• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان میں ایک جمہوری اور کثرتیت پر یقین رکھنے والے معاشرے کے قیام کے لئے ہمیں ابھی بہت طویل سفر کرنا ہے ۔ اس بات کا اندازہ ’’ جیو ‘‘ اور ’’ جنگ ‘‘ کے خلاف مخصوص حلقوں کے ردعمل سے ہوا۔ یہ ایک الگ بحث ہے کہ ’’ جیو ‘‘ سے کیا غلطی ہوئی لیکن بعض قوتوں کے اشارے پر ان مخصوص حلقوں نے جو کردار ادا کیا، اس سے نہ صرف پاکستان بلکہ بیرونی دنیا میں پاکستان کی سول سوسائٹی کے بارے میں ایسے سوالات کئے جا رہے ہیں جو پہلے لوگوں کے ذہن میں بھی نہیں تھے۔ بہت افسوس ہوتا ہے اور دل خون کے آنسو روتا ہے۔
پاکستان کے عوام نے جمہوریت، بنیادی حقوق اور آزادی اظہار رائے کے لئے طویل جدوجہد کی ہے اور اس جدوجہد میں بے مثال قربانیاں دی ہیں ۔ یہ اور بات ہے کہ پاکستان میں اس وقت دہشت گرد، انتہا پسند اور فسطائی سوچ کے لوگ سیاسی منظر نامے پر حاوی ہیں لیکن پوری دنیا میں پاکستان کی سول سوسائٹی کا امیج اس کی مذکورہ بالا جدوجہد سے بہت مثبت تھا کیونکہ دنیا یہ سمجھتی ہے کہ جمہوریت اور آزادی اظہار رائے کے لئے قربانیاں دینے والی قوم انتہا پسند نہیں بلکہ روادار ہوتی ہے لیکن ’’جیو‘‘ اور ’’جنگ‘‘ کے خلاف کچھ مخصوص حلقوں کے مظاہروں سے اس امیج کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی ہے۔ مظاہرے اور احتجاج ہر ایک کا جمہوری حق ہے اور اس حق سے انکار بھی نہیں کیا جا سکتا لیکن پوری دنیا کو معاملات کی حقیقت تک پہنچنے سے بھی نہیں روکا جا سکتا۔ اجتماعی قومی دانش اور اجتماعی عالمی شعور میں کسی کے بارے میں جو رائے قائم ہوتی ہے وہ بھی قوموں یا عالمی برادری کے ذہنوں سے نہیں نکالی جا سکتی ۔
جن لوگوں نے ’’ جیو ‘‘ اور ’’ جنگ ‘‘ کے خلاف مظاہرے کرکے ’’ اپنے جمہوری حق ‘‘ کا استعمال کیا وہ اگر یہ سمجھتے ہیں کہ دنیا کچھ نہیں سمجھتی ہے تو انہیں اپنی فہم پر نظرثانی کرنی چاہئے۔ جمہوریت اور اظہار رائے کی آزادی کے بنیادی اصولوں کے مطابق ان کے اس جمہوری حق کو کوئی سلب نہیں کر سکتا لیکن ان کی وجہ سے پاکستانی معاشرے میں جو خدشات پیدا ہوئے ہیں، ان کا تدارک کیسے ہو گا۔ پاکستان کے لوگ اس بات سے خوفزدہ ہو گئے ہیں کہ اس ملک کے طاقتور حلقے جو بات کہیں گے، صرف وہی درست تسلیم کی جائے گی، کسی دوسرے کا مؤقف نہیں سنا جائے گا۔ اس صورت حال سے ملک کے تمام سیاسی، جمہوری اور رائے عامہ کے اداروں کو یہ پیغام مل گیا ہے کہ وہ کسی اور ملک میں نہیں بلکہ پاکستان میں کام کرتے ہیں۔ جمہوریت، بنیادی حقوق اور آزادی تحریر اور تقریر کی جو ضمانت آئین نے دی ہے اس پر کسی کو کسی زعم میں نہیں رہنا چاہئے۔ سب سے زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ ہمارے ملک میں طاقتور حلقوں کے اشاروں پر ناچنے والے بھی کم نہیں ہیں۔
اگر کسی سے کوئی غلطی ہوتی ہے تو اس کے احتساب کے لئے مہذب معاشروں میں قانونی طریقہ اختیار کیا جاتا ہے۔ کسی کو مجرم ثابت ہونے سے پہلے سزا نہیں دی جا سکتی۔ کوئی بھی مذہب یا دنیا کا کوئی بھی قانون جرم ثابت ہونے سے پہلے کسی کو مجرم قرار نہیں دیتا ۔ پاکستان الیکٹرونک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) کی جانب سے ’’ جیو ‘‘ کو بند کرنے کے فیصلے سے پہلے کیبل آپریٹرز نے جیو ٹی وی کو بند کردیا ۔ اس کا کیا قانونی، آئینی اور اخلاقی جواز ہے۔ پیمرا کے فیصلے میں بھی ایک سقم یہ موجود ہے کہ ’’ جیو ‘‘ کی انتظامیہ کے مؤقف کو نہیں سنا گیا۔ ملکہ برطانیہ پر اپنی بہو لیڈی ڈیانا کے قتل کے الزامات کے حوالے سے برطانوی ٹی وی چینلز پر خبریں چلتی رہیں لیکن وہاں یہ صورت حال پیدا نہیں ہوئی حالانکہ ملکہ برطانیہ ریاست کی وحدت کی علامت ہیں۔ کیبل آپریٹرز کو یہ حق نہیں ہے کہ جو ٹی وی چینلز عوام دیکھ رہے ہوں انہیں بند کردیا جائے۔ جہاں تک غلطیوں کا سوال ہے ’’جیو‘‘ سے شاید اتنی بڑی غلطی نہیں ہوئی ہو گی جتنی غلطیاں اس پر غصہ کرنے والوں نے کی ہیں ۔ پاکستان کا کون سا ادارہ ہے، جس کا غلطیوں کے باوجود احتساب ہوا ہے۔ پاکستان میں جسٹس منیر جیسے لوگوں نے بھی پاکستان کو جمہوریت کی پٹڑی سے اتارا ہے اور ناقابل معافی جرم کا ارتکاب کیا ہے ۔ 1970ء اور 1971ء میں جو کچھ ہوا،اس کو دہرانا بھی مناسب بات نہیں۔کارگل آپریشن کے بارے میں سوالات ابھی تک موجود ہیں ۔ ہماری سیاسی اور مذہبی جماعتوں کا کردار بھی مثالی نہیں رہا ہے۔ 1977ء کی پی این اے تحریک کے اسکینڈلز اور مہران بینک اسکینڈلز ہماری تاریخ کا شرمناک حصہ ہیں ۔ میڈیا کے دیگر ادارے بھی جو کچھ کر رہے ہیں وہ سب کے سامنے ہے لیکن کسی ایک ادارے کو ’’ غضب ‘‘ کا نشانہ بنانا مناسب نہیں ہے۔ دنیا میں کہیں بھی عدلیہ ، پارلیمنٹ، سیاسی جماعتوں ، میڈیا اور رائے عامہ کے دیگر اداروں کو ہم مثالی اور خامیوں سے پاک قرار نہیں دے سکتے۔ سب میں کچھ نہ کچھ خامیاں اور کمزوریاں موجود ہیں لیکن جمہوریت اور کثرتیت پر یقین رکھنے والے معاشرے کے قیام کے لئے ان اداروں کا وجود ضروری ہے۔ ان تمام اداروں کا احتساب بھی ہو سکتا ہے، جن کا اوپر ذکر کیا گیا ہے لیکن اگر ان اداروں کا احتساب آئین اور قانون سے ماورا ہو کر کوئی ایسی طاقتیں کرنے لگیں جو اپنے آپ کو احتساب سے بالاتر سمجھتی ہیں تو اس سے جمہوریت، رواداری اور کثرتیت کے لئے ہونے والی ساری جدوجہد رائیگاں چلی جاتی ہے۔ پہلے تو کوشش کی جائے کہ ایسی قوتوں کی مداخلت کو روکا جائے اور اگر یہ نہ ہو سکے تو کم از کم یہ کوشش کی جائے کہ شعوری یا غیر شعوری طور پر ان طاقتوں کا آلہ کار نہ بنا جائے، جو جمہوریت ، کثرتیت ، رواداری ، آئین، قانون، اخلاقیات اور اقدار کو تسلیم نہیں کرتی ہیں لیکن گزشتہ کچھ دنوں کے دوران پاکستان میں جو کچھ ہوا ہے اس سے محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان کی سول سوسائٹی کی آزادی، اس کے جمہوری اور بنیادی حقوق کے حصول کے لئے ابھی نہ صرف مزید جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے بلکہ تاریخ کی بڑی آزمائشوں کے خطرات بھی محسوس ہوتے ہیں
تازہ ترین