• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ بے نام لوگوں کی بے نام کہانی ہے۔ اس کہانی کا آغاز کب ہوا اور اسکا انجام کیا ہوگا یہ کسی کو بھی معلوم نہیں۔ یہ نوحہ ہے، المیہ داستان ہے، یہ بادشاہوں کے دربار کے طربیہ کرداروں کے متعلق نہیں بلکہ صدیوں سے پستے لوگوں کی آہ ہے، یہ مسخروں کی کہانی نہیں یہ خون پسینہ بہانے والوں کی داستانِ الم ہے۔ کہاں سے شروع کروں جب شیر دریا سندھ میں سونا بہتا تھا اور دیوقامت گدھ اس سونے کی حفاظت کیا کرتے تھے۔ موہنجوداڑو سے شروع کر لیں۔ یہ اسکے ایک بے نام محنت کش کی کہانی ہے جس نے معبد کے تالاب میں اس ترتیب سے اینٹوں کو لگایا کہ وُہ ہزاروں سال بعد بھی اسی طرح جڑی ہوئی ہیں، خشخشی داڑھی اور پھولوں بھری اجرک پہنے سائیں سندھو نے تقدس کی چادر اوڑھی تو تالاب بنانیوالے محنت کش کو وہاں آنے سے روک دیا، کہاں کی آزادی اور کہاں کی مساوات؟ یہ لڑائی ازل سے شروع ہوئی اور تاابد جاری رہیگی۔ ول ڈیورانٹ کی پوری انسانی تہذیب کی کہانی یہی تو کہتی ہے کہ انسانیت کو آزادی اور مساوات پانے کی شدید خواہش ہے۔ انسانی تہذیبیں اسی کشمکش میں رہیں کبھی آزادی ملی تو مساوات نہ ملی۔ کہیں مساوات مل گئی تو آزادیاں چھن گئیں اور کئی کربلائیں تو آج بھی ایسی ہیں کہ وہاں جبر اور ناانصافی بدرجہ اتم ہے، لیکن نہ مساوات ہے اور نہ ہی آزادی۔

اسی زمانے میں ہڑپہ کے کاریگر کی کہانی بھی بالکل ایسی ہے نیل اور تین پتی بوٹی کے اس دیس کا یہ کاریگر نیل بناتا تھا جو دجلہ و فرات کی سرزمین میسوپوٹیمپا برآمد ہوتا تھا یہ کاریگر صرف دھوتی پہنتا تھا مگر اسکے نیل رنگے کپڑے سے مصر میں مُردوں کے کفن بنتے تھے وہ زندہ ہو کر بھی صرف دھوتی پہننےپر مجبور تھا باقی جسم عریاںہوتا تھا اور مصر و عراق میں مُردوں کوبھی کپڑوں اور سازو سامان کے ساتھ دفن کیا جاتا تھا، زندوں اور مُردوں میں بھی عدم مساوات؟یہ تب بھی تھی اور اب بھی ہے۔ ولیم ڈارلمپٹن نے لکھا ہے کہ ہڑپہ کے اسی کاریگر کے نیل رنگے سوتی کپڑے دجلہ وفرات سے برآمد ہوئے ہیں گویا ہڑپہ اور وادیٔ سندھ کی تہذیب بین الاقوامی تجارت کرتی تھی تب بھی دنیا کے اس سے تجارتی معاہدے تھے اب بھی دفاعی اور تجارتی معاہدے ہیں اور ہونگے مگر دیکھنا یہ ہوگا کہ نیل کے کاریگر اور موہنجوڈارو کے محنت کش کو کیا ملے گا؟ کیا عام لوگ بھی کبھی انصاف اور مساوات جیسی نعمتوں سے سرفراز ہوں گے۔پھر اس خطّے کی تاریخ میں ایک اندھیری لمبی رات ہے کوئی پٹاخہ، کوئی گولہ، کوئی روشنی پھوٹتی تو تاریخ میں کہیں ایک آدھا لفظ آجاتا مگر لمبی خاموشی بتاتی ہے کہ نہ آزادی اور نہ مساوات۔

وقت گزرتا رہا پھر دریائے جہلم کے کنارے ایک میدان سجا۔ ایک طرف بوسی فالس نامی گھوڑے پر مقدونیہ یونان کا سکندر اعظم تھا دریا کے دوسری طرف راجہ پورس تھا جو جنوبی ہندوستان سے منگوائے گئے بڑے دیو قامت ہاتھی پر سوار تھا۔ قریبی ریاست ٹیکسلا کا حکمران راجہ امبھی سکندر اعظم سے مل چکا تھا اوروہ سکندراعظم کیساتھ مل کر راجہ پورس پر حملہ آور تھا ۔ 326 قبل مسیح ہونیوالی اس جنگ کا مکمل احوال تو کسی کو معلوم نہیں پورس کے ہاتھیوں نے کیا پورس کو ہروایا یا پورس کی بہادری نے سکندر اعظم کو زندگی کی پہلی شکست کا مزہ چھکایا ؟ احمد حسن دانی ، اعتزاز احسن اور ہمارے مقامی دانشور اور تاریخ دان پورس کو فاتح قرار دیتے ہیں جبکہ یونانی تواریخ میں ہمیشہ کی طرح سکندر اعظم کو ہی فاتح گردانا گیا ہے۔ حقیقت جو بھی ہو یہ سب مانتے ہیں کہ جنگ کے بعد بھی راجہ پورس ہی اس خطّے کا حکمران رہا ،بوسی فالس گھوڑا مرگیا اور آج کا پھالیہ اسی کے نام پر ہے۔ راجہ امبھی کاپورس کو ہٹانے کا خواب پورا نہ ہوسکا۔ اس کہانی میں دریائے جہلم اور دریائے چناب کے درمیانی خطّے کا ایک پیدل سپاہی بھی شامل تھا جو اس جنگ کے نتیجے کو کبھی نہ سمجھ سکا۔ اسے اس جنگ سے کیا ملا؟ کیا اس کی غربت دور ہوئی کیا اسے انصاف ملا ؟ وہی ظلم کی چکّی اور وہی غربت کا دائرہ ۔ کچھ نہ بدلا نہ بدلے گا۔

یہ اس بے نام، آدھے عریاں ملتانی کی کہانی بھی ہے جس نے قلعہ کہنہ پر سکندر اعظم کو نیزہ مار کر زخمی کر دیا تھا اور پھر فاتح عالم کو مزید دنیا فتح کرنے کے خواب کو ملتوی کرکے واپس جانا پڑا تھا وہ نیزے باز کون تھا؟ نہ پورس کے پیدل سپاہی کا نام تاریخ میں لکھا ہے اور نہ نیزےباز کو پہچانا گیا کیونکہ تاریخ بھی بادشاہوں اور حکمرانوں کی ہے عام لوگوں کا کہاں ذکر ہوتا ہے؟ یہ بے نام زندہ رہتے ہیں اور بے نام ہی مر جاتے ہیں ۔

یہ دسویں صدی عیسوی کے ایک جاٹ کی کہانی بھی ہے جس میں شاید آج کے بدنام اور بے نام کے آباؤ اجداد بھی ہوں تاریخ میں لکھا ہے کہ محمود غزنوی (917ء تا1030 ء) جب سومنات کو فتح کر کے سندھ کے راستے افغانستان جارہا تھا تو دریائے سندھ عبور کرتے ہوئے آدھ ننگے کشتی سوار جاٹوں نے اس کے لشکر پر حملہ کردیا 1025ء میں ہونیوالی اس غیر منظم جنگ میں جاٹوں نے ابتدائی طور پر محمود غزنوی کے لشکر کو نقصان پہنچایا مگر جب اس نے اپنی پوری قوت سے پلٹ کر جوابی حملہ کیا تو بقول ‘‘چچ نامہ‘‘ ایک لاکھ جاٹ تہہ تیغ کر ڈالے باقی بھاگ گئے انہی میں سے اکثر پنجاب آکر پرامن کاشتکار بن گئے یہ اسی مزاحمت کار کی کہانی ہےجو پے در پے شکستیں کھا کر بغاوت بھول گیا سرکشی جاتی رہی اور غلامی مقدربنتی گئی تاریخ کا پہیہ صدیوں کا سفر طے کر چکا مگر اس جاٹ کی کھاٹ کہیں جا نہیں پارہی۔

یہ اس شودر کی کہانی بھی ہے جو کبھی ہندو، جو کبھی عیسائی، جو کبھی مصلی (مسلم شیخ) کے روپ میں ہندو اور مسلم برہمنیت کا شکار رہتا ہے تعصّب اور ناانصافی میں اسے بقا کا کوئی راستہ نصیب نہیں ہوتا وہ’’تھامس ہارڈی‘‘ کے کرداروں کی طرح بدنصیب پیدا ہوتا ہے اور بدنصیب ہی مر جاتا ہے۔ کہاں کی آزادی اور کہاں کی مساوات؟یہ داراشکوہ اور اورنگ زیب عالمگیر کی کہانی ہے میاں میر قادری اور ملّا شاہ قادری کشمیری کا ایک مرید داراشکوہ کی فوج میں شامل تھا۔ یہ 1659ء میں دیورائے کے مقام پر جون کے مہینے میں لڑی گئی جنگ کا عینی شاہد بھی ہے اور اس جنگ کا شریک بھی۔ درویش داراشکوہ کے سپاہی اس کی جنگی تدبیر سے ناشناسی کے باعث سورج کی براہ راست روشنی اور گرمی میں تھکے ہوئے تھے جبکہ تیز و طرار اورنگ زیب کے فوجی دستے تازہ دم تھے اور وہ جنگی چالوں سے پوری طرح آشنا بھی تھے۔ قادری مرید اس جنگ میں بھی ہار گیا اور ایسا ہارا کہ آگے کی تاریخ میں آج تک اورنگزیب جیتتے رہے اور داراشکوہ ہارتے ہی رہے۔

بیسویں صدی کا نمایاں ترین فلاسفر اور مورخ ول ڈیورانٹ (1885ء تا 1981 ء) زندہ ہوتا تو آج کا بے نام اس سے یہ سوال ضرور کرتا کہ یہ کیسی تاریخ ہے جس میں بے نام ہمیشہ ہارتے ہیں ،یہ کیسا چلن ہے کہ ظالم فتح پاتے ہیں اور مظلوم شکست کھاتے ہیں ،ایسا کیوں ہے کہ موہنجو داڑو کی سمبارا،ہڑپہ کی نیل پری، سندھو دریاکا سوناکمار،جاٹوں کا جیتو اور شودروں کا ڈاکٹرامبیڈ کراور مغلوں کا داراشکوہ اور آج کا بے نام کیا کبھی جیتے گا یا نہیں۔ ول ڈیورانٹ سے میرا یہ سوال برقرار ہے کہ کبھی مساوات اور آزادی کا خواب پورا ہوگا یا نہیں؟؟

تازہ ترین