• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
لکھنا ایک مشکل کام ہے اور سچ سننا اس سے بھی مشکل اور حکمرانوں کیلئے بہت ہی مشکل کام ہے اسی لئے اکثر سیاسی رہنمائوں نے اپنے لئے ’’نورے‘‘ رکھے ہوئے ہیں جو ہر خبر کو، سچائی کو سنسر کرکے ان کے کانوں تک پہنچاتے ہیں اور جب وہ اقتدار سے محروم ہوجاتے ہیں تو بڑ ے بڑے سچ ان کے سامنے آتے ہیں اس وقت تک بہت سا پانی پلوں کے نیچے سے گزر چکا ہوتا ہے میں ایسے بہت سے’’ نوروں‘‘ کو جانتا ہوں دیکھتا رہا ہوں جو صاحب اقتدار افراد تک ان کے ناک اور کان بنے ہوئے تھے مثلا ایوب خان کو ان کے ’’نورے‘‘ اخبار کی جعلی ڈمی چھاپ کر پڑھوایا کرتے تھے میں ایوب خان صاحب سے ملا بھی ہوں وہ ایک نہایت اچھے اور نفیس انسان تھے انہیں اصل حقائق اور قوم کے جذبات کا صحیح ادارک اس وقت ہوا جب وہ اقتدار کی روشنیوں سے مایوسی کے اندھیروں کی طرف جارہے تھے اس کے بعد اپنے اپنے کارنامے چھپانے کیلئے ان لوگوں نے کتابیں لکھوائیں اکثر کتابیں ایک ہی جیسی ہیں کہ’’ میں نے یہ نہیں کہاتھا میں نے تو یہ مشورہ دیا تھا مگر خان صاحب مانتے ہی نہ تھے‘‘ پھر یہی حال چیئرمین پیپلزپارٹی کا ہوا وہ بے گناہ اپنے ’’نوروں‘‘ کی بدولت تختہ دار کی طرف چلے گئے اور اس کے بعد انہیں قتل کردیاگیا آج جو لوگ ان کے قتل میں Devoted Friends بنے ہوئے ہیں جب مرحوم کا مقدمہ آخری لمحوں پرتھا جوکہانیاں اس وقت کے اخبارات میں شائع ہوئیں ’’دیدہ ور لکھنے والوں نے پھر ان کہی کہانی لکھی‘‘ اس کے بعد ضیاء الحق صاحب تشریف لائے ان کا اپنا ہی ایک حلقہ تھا وہ مذہب کے نام پر سیاست کرتے رہے جس کی وجہ سے ’’خود ساختہ‘‘ مذہبی لیڈر ہمیں دکھائی دینے لگا انہوں نے سیاست کو شجر ممنوعہ قرار دے دیا صحافت ان کی نظر میں وہ تھی جو ان کے نظریات پر مبنی تھی دنیا کی تاریخ میں میرے ملک میں صحافیوں کو کوڑے تک مارے گئے اور کوڑے مارنے کیلئے باقاعدہ لائوڈ اسپیکر لگائے جاتے تھے اور ان کی چیخوں کی آوازیں عبرت پکڑنے کیلئے لوگوں کو سنوائی جاتی تھیں یہاں تک کہ اخبارات کو یہ بھی کہا گیا کہ کسی بھی اہم خبر کو شائع نہ کرو بلکہ اس جگہ کو ’’خالی‘‘ چھوڑ دو یا پھر فلمسٹار کی تصویریں لگا لو عجیب مضحکہ خیز صورت حال تھی پورے ملک میں ایک گہرا سناٹا تھا ’’وہ حبس تھی کہ لو کی دعا مانگتے تھے لوگ‘‘ اور یہ دور بھی ہمارے سامنے گزر گیا جب میں ایوان اقتدار کی گردشوں کے چہروں کو دیکھتا ہوں تو مجھے کوئی خاص تبدیلی نظر نہیں آتی میں خود ایک سرگرم سیاسی کارکن کئی مرتبہ مرحلہ وار اس سے گزرا ہوں وطن کی تیسری نسل سیاسی جماعتوں کی غیر ذمہ دارانہ روش کی وجہ سے اپنی صفوں نہ ملکی سطح پر کوئی بڑی تبدیلی پیش کرسکی ہے تقریباً ہر سطح پر ’’پدرم سلطان بود‘‘ اور اب تو تیسری نسل کو مایوسی سے نکالنے حسب سابق اتحادوں کی سیاست میں الجھا یا جارہا ہے جس کا نتیجہ مجھے تو کوئی خاص برآمد ہوتا نظر نہیں آتا اس سے پیشتر جگتوفرنٹCOP قومی اتحاد اسلامی جمہوری اتحاد نے بہت سے منشور دئیے مگر نہ جانے کون سے خفیہ ہاتھ کی وجہ سے کوئی موثر کردار ادا نہ کرسکے ملک کی اقتصادی حالت بین الاقوامی طور پر بکھر گئی میری ایک بات سمجھ نہیں آئی کہ ایک جیسا نظریہ، ایک جیسا دستور، ایک جیسے نظریات آپس میں جمع ہوکر ایک مضبوط سیاسی جماعت کی شکل کیوں نہیں اختیار کرتے اور ہر مرتبہ غیر سیاسی قوتوں کومداخلت کی دعوت دینی پڑتی ہے مجھے تو اس دفعہ بھی یہی صورتحال نظر آرہی ہے اور بات دیانتداری کی ہے کہ ایسی ایسی قوتیں متحرک ہوئی ہیں جب کمزور اور بکھری ہوئی جماعتیں اپنی تنظیمیں برقرار نہیں رکھ سکتیں میں پاکستان کی صف اول کی سیاسی قیادت جو مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان پر مشتمل تھی ان کے قریب رہا ہوں اور ان کا مرکزی عہدیدار بھی رہا ہوں وہ انتہائی اچھے لوگ تھے ڈپٹی سپیکر مشرقی پاکستان اسمبلی کو ہائوس میں قتل ہوتے دیکھا۔
جن کا نام شاہد علی تھااور پاکستان کی جدوجہد کرنے والے عظیم ترین رہنمائوں کو ایبڈوزدہ ہوتے دیکھا مشرقی پاکستان پر گورنر راج کے ذریعے حکومت چلتی دیکھی اور تمام معاملات بیورو کریسی کے ہاتھ میں منتقل ہوتے دیکھے مغربی پاکستان اسمبلی میں راتوں رات قرآن شریف پرحلف اٹھا کر مکرتے دیکھا اور ’’یکایک چراغوں میں روشنی نہ رہی‘‘ ملک مارشل لاء کی نذر ہوگیا ایسے ایسے لوگوں پر بے ایمانی اور کرپشن کے الزامات لگے جو دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضوکریں ان لوگوں سے قیام پاکستان کے وقت کی قربانیاں اور جدوجہد میںنے ان لوگوں سے سنی پاکستان کے ذرائع ابلاغ کے اہم ترین افراد سے میری ذاتی تعلق داری تھی اور میرے ان اخباری نمائندوں سے بھی راہ و رسم ہوگئے جو باہر کے اخبارات کے رپورٹر تھے۔ پھر میں محترمہ فاطمہ جناح کے ساتھ کھڑا ہوگیا میں نے مشرقی اورمغربی پاکستان کے محترمہ کے ساتھ دورے بھی کئے عوام کا لاکھوں کا عظیم الشان اجتماع ان کے استقبال کیلئے دیکھا مگر افسر شاہی ،وڈیروں، جاگیرداروں نے فاطمہ جناح کو دھاندلی سے انتخابات میںہرا دیا پھر پاکستان کی خالق جماعت پر بھی اسی طرح کا قبضہ دیکھا مجھ جیسے ہزاروں لوگ اس چڑیا کی طرح ہیں جو اپنی چونچ سے بہت بڑی آگ پر پانی ڈال رہی تھی اور لوگ ہنس رہے تھے مگر اس کا کہنا یہ تھا کہ میری چونچ میں اتنا ہی پانی آتا ہے میں خدا کے سامنے پیش ہوکر یہی کہوں گی کہ میری کائنات تو یہی تھی اب جو اس ملک میںافراتفری پھیلی ہوئی ہے اس کے ذمہ دار عوام نہیں وہ تو ہر دور میں اپنی قربانیاں پیش کرچکے ہیں اب ہمارے پاس تو سوائے ان تحریروں کے اور کچھ نہیں جو ہم مرنے سے پہلے اپنی نئی نسل کو منتقل کرنا چاہتے ہیں اس سلسلے میں میری دوکتابیں منظر عام پر آچکی ہیں اور کوشش کررہا ہوں کہ آخری وقت تک لکھتا رہوں ۔ چاروں طرف ملک کو آگ میں بھڑکتے ہوئے شعلوں کے درمیان دیکھ رہا ہوں آئندہ کیا ہوگا اس خطے کی سیاست واضح نشاندہی کررہی ہے اگر ہم نہ سمجھے تو یہ ہماری کوتاہی ہوگی اور ہماری آنے والی نسلیں ان سیاسی مخبروں کی کاوشوں سے بے خبر رہیں گی جو اس پاکستان کی سیاست کے نام پر کتنی خوفناک خدمت کرتے رہے ہیں سچائی بہرحال کبھی نہ کبھی تو سامنے آکر رہے گی میں اس لئے بھی لکھتا ہوں ۔
چمن نے اس قدر دھوکے دئیے مجھ کو
کہ میں نے شوق گل بوسی میں کانٹوں پر زبان رکھ دی
تازہ ترین