• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سعودی عرب اور پاکستان کے مابین دفاعی معاہدےنےدنیا بھر کواپنی طرف متوجہ کرلیا ہے، عالمی میڈیا کی مختلف رپورٹس میں وزیراعظم پاکستان میاں شہباز شریف، فیلڈ مارشل عاصم منیر کے حالیہ دورہ سعودی عرب کو مشرقِ وسطیٰ میں ایک نئی پیش رفت قرار دیاجارہا ہے۔ اگر ہم ماضی کے جھروکوں میں جھانکیں تو پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات ہمیشہ سے عالم اسلام اور بین الاقوامی سیاست میں ایک خاص مقام کے حامل رہے ہیں، روزِ اول سے سعودی عرب نے نہ صرف پاکستان سے مضبوط سفارتی تعلقات استوار کیے بلکہ نظریاتی، معاشی، دفاعی اور مذہبی سطح پر بھی گہرے رشتے قائم کیے جبکہ پاکستان نے بھی سعودی عرب کو امت مسلمہ کے مرکز کے طور پر نہایت عزت و احترام سے دیکھا۔ میری نظر میں حالیہ معاہدہ ایک ایسی فکری روایت کا تسلسل ہےجسکی بنیادپاکستان کے پہلے منتخب وزیراعظم قائدِ عوام ذوالفقار علی بھٹونے 1974ء میں لاہور میں منعقدہ دوسری اسلامی سربراہی کانفرنس میں رکھی تھی اور جسے سعودی عرب کےعظیم حکمران شاہ فیصل نے تقویت بخشی تھی، تاریخی اجلاس کے دوران بھٹو نے امت ِمسلمہ کے حکمرانوں کو مخاطب کرکے جھنجھوڑا تھا کہ ہمارے لئے صرف جذباتی اتحاد کافی نہیںبلکہ ہمیں اپنی سیاسی، دفاعی اور اقتصادی طاقت کو ایک منظم حکمت عملی میں ڈھالنا ہوگا، بھٹو صاحب کے مطابق یروشلم کا مسئلہ عرب اسرائیل تنازع کا اصل مرکز ہےاورخطے میں امن تب تک قائم نہیں ہو سکتا جب تک فلسطینی عوام کو انصاف نہ ملے، انہوں نے اپنے وژنری خطاب میں واضح کیا تھا کہ مسلم دنیا وسائل میں امیر ہے، لیکن بدقسمتی سے منتشر ہے، ہمیں اپنی دولت اور اپنے عزم کو منظم کرنا ہوگا۔اس موقع پر سعودی شاہ فیصل نے بھٹو صاحب سے متفق ہوتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ ہمارا تیل محض ایک تجارتی شے نہیں بلکہ یہ ہماری بقا اور ہماری آزادی کا ہتھیار ہے۔یہ ایک حقیقت ہے کہ تاریخی طور پر دونوں برادر ممالک نے ہر چیلنج کا مقابلہ باہمی اتحاد سے کرنے کا عملی مظاہرہ کیا،سرد جنگ کے زمانے میں جب مشرق وسطیٰ کے ممالک کی اکثریت سویت یونین کی ہمنوا تھی، سعودی عرب اورپاکستان مغربی بلاک کے ہراول دستے میں ایک ہی صف میں کھڑےنظر آئے،سویت یونین کی افغانستان جارحیت کے بعد دونوں ممالک نے ایسی زبردست دفاعی حکمت عملی اپنائی کہ اپنے زمانے کی سپرپاور سویت یونین افغانستان کے سنگلاخ پہاڑوں سے ٹکراکر پاش پاش ہوگئی، جب بھی پاکستان کسی اقتصادی بحران کا شکار ہوا تو سعودی عرب سب سے پہلے پاکستان کی مدد کیلئے آگے آیا جبکہ سعودی عرب کو لاحق علاقائی سلامتی کے خطرات سے نکالنے کیلئے ہمیشہ پاکستان نے لبیک کہا،تاہم دس سال قبل جب یمن کا معاملہ سامنے آیا تو سعودی عرب نے ایک مرتبہ پھر پاکستان کی جانب دیکھا۔اپریل 2015ءکے قومی اخبارات کی شہ سرخیاں اس امر کی گواہی دیتی ہیں کہ میں وہ واحد نمایاں پارلیمیٹرین تھا جس نے پارلیمان کے فلور پر سعودی عرب کی مقدس سرزمین کی حفاظت کیلئے وہاں فوجیں بھیجنے کی پرزور حمایت کی، میرااس وقت کے وزیراعظم سے مطالبہ تھا کہ مشکل کی اس گھڑی میں سعودی عرب کا بھرپور عسکری ساتھ دیا جائے،تاہم سعودی عرب کی توقعات کے برعکس ہمارےفیصلے نے دوطرفہ تعلقات کو سردمہری کا شکار کردیا، بعد ازاں آنے والی پاکستانی قیادت سے کچھ ایسے ناپسندیدہ اقدامات سرزد ہوئے جنکی وجہ سے پاک سعودی تعلقات میں مزید دراڑیں پڑیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اب جبکہ خطے میں نئے علاقائی اتحاد تشکیل پا رہے ہیں، ہمارے لئے یہ ایک بڑا سوالیہ نشان ہے کہ ہم سفارتی سطح پر آج تک کوئی ایسا قابلِ اعتماد مضبوط دوست نہیں بناسکے جو ہم پر آنکھیں بند کرکے بھروسہ کرسکے، ہم آزادی کے فوراََ بعد سے امریکہ کے قدرتی اتحادی ہیں لیکن امریکہ ہمیں افغانستان میں ڈبل گیم کرنے کے طعنے دیتا ہے، چین کا ون بیلٹ منصوبہ سی پیک کے بغیر ممکن نہیں لیکن چین کو بھی سی پیک پرسست روی کی شکایات ہیں،ایران سمیت خطے کے دیگر ممالک بھی کسی نہ کسی ایشو پر ہم سے شاکی رہتے ہیں۔ حالیہ دنوں میں برطانیہ، آسٹریلیا اور کینیڈا وغیرہ نے فلسطین کو ایک آزاد ریاست کے طور پر تسلیم کر لیا ہے، میں اس پیش رفت کو ایک اور اینگل سے دیکھ رہا ہوں کہ اب سعودی عرب اور پاکستان سمیت مسلم ممالک پر یہ دباؤ بڑھے گا کہ وہ بھی معاہدہ ابراہیمی کے تحت اسرائیل کو تسلیم کریں تاکہ عالمی برادری دو ریاستی حل کی جانب جا سکے، پاکستان نے ہمیشہ فلسطینی عوام کے حقِ خودارادیت کی حمایت کی ہے اور فلسطین ایشو پر پاکستان کا مؤقف ہمیشہ امت مسلمہ کے ساتھ ہم آہنگ رہا ہے، غزہ تنازع کے حل کیلئے فلسطین کے حوالے سے جو بھی پیش رفت ہولیکن پاکستان کو اپنا سفارتی وزن سعودی عرب کے پلڑے میں ہی رکھناچاہیے۔ علم نجوم کے مطابق اگلے ماہ اکتوبر سےامریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا عروج شروع ہو رہا ہے ،آئندہ برس مارچ سے قبل ٹرمپ کی زیرقیادت امریکہ کی جانب سے کچھ ایسے فیصلے کیے جائیں گے جنکے اثرات پاکستان اور سعودی عرب سمیت پورے مشرق وسطیٰ پر مرتب ہوں گے، اس دوران نہ صرف ہمارے خطے میں نئے علاقائی اتحاد ابھریں گے بلکہ مغربی دنیا کی طرف سے بھی کچھ غیرروائتی اقدامات کیے جانے کی پیش گوئیاں سامنے آرہی ہیں،جوتشیوں کا کہنا ہے کہ ایسے حالات میں پاکستان کیلئے اکتوبر تا مارچ کا دورانیہ کسی امتحان سے کم نہ ہوگا۔ تیزی سے بدلتی دنیا میں اگر ہم نے سمجھداری ، معاملہ فہمی اور حقیقت پسندی کا مظاہرہ کیا تو پاکستان نہ صرف مشرق وسطیٰ میں بلکہ عالمی سطح پر بھی قائدانہ کردار ادا کر نے کی پوزیشن میں آسکتا ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ آج حالات نے پاکستان کو ایک اور سنہری موقع دیا ہے کہ ہم حرمین شریفین کے تحفظ کےلئے سردھڑ کی بازی لگادیں اورسعودی عرب کی صورت میں ایک ایسے دیرپا مضبوط اتحادی برادر ملک کا اعتماد جیتیں جو ہر نازک وقت پر پاکستان کے ساتھ کھڑا ہوسکے، تاہم اگر ہم نے ماضی کی غلطیوں سے سبق حاصل نہ کیا تو یہ موقع بھی تاریخ کے اوراق میں کھو جائے گا۔

تازہ ترین