• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گرگٹ کے رنگ اور پی-ٹی-آئی کی ریاست دشمن پالیسیاں

اشارہ … 

کیا پی-ٹی-آئی کی اعلیٰ قیادت دہشتگردوں کے خلاف ریاست اور فوج کے ساتھ کھڑی ہے؟ کیا اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں کی نسل کشی پر پی-ٹی-آئی کی کوئی مذمتی بیان سنائی دیا؟؟ یا یہ کہ پی-ٹی-آئی کو 9 مئی 2025 کو بھارت کے خلاف پاکستان کی تاریخی فتح ہضم کیوں نہیں ہوئی؟ اور کیا تحریک انصاف کی جانب سے سوشل میڈیا پر پاکستان کے خلاف زہریلا پروپیگنڈا بھارت سے ہینڈل نہیں ہوتا؟؟ انتہائی تلخ اور دلگیر سوالات ہیں جس کا جواب شرمندگی کے علاوہ کچھ نہیں۔ سیاست میں مہذب اقدار اور مثبت رویوں کو ماننے والے باشعور عوام پاکستان تحریک انصاف یعنی عمران خان کی گمراہی قبول نہیں کرتے جس کا راستہ تشدد، غنڈہ گردی، تکبر، کرختگی، عدم برداشت، منفرد مذہبی عقائد اور سوچ، بھارت اور اسرائیل سمیت ریاست دشمنوں کے ساتھ دوستی، دہشتگرد تنظیموں سے عقیدت،حقیقی آزادی کی آڑھ میں ریاست کے خلاف بغاوت، انسانیت کی تضحیک،آمرانہ طرز سیاست، نسلوں کی تباہی اور ریاست کے خلاف نفرت پھیلانے کا ایجنڈہ تحریک انصاف کے منشور کی بنیاد کے طور پر معاشرے کی رگوں میں اتارنا بڑا مقصد ہے! جو بھارت اور اسرائیلی ایجنسیوں کے ذریعے دنیا بھر میں پھیلایا جارہا ہے۔پی ٹی آئی کا ٹی ٹی پی کے موقف کی تائید پاکستانی سیکیورٹی اداروں کی جانب سے دہشت گردی کے خلاف آپریشنز کو نقصان پہنچانے کی ایک مربوط کوشش مانی جاتی ہے۔ماضی میں پی-ٹی-آئی نے ملک میںبڑھتی ہوئی دہشتگردی کے خاتمے کے لئے ان ریاست دشمنوں کے خلاف آپریشن کی بھرپور مخالفت کرتے ہوئے دہشتگرد تنظیموں کے ساتھ مذاکرات پر زور دیا اور ماضی میں اس اقدام کو اپنی کامیابی قرار دیا۔ پی ٹی آئی نے TTP کے 40000 سے زائد دہشتگردوں کی بحالی کی وکالت کی اور جب پاکستان میں دہشتگردی عروج پرتھی، خیبرپختونخوا حکومت نے ٹی ٹی پی کے ساتھ مفاہمت کی تجویز پیش کی اور پارٹی پالیسی کے طور پر مستقل طور پر کاؤنٹر ٹیررزم کی کوششوں کی مخالفت کرتی رہی اور ہم خیال جماعتوںکےساتھ متحرک کارروائیوں کو روکنے کے لیے گینگ اپ ہوئی۔ پی ٹی آئی انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور مظلومیت کے کارڈ کا استعمال کر کے دہشت گردی کے خلاف جاری آپریشن کو متنازع بنانے کی کوشش کرتی رہی اور دہشتگردی کے نتیجے میں شہید ہونے والے پاکستانیوں کے لئے ہمدردی کا جملہ بھی ادا نہیں کیا جبکہ افغانستان میں TTA کے قبضے کے بعد، پاکستان کو دہشت گردی کرنے اور دراندازی میں افغان شہریوں کی شمولیت میں تیزی سے اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جبکہ تحریک طالبان افغانستان نے تحریک طالبان پاکستان میں ضم کردیا جس کے بعد پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں تشویشناک حد تک اضافہ ہوا ہے جبکہ TTA کے حامی کابل حکومت کی واضح ملی بھگت سے آزادانہ طورپر ٹی-ٹی-پی اور دوسرے پاکستان دشمن تنظیموں میں شامل ہو رہے ہیں۔ یہ بھی واضح ہے کہ جب بھی پاکستان نے TTA حکومت کے دوغلے پن کو بے نقاب کیا اور افغانستان میں طرز عمل میں تبدیلی کے لیے کوششیں کیں، تحریک انصاف نے دونوں دہشتگرد تنظیموں کی حمایت کی۔ یہ امر واضح ہے کہ پی- ٹی-آئی نے دونوں علاقائی دہشتگرد تنظیموں کو خوش کرنے اور ریاست کے ساتھ مخالفت ظاہر کرنے کے لئے انہی تنظیموں کی پالیسیاں اپنائیں یعنی پی ٹی آئی TTP کے موقف کی تائید کے ذریعے دنیا میں یہ تاثر پیدا کرنے کی کوشش کر رہی ہے کہ حکومت پاکستان اور عوام میں دہشت گردی کے خلاف آپریشنز کے حوالے سے اتفاق رائے موجود نہیں اور کم سے کم ملک کے ایک صوبے کے عوام دہشتگردوں کے خلاف آپریشن کے حامی نہیں بلکہ وہ ملک کی سلامتی کے اس سنگین مسئلے کو عام معاملہ قرار دیتے ہوئے مذاکرات کے ذریعے طے کرنے بات کرتا ہے۔8 ستمبر 2025 کو اڈیالہ جیل کے سامنے پیش آنے والا افسوسناک واقعہ جہاں تحریک انصاف کی عدم برداشت کی صورت میں خونخوار سیاست کا ثبوت ہے وہاں روشن مستقبل کی خواہش رکھنے والی نوجوان نسل کے لئے لمحۂ فکریہ بھی ہے۔یہ تاثر بھی عام ہے کہ تحریک انصاف کی عبوری قیادت میں سنگین تقسیم اور بعض مواقع پر دراڑیں دکھائی دے رہی ہیں، اس تقسیم کی بنیاد اسٹیبلشمنٹ کی طرف جھکاؤ رکھنے اور ان سے بظاہر اختلاف کرنے والے قائدین کے درمیان کھلے اختلافات پر ہو سکتی ہے، پرو اسٹبلشمنٹ اور اینٹی اسٹبلشمنٹ گروپس اپنے اپنے آقاؤں کو خوش کرنے کے لئے کسی بھی انتہا تک جا سکتے ہیں جس میں عبوری قائدین کی جانب سے خود کو’’نمک حلال‘‘ ثابت کرنے کی کوشش میں اپنی مبینہ منفی سیاست کی تائید کرانے کے لئے صحافیوں کو اطاعت پر مجبور کرنے اور ان کی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں، فرائض کی ادائیگی میں خلل اور تشدد کے ذریعے پیشہ ور صحافیوں سے سوال کا بنیادی حق سے محروم کرنے کی بھونڈی کوشش تھی۔

تازہ ترین