امریکا آج صدر ٹرمپ کی پالیسیوں کی وجہ سے اکیلا ہورہا ہے کیونکہ امریکی ٹیرف کی پالیسیاں دوست اور خیرخواہ ممالک کومد نظر رکھے بغیر بنائی جا رہی ہیں۔ ٹرمپ نے بھارت پر روس سے تیل خریدنے کی مد میں نہ صرف ٹیرف کی بھرمار کر دی ہے بلکہ چاہ بہار پورٹ سے متعلق2018ء میں دی گئی پابندیوں کی رعایت بھی واپس لینے کا اعلان کر دیا ہے۔ بھارت کے لیے چاہ بہار کی اسٹرٹیجک اہمیت اس لیے بھی زیادہ ہے کیونکہ یہ پاکستان کو بائی پاس کرتے ہوئے افغانستان اور وسط ایشیا تک تجارتی راستہ فراہم کرتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ چاہ بہار بھارت کو بحیرہ ارب میں چین کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کو کم کرنے میں بھی مدد فراہم کرتا ہے کیونکہ یہ پورٹ گوادر بندرگاہ سے صرف 140 کلومیٹر دور ہے۔ ٹرمپ کے بھارت پر روس سے تیل خریدنے کی سزا کے طور پر بھاری تجارتی محصولات عائد کرنے کے جواب میں مودی نے وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد پہلی بار چین کا دورہ کیا ہے اور چین میں ہونے والی ایس ای سی او کانفرنس میں شرکت کی ہے لیکن یہ کہنا ابھی قبل از وقت ہے کہ مودی کا حالیہ چین کا دورہ واقعی ہی حقیقی پالیسی میں تبدیلی کا اظہار ہے یا محض واشنگٹن کو انتباہ کے طور پر کیا گیا ہے۔ اگرچہ ماہرین کا خیال ہے کہ امریکی مارکیٹ اور اس کی ٹیکنالوجی سے ہندوستان کا الگ ہونا اتنا آسان نہیں ہے کیونکہ بھارتی برآمدات میں 20فیصد حصہ امریکا کا ہے۔بھارت کے ساتھ ساتھ امریکا نے اپنے ایک اور خیرخواہ ملک، کوریا کی ایشیا پر بھی 25فیصد سے محصولات کم کر کے 15 فیصد کرنے پر اکتفا کر لیا ہے مگر اس کے ساتھ یہ شرط بھی لگا دی ہے کہ کوریا امریکا میں 350ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا جو تیل، گیس اور جہاز سازی کے شعبے میں کی جائے گی۔ اس معاہدے کے باوجود جنوبی کوریا کی حکومت اس بات پر حیران ہے کہ امریکی امیگریشن حکام نے ریاست جارجیا کے ایک بڑے ہنڈائی ایل جی کے پلانٹ پر چھاپہ مار کر تین سو سے زائد جنوبی کوریائی کارکنوں کو گرفتار کر لیا ہے۔ جنوبی کوریا کے علاوہ جاپان نے بھی مجبور ہو کر امریکا سے ایک ایسا معاہدہ کر لیا ہے کہ جس کے بارے میں مبصرین کا خیال ہے کہ جاپان نے اپنی مالی خودمختاری مسٹر ٹرمپ کے حوالے کر دی ہے۔ اس معاہدے کے تحت جاپان نے امریکا میں 550 ارب ڈالر کی سرمایہ کرنے کا اعلان کیا ہے جو کہ زیادہ تر فوسل فیول کی صنعت میں کی جائے گی۔ اس یادداشت میں لکھ دیا گیا ہے کہ اگر جاپان نے معاہدے پر عمل نہ کیا تو پھر ٹرمپ اپنی مرضی کی شرح پر مزید بلند محصولات عائد کرنے کا حق رکھتےہیں۔ جاپان اور جنوبی کوریا کی طرح یورپ نے بھی تجارتی جنگ میں لڑائی کرنے کی بجائے ٹرمپ کے ساتھ ایک ایسا معاہدہ کر لیا ہے کہ جس کی رَو سے وہ تین برسوں میں 750بلین ڈالر کی مالیت کا خام تیل، قدرتی گیس، دیگر پٹرولیم مصنوعات اور ایٹمی ریکٹر فیول امریکا سے خریدے گا، اس معاہدے سے کئی یورپین ممالک اس لیے پریشان ہیں کہ یہ ان کے فوسل فیول کے استعمال میں کمی کے منصوبوں سے براہ راست متصادم ہے کیونکہ فوسل فیول کا جلنا ماحولیاتی تبدیلی کا سب سے بڑا سبب ہے۔ یاد رہے کہ یورپ میں آج تقریبا 20فیصد بجلی ہوا سے حاصل کی جاتی ہے اور یورپ 2050ء تک اسے 50فیصد سے آگے لے جانا چاہتا ہے۔ ان معاہدوں کے ساتھ ساتھ صدر ٹرمپ یورپ پر مسلسل دباؤ ڈال رہے ہیں کہ یورپ چونکہ یوکرین،روس کی جنگ میں روس سے تحفظ فراہم کرنے کا خواہاں ہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے گرین انرجی منصوبوں پر خرچ ہونے والی 350ارب ڈالر کی انویسٹمنٹ کا رخ موڑدے۔یورپی ماہرین اس موقف پر شدید حیرت کا اظہار کر رہے ہیں اور اسے غیر منطقی خودغرضانہ اور خطرناک تجویز قرار دے رہے ہیں جس سے نہ صرف ماحولیاتی تحفظ کے عالمی اہداف کو نقصان پہنچے گا بلکہ یہ اس سوچ کی بھی عکاسی کرتا ہے کہ ٹرمپ کے سامنے بین الاقوامی ذمہ داریاں اور ماحولیاتی آلودگی کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ امریکا کے دیرینہ دوست ممالک اب امریکا کی بجائے چین اور دوسرے ممالک سے تعلقات بنا رہے ہیں کیونکہ اب وہ امریکا پر بھروسہ کرنے سے گھبرا رہے ہیں گوکہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ٹرمپ کے حالیہ مطالبات ماننا کم عقلی ہو گی لیکن چین کے علاوہ باقی ممالک کے پاس ٹرمپ کے مطالبات ماننے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔ بھارت،چاپان،کوریا اور یورپ کی طرح امریکا نے چین پر بھی بھاری ٹیرف نافذ کر دیا تھا لیکن اس کے جواب میں چین نے نایاب معدنیات اور میگنٹس کی برآمدات کو فوری طور پر معطل کر دیا،یہ میگنٹس کاروں اور ڈرونز سے لیکر مینوفیکچرنگ، روبوٹس اور میزائلوں تک سب کچھ تیار کرنے کیلئے استعمال ہوتے ہیں۔ اس کیساتھ ساتھ چین نے امریکا سے سویا بین کی خریداری کا بھی مکمل بائیکاٹ کر دیا ہےبرآمدات کے روکنے سے چین نے امریکا کو واضح پیغام دیا ہے کہ چین کے پاس بھی دباؤ ڈالنے کیلئے خاطر خواہ مواد موجود ہے۔ امریکا کے یہ اقدامات اس بات کا ثبوت فراہم کرتے ہیں کہ ٹرمپ تجارتی محصولات کو اپنے ایجنڈے کے حصول کیلئے استعمال کر رہے ہیں خواہ اس کے نتیجے میں امریکا کے قریبی اتحادیوں کے لیے سفارتی، سیاسی یا معاشی مسائل ہی کیوں نہ پیدا ہوں۔