• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آج محترمہ بے نظیر بھٹو کا اکسٹھواں یوم ولادت ہے۔اگر ستائیس دسمبر 2007 کو انہیں شہید نہ کیا جاتا تو اس وقت پاکستان کو جو مخدوش حالات درپیش ہیں محترمہ کی سیاسی بصیرت و حسن تدبر سے یہ حالات پیدا ہی نہ ہوتے اور یہ عظیم محب وطن خاتون اور پاکستان پیپلز پارٹی کی سربراہ قومی مفادات کے تقدس پر کسی قسم کی انچ نہ آنے دیتی۔ آج ان کے یوم ولادت پر سب سے افسردہ کشمیر کے محکوم عوام ہونگے جن کے حقوق کیلئے انہوں نے دنیا کے ہر فورم پر آواز بلند کی اور آل پارٹیز حریت کانفرنس کو کشمیری عوام کی نمائندہ تنظیم قرار دیتے ہوئے اسے اپنی پارٹی پالیسی کا جزو ٹھہرایا۔ یہاں تک کہ 2001ء میں جب وہ کنفیڈریشن آف انڈین انڈسٹریز کی دعوت پر دہلی گئیں تو انہوں نے کشمیری عوام کے حق خودارادیت کے بارے میں پاکستان پیپلزپارٹی کے موقف کا برملا اظہار کیا۔
محترمہ بینظیربھٹو کا یہ پہلا دورہ بھارت تھا جس کے دوران انہوں نے دہلی پہنچتے ہی بھارت کی حکمران مقتدر شخصیات اور اپوزیشن کے ساتھ بالمشافہ ملاقاتوں کا سلسلہ دن بھر جاری رکھا۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ یہ ان دنوں بھارتی پارلیمنٹ پر دہشت گردانہ کارروائی کا واقعہ ہوا تھا جس میں پانچ دہشت گرد مارے گئے تھے اور بھارت نے اس کا الزام پاکستان پرلگایا تھا۔ بھارت میں پاکستان کے خلاف انتہائی منفی جذبات عروج پر تھے۔ اس واقعہ کے باوجود محترمہ بے نظیر بھٹو کی آمد کو اچھی سیاسی پیشرفت سے تعبیر کیا گیا۔ محترمہ نے دونوں ملکوں میں تعلقات کوبہتر بنانے کے لئے اس امر پر زور دیا کہ کشمیر ایک بنیادی تنازع ہے جس نے دونوں ملکوں کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ اس کے حل کے لئے نئی سوچ اپنائی جائے۔ بھارتی رہنمائوں کا یہ اصرار تھا کہ مقبوضہ کشمیر بھارتی آئین کے تحت بھارت کا حصہ ہے اس لئے وہ اس حق سے دستبردار نہیں ہوسکتے اور کوئی حکومت بھارتی آئین کو تبدیل نہیں کرسکتی۔ اس کے برعکس محترمہ شہید کا موقف تھا کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کو برقرار رکھتے ہوئے یہ کوشش کی جانی چاہئے کہ کشمیر کے دونوں اطراف کے شہریوں کو ایک دوسرے سے ملاقات کی اجازت ہو۔ اس ضمن میں انہوں نے سافٹ بارڈر کا تصور پیش کیا کیونکہ دونوں اطراف کشمیریوں کے رشتہ دار بستے ہیں اس لئے انہیں ایک دوسرے سےملنے کی سہولت دی جائے۔اس سے اعتمادسازی کی فضا قائم ہوگی اور پھر مناسب حالات کے پیش نظر ان سے یہ رائے لی جائے کہ وہ اپنے مستقبل کے لئے کیا فیصلہ کرنا چاہتے ہیں۔آیا وہ بھارت کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں‘ پاکستان کیساتھ الحاق چاہتے ہیں یا پھر آزاد رہنا چاہتے ہیں؟ اگلےدن انہوں نےکنفیڈریشن آف انڈین انڈسٹریز کے سیمینار سے خطاب کیا۔ عورتوں کو بااختیار بنانے کے موضوع پر ان کی تقریر کو بہت سراہا گیا۔ سیمینار میں بھارت کی سیاسی قیادت، ممتاز دانشور، غیرملکی سفیر اور اعلیٰ سرکاری و غیرسرکاری شخصیات شریک تھیں۔ سیمینار کے بعد سوال وجواب کے سلسلے میں ایک سوال کے جواب میں محترمہ نے یہ کہا کہ پاکستان پیپلزپارٹی آل پارٹیز حریت کانفرنس کو کشمیریوں کی واحد نمائندہ تنظیم تصور کرتی ہے اور اس طرح پارٹی پالیسی کا اعادہ کیا۔ اس بیان پر حاضرین میں ایک طرح کا سکوت طاری ہوگیا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے کہا کہ یہ دونوں ملکوں کے مفاد میں ہے کہ وہ اس دیرینہ تنازع کو پرامن ذرائع سے حل کریں۔مسز سونیا گاندھی سے ملاقات میں ان کے مشیر و سابق وزیرخارجہ نٹور سنگھ نے مشورہ دیا تھا کہ تنازع کشمیر پر مذاکرات شملہ معاہدے کے مطابق ہونے چاہئیں جو پرامن حل کیلئے بہترین فریم ورک ہے۔ 2003ء میں محترمہ بے نظیر بھٹو ہندوستان ٹائمز کی دعوت پر دو روزہ کانفرنس میں کلیدی مقرر کے طور پر مدعو کی گئیں۔ دوسری کلیدی مقرر سابق امریکی وزیرخارجہ میڈلین البرائٹ تھیں۔ اس کانفرنس کا افتتاح وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی نے کیا۔ اس موقع پر بھی محترمہ بے نظیر بھٹو نے وزیراعظم واجپائی سے ملاقات کی نائب وزیراعظم ایل کے ایڈوانی کے ساتھ لنچ کیا اور دیگر رہنمائوں سے ملاقاتیں کیں۔ 2001ء میں پارلیمنٹ پر دہشت گردانہ حملے کی وجہ سے عوامی سطح پر پاکستان کے متعلق جو غم و غصہ پایا جاتا تھا محترمہ بے نظیر بھٹو کے دورے کی وجہ سے اس تنائو میں کمی واقع ہوئی اور ہر جگہ ان کے بارے میں ایک مثبت تاثر پیدا ہوا۔ اس کے باوجود اسٹار پلس کے ایک انٹرویو کے بعد ایک شخص نے ان کے جرأت مندانہ موقف پر یہ تبصرہ کیا تھا کہ ’’یہ بھٹو کی بیٹی ہے اور ان کی چکنی چپڑی باتوں سے محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔‘‘دوسری طرف عام بھارتیوں کی یہ رائے تھی کہ وہ اتنی مقبول اور ہر دلعزیز ہیں کہ اگر بھارت کی وزیراعظم کے لئے الیکشن لڑیں تو کامیاب ہو جائیں۔ 2003ء کے دورے کے دوران بھی محترمہ نے کشمیر کے بارے میں اپنے اسی موقف کا اعادہ کیا۔ عدم اتفاق کے باوجود حکمران قیادت نے محترمہ بے نظیر بھٹو کے سیاسی تدبر کی ستائش کی۔ 2001ء اور2003ء کے دہلی دوروں میں محترمہ بے نظیر بھٹو کے ہمراہ ملاقاتوں میں بھی موجود تھا۔آج کشمیری ان کے اس دنیا میں نہ ہونے کو کس طرح محسوس کرتے ہیں یہ سب پر عیاں ہے۔ اس وقت میں نے اس دورے کے متعلق اپنے مضمون میں لکھاتھا کہ ’’سچائی کو جھٹلایا نہیں جاسکتا۔ اندرون و بیرون ملک عوام کے دلوں پر بے نظیر بھٹو کا جو نقش ثبت ہے اسے نہ تو مٹایا جاسکتا ہے اور نہ ہی ختم کیا جاسکتا ہے۔ ان پر عرصہ حیات تو تنگ کیا جاسکتا ہے لیکن لوگوں کے دلوں سے ان کی محبت ختم نہیں کی جاسکتی۔ وہ پاکستان کے عوام کے دلوں پر حکومت کررہی ہیں اور حکمران بے نظیر بھٹو کو عوام کے دل کی دنیا سے جلاوطن کرنے کیلئے کون سا قانون بنائیں گے‘ کونسا آرڈیننس نافذ کریں گے۔‘‘ محترمہ بے نظیر بھٹو کے یوم ولادت پر یہی الفاظ ان کیلئے نذرانہ عقیدت ہیں۔
تازہ ترین