• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آخر کار مسلح افواج نے شمالی وزیرستان میں بھی آپریشن کا آغاز کر دیا ہے۔ جہاں ایک عرصے تک وہ فوجی ایکشن سے گریزاں رہیں۔ اس دوران شدت پسند عوام اور سیکورٹی فورسز کے افسروں اور جوانوں کو شہید کرتے رہے۔ سب سے زیادہ اذیّت ناک بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ مذہب کے نام پر کیا جاتا رہا ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے وہ سب کچھ کیا جس کا سلامتی کے مذہب اسلام سے تو کجا کم تر درجے کے اخلاقی اصولوں سے بھی کوئی تعلق نہیں۔ طالبان کے خلاف حالیہ ایکشن کامیاب ہو گا کہ نہیں اس کے بارے میں ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہے کیونکہ یہ وہ فصل ہے جس کے ڈانڈے ہماری قومی زندگی کے ہر شعبے سے ملتے ہیں۔ جس کا بنیادی عنصر عدم برداشت ہے جو دوسروں سے نفرت کرنا سکھاتا ہے جس میں اپنی ذات، اپنے خود ساختہ نظریات اور مفادات کے علاوہ باقی سب سے نفرت کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔ جس کا ثبوت یہ ہے کہ اس شدت پسندی نے شاید اپنے مذہب سے زیادہ کسی اور کو نقصان نہیں پہنچایا ۔ نتائج کے لحاظ سے یوں لگتا ہے کہ گزشتہ چالیس سالوں سے جاری یہ خون آشامی صرف مسلمانوں کے خلاف ہے۔ اس کے باوجود ملک میں ایسے افراد کی کمی نہیں جو اسے بھی حق بجانب سمجھتے ہیں ۔آپ شاید طاقت کے ذریعے وقتی طور پر طالبان کو ختم کرلیں لیکن اس سوچ کا کیاکریں گے جو ہمارے معاشرے کی رگوں میں زہر بن کر سرائیت کر گئی ہے۔
آج پاکستان فکری، سماجی اور معاشی تباہی کے جس کنارے پر پہنچ چکا ہے پہلے کبھی اس کا تصّور بھی نہیں کیا جا سکتا ۔ یہ وہی پاکستان ہے جو پچاس، ساٹھ اور ستّر کی دہائی میں آج سے کہیں زیادہ روشن خیال اور انسان دوست ملک تھا۔ جہاں ہزاروں کی تعداد میں غیر ملکی سیاح آتے تھے اور بلاخوف و خطر ملک کے طول و عرض میں سفر کرتے تھے۔ ماہِ رمضان میں بھی دکانیں اور ریسٹورنٹ بند نہیں کئے جاتے تھے کیونکہ غیر مسلموں، مسافروں اور بیماروں کی ضروریات کا خیال بھی رکھا جاتا تھا لیکن ضیاء کے دور سے چنانچہ دین کے بنیادی اصول’’دین میں کوئی جبر نہیں‘‘ کی جگہ دین کو جبر اور نمائش کا ذریعہ بنا دیا گیا۔ کیا اس سے ہمارے معاشرے میں رحمتوں کا نزول شروع ہوگیا؟ ہرگز نہیں، ہر گزرتے دن کے ساتھ ہمارا معاشرہ جبر، منافقت ، تشدد اور تنگ نظری کا شکار ہوتا گیا اور آج یہ عالم ہے کہ ترقیاتی اہداف کے لحاظ سے پاکستان دنیا کے دیگر ممالک سے کہیں پیچھے ہے۔ جس پر نمائشی مذہبی جنون نے ایک بڑا سوالیہ نشان لگا دیا ہے کیونکہ ہر مذہبی شدت پسند ملک کو اپنی مرضی کے عقیدے کے مطابق چلانا چاہتا ہے اور اس کے لئے وہ اپنے ہی بھائیوں کا خون بہانے کے درپے ہے۔ علمِ نفسیات کے مطابق انتہا پسندی انسانی ذہن کی وہ ابنارمل یا بیمار حالت ہے جس میں جہالت اور برتری کا احساس یکجا ہو جاتا ہے یعنی ایک کم علم اپنے علم کو وسعت دینے، دوسرے کی رائے ماننے یا اختلافِ رائے کو برداشت کرنے کے بجائے اپنی کم علمی کے باوجود خود کو دوسروں سے برتر اور عقلِ کل سمجھنے لگتا ہے تو پھر اس کے رویّے میں عدم برداشت اور تشدد کا غلبہ ہو جاتا اور پھر معاشرے کی وہی ابتر صورتِ حال ہوتی ہے جو آج کل ہمارے ہاں دکھائی دے رہی ہے۔ جنرل ضیاء کےدور کے بعد پیدا ہونے والی نسل نے چاہے اس کا تعلق کسی بھی سیاسی جماعت یا فرقے سے ہو۔ ایک ایسے ماحول میں پرورش پائی ہے کہ وہ مذہب کی حقیقی روح اور مہذب دنیا کے تقاضوں کو سمجھنے سے قاصر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ دیکھتے ہوئے بھی کہ عشروں سے مذہب کے تقدّس اور سیاست کی طاقت یعنی دونوں کے اوصافِ حمیدہ کو ختم کر کے منافقت، تشدّد اور کنفیوژن کو جنم دیا ہے، کوئی بھی یہ کہنے کی جرأت نہیں کرتا کہ خدارا سیاست بازی اور اپنے جماعتی مفادات کے لئے مذہب کے استعمال پر پابندی لگائی جائے بلکہ ہر کوئی اس پر دست و گریباں ہے کہ صرف اس کا تجویز کردہ مذہبی نظام ہی فلاح و بہبود کا ضامن ہے۔ اللہ کرے کہ افواجِ پاکستان، آئین سے منحرف، دہشت گردوں کو کیفرِ کردار تک پہنچا دیں لیکن ملک بھر میں پھیلے ہوئے اس نیٹ ورک کا کیا جائے جس کے ذریعے جو ہتھیار اُٹھائے بغیر مذہب کے نام پر نفرت، تشدّد اور فرقہ واریت کا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ کیا اب بھی وہ وقت نہیں آیا کہ ہم مذہب اور ریاست کو علیحدہ علیحدہ کردیں؟ اس سے پہلے کہ دونوں کا وجودہ ہی خطرے میں پڑ جائے۔
تازہ ترین