جو کسی بھی صورت میں نہیں جیتی جا سکتی ،پانی مالک کا اپنی دھرتی کے باسیوں کیلئے انمول تحفہ ہے، پانی کو ہتھیار یا دشمن کے طور پر نہیں بلکہ قدرت کی امانت سمجھ کر بہترین استعمال میں لانے کی ضرورت ہے ۔ آج ہمیں سیلابی پانی کا سامنا جذباتی نعروں اور پروپیگنڈے سے نہیں بلکہ حقیقت پسندی اور دانشوری سے کرنےکی ضرورت ہے۔آج سرحد کے آرپار سیلابی ریلےدونوں ممالک میں بسنے والوں کو یہ پیغام دےرہے ہیں کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ قدرتی ماحول سے ہم آہنگ ہوکر ہی کیا جاسکتا ہے،ضرورت اس امر کی ہے کہ دونوں ممالک پانی کو دوطرفہ تعلقات میں بہتری کیلئے استعمال کریں، پانی سے بجلی پیدا کرنے، زراعت کو سہارا دینے اور ماحولیات کو بہتر بنانے کے منصوبے بنائے جائیں۔اگردونوں پڑوسی ممالک کے مابین واٹرمینجمنٹ سسٹم بہتر ہو، سیلاب کی پیشگی وارننگ نظام موثرہو اور دریائی بہاؤ کےفطری راستے صاف رکھے جائیں تو نقصان کم سے کم ہو سکتا ہے۔ میری نظر میں غربت ، بے روزگاری اور مہنگائی جیسے مسائل میں گھرے ہمارے خطے کے باسیوں کیلئے پانی ایک ایسا وسیلہ بن سکتا ہے جو دوطرفہ تعلقات، علاقائی امن اور باہمی اعتماد سازی کی نئی راہیں متعین کرسکتاہے۔ تاہم اصل سوال یہ ہے کہ کیا ہم واٹر وار کی آڑ میں پانی کو ہتھیار سمجھ کر اپنے اپنے علاقے ڈوبتے دیکھتے رہیں گے یا قدرت کے انمول تحفے کو دوستی کا پل بنا کر آنے والی نسلوںکیلئے روشن مستقبل کی بنیاد رکھیں گے؟

تازہ ترین