آج کل صحت مند طرزِ زندگی اختیار کرنے والے افراد میں پروٹین کا زیادہ استعمال ایک نیا رجحان بن چکا ہے، جِم ٹرینرز سے لے کر غذائی ماہرین تک سب ہی متوازن خوراک میں پروٹین کو بنیادی جُز قرار دیتے ہیں تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ پروٹین کی زیادتی بھی جسم کے لیے انتہائی نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔
غذائی ماہرین کے مطابق پروٹین کی زیادہ مقدار کے استعمال کے دوران کم پانی پینا اور ساتھ میں فائبر کا استعمال نہ کرنا گردوں پر دباؤ ڈال سکتا ہے، میٹابولزم کو متاثر کرسکتا ہے اور وزن گھٹانے یا صحت بہتر بنانے کے اہداف کو سست کرسکتا ہے۔
اس لیے پروٹین کے استعمال میں اعتدال اور درست توازن انتہائی ضروری ہے۔
پروٹین کے ہاضمے کے دوران نائٹروجن پر مشتمل فاضل مادے جیسے یوریا اور امونیا بنتے ہیں جنہیں گردے صرف مناسب پانی کی موجودگی میں خارج کر سکتے ہیں۔
پانی کی کمی سے جسم میں زہریلے مادے جمع ہونے لگتے ہیں جس کے نتیجے میں تھکن، ذہنی دھندلاہٹ اور وقت کے ساتھ ساتھ یوریا یا کریٹینائن کی سطح میں اضافہ ہوسکتا ہے۔
پروٹین کے ساتھ کاربوہائیڈریٹس، فائبر اور گُڈ فیٹس (صحت مند چکنائیاں) بھی ضروری ہیں، کاربز جسم میں توانائی اور ہائیڈریشن کو برقرار رکھتے ہیں جبکہ صحت مند چکنائیاں ہارمونی توازن اور جوڑوں کی صحت میں مدد دیتی ہیں۔
پاؤڈر یا سپلیمنٹس کی صورت میں صرف پروٹین پر انحصار کرنا جسمانی توازن کو بگاڑ سکتا ہے۔
پروٹین کے قدرتی ذرائع جیسے مچھلی، انڈے، دالیں، اسپروٹس، میوہ جات اور بیجوں کو ترجیح دیں، مصنوعی اجزاء اور سپلیمنٹس سے پرہیز کریں۔
اگر جسم میں غیر معمولی تھکن، سوجن، پیشاب کے رنگ میں تبدیلی یا جسمانی بو محسوس ہو تو یہ پروٹین کی زیادتی یا پانی کی کمی کی علامت ہوسکتی ہے، ایسی علامات کو نظرانداز نہ کریں۔
خوراک میں بڑی تبدیلیاں کرنے سے قبل اپنے معالج یا غذائی ماہر سے مشورہ کرنا ضروری ہے خاص طور پر ان افراد کے لیے جو گردوں، جگر، تھائرائیڈ یا میٹابولک مسائل کا شکار ہوں۔
ایسے افراد جنہیں پروٹین کے مخصوص ذرائع جیسے کہ وھے (پروٹین پاؤڈر)، سویا، میوہ جات یا انڈوں سے الرجی ہو، اِنہیں متبادل ذرائع اپنانے چاہئیں۔
حاملہ خواتین، بچوں اور دوائیں استعمال کرنے والے افراد کو بھی پروٹین کی مقدار معالج کے مشورے سے طے کرنی چاہیے۔
نوٹ: یہ ایک معلوماتی مضمون ہے، اپنی کسی بھی بیماری کی تشخیص اور اس کے علاج کےلیے ڈاکٹر سے رجوع کریں۔