جھیلوں کی ملکہ، جھیل سیف الملوک، اپنی منفرد، رومانی داستان کی وجہ سے نہ صرف پاکستان، بلکہ دنیا بھر میں مشہور ہے۔ قدرتی حُسن سے مالا مال اور چاروں طرف سے پہاڑوں میں گِھری، خُوب صُورت وادی ناران کے علاقے میں واقع سطحِ سمندر سے 10500فٹ بلند صدیوں پرانی یہ جھیل سیّاحوں کی توجّہ کا خاص مرکز ہے۔
برف پوش پہاڑوں اور سر بہ فلک چوٹیوں میں گھری جنّتِ نظیر وادی کاغان میں کم وبیش نو چھوٹی، بڑی جھیلیں موجود ہیں، جن کی وجہ سے اسے ’’جھیلوں کی نیلگوں سرزمین‘‘ کے نام سے بھی پُکارا جاتا ہے۔ یوں تو اس وادی کا چپّا چپّا قدرت کے حسین، دل کش نظاروں سے مالا مال ہے، لیکن جھیل سیف الملوک کو ’’وادئ کاغان کا جھومر‘‘ کہا جائے، تو بے جا نہ ہوگا کہ اس جھیل کا شمار دنیا کی چند سحر انگیزجھیلوں میں ہوتا ہے۔
واضح رہے، جھیل سیف الملوک اور اس سے متصل دل کش و خُوب صُورت مقامات پر سال بھر میں صرف پانچ یا چھے ماہ رونقیں رہتی ہیں۔ اپریل میں ناران کے راستے کُھلنا شروع ہوتے ہیں اور اکتوبر میں برف باری کے باعث بند ہونا شروع ہوجاتے ہیں، جس کے بعد لینڈسلائیڈنگ کے سبب سیّاحوں کو مزید آگے تک جانے کی اجازت نہیں ہوتی، لیکن جیسے ہی یہ راستے کھلتے ہیں، نہ صرف پاکستان، بلکہ دنیا بھر سے سیّاح ناران کی طرف کھنچے چلے آتے ہیں اور ایک مرتبہ پھر یہاں ایک بھرپور زندگی لوٹ آتی ہے۔
مقامی لوگوں کے مطابق، ہر سال ناران آنے والے لاکھوں سیّاح دراصل ایشیا کی خُوب صُورت ترین جھیل سیف الملوک ہی دیکھنے آتے ہیں کہ جس کے نظارے اپریل سے اگست تک مسلسل بدلتے رہتے ہیں، تاہم تیز بارشوں کے ذریعے آنے والے پہاڑی ملبے کی وجہ سے جھیل کا قطر تیزی سے کم ہو رہا ہے اور اگر پہاڑوں سے مٹّی اور پتّھر وںکی صُورت جھیل کے اندر جانے والے اس ملبے کو روکا نہ گیا، تو جھیل کا پانی اوور فلو ہوکر ناران بازار کو بھی نقصان بھی پہنچا سکتا ہے۔
مہکتے پھولوں کی سرزمین لالہ زار، ناران سے محض 18کلومیٹر کے فاصلے پر وادئ کاغان کے حسین ترین مقامات میں سے ایک ہے۔انتہائی بلند اور دشوار گزار ہونے کے باعث لالہ زار روڈ کو خطرناک سڑک کہا جاتا ہے۔اس کے ایک جانب پہاڑ، تو دوسری جانب دور کہیں نشیب میں بہتا دریائے کنہار ہے۔ لالہ زار میں قیام و طعام کی سہولت موجود ہے۔
ایک زمانے میں یہاں پاکستان کا قومی جانور مارخور بہ کثرت پایا جاتا تھا، لیکن اب ان کی تعداد میں نمایاں کمی آچکی ہے۔ اسی طرح لالہ زار کے جنگلوں میں ریچھ اور چیتے بھی عام دیکھے جاسکتے تھے، لیکن جب سے انسانی قدم یہاں پہنچے ہیں، اُن کی نقل و حرکت بھی محدود ہوگئی ہے، البتہ عقاب اور باز اب بھی اکثر فضاؤں میں محوِ پرواز دکھائی دیتے ہیں۔ لالہ زار میں ہوٹلز کی بھر مار ہے۔ دریائے کنہار کے کنارے کیمپ بھی بآسانی مل جاتے ہیں۔
سڑک کے ساتھ ساتھ موجود ہوٹلز میں رہائش منہگی ہے، البتہ مرکزی بازار سے آگے پُل کے بائیں جانب مناسب ریٹ پر سستے ہوٹلز اور ریسٹ ہائوسز بھی مل جاتے ہیں۔ تھوڑی سی تگ و دو کے بعد ہمیں بھی دریائے کنہار کے بالکل قریب بیس کیمپ ریسٹ ہاؤس میں دو کمرے مل گئے۔ ریسٹ ہاؤس کے بالکل سامنے وہ قدیم غار اب بھی موجود ہے، جس کے متعلق مشہور ہے کہ یہاں شہزادہ سیف الملوک اور پری بدیع الجمال نے پناہ لی تھی۔
کہا جاتا ہے، وہ دونوں جب غار میں آئے، تو قدرتی طور پراوپر سے پتھر گرنےکی وجہ سے غار کا راستہ بند ہوگیا، جس کے بعد سے لوگ اس غار کوشہزادہ سیف الملوک اور بدیع الجمال کی محبّت کا ایک اُچھوتا اور لازوال ثبوت قراردینے لگے۔ شہزادہ سیف الملوک اور پری بدیع الجمال کی کہانی دراصل ایک رومانی داستان ہے، جو اس جھیل سے منسوب ہے۔ مقامی باشندوں کا عقیدہ ہے کہ سیف الملوک اور بدیع الجمال آج بھی غار میں زندہ ہیں۔ ویسے اس روایتی لوک داستان ہی کی وجہ سے ناران کی اس خُوب صُورت جھیل کانام ’’سیف الملوک‘‘ پڑا۔
ہزارہ موٹر وےM-15کی وجہ سے کئی گھنٹوں کا طویل سفر اب صرف چند گھنٹوں میں طے ہوجاتا ہے۔ اس موٹروے پر سفر کےلیے5سرنگیں، 9فلائی اوورز اور47پُل تعمیر کیے گئے ہیں، جنھیں عبور کرکے ہم جلد ہی بالا کوٹ پہنچ گئے اور یہاں دریائے کنہار کا پہلا نظارہ ہی مبہوت کردینے والا تھا۔ یہ دریا، لولوسر جھیل سے اپنے سفر کا آغاز کرتا ہے اور تمام تر رعنائیوں کے ساتھ پوری وادی میں سانپ کی طرح بَل کھاتا ہوا بالا کوٹ کے قلب سے گزر کر مظفر آباد کے قریب دریائے جہلم سے جاملتا ہے۔
بالا کوٹ، مانسہرہ سے 38کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ایک اہم سیّاحتی علاقہ ہے اور وادئ کاغان کا آغاز اسی شہر سے ہوتا ہے۔ اسے ’’وادی کاغان کا دروازہ‘‘ بھی کہتے ہیں۔ دریائے کنہار کے دونوں جانب شہر آباد ہے۔ بالا کوٹ کا نام ذہن میں آتے ہی معرکہ بالا کوٹ کی تاریخ یاد آجاتی ہے۔ سیّد احمد شہید اور شاہ اسماعیل شہید کی وجہ سے اس شہر کو خاص اہمیت حاصل ہے، جنہوں نے سِکھوں سے لڑتے ہوئے مٹّی کوٹ کے مقام پر شہادت کا رتبہ پایا۔
ان شہداء کے مزارات اسی شہر کے وسط میں ہیں۔ بالا کوٹ کے ندی بنگلا، کھوڑی میڈوز اور ناگاں یہاں کے خُوب صُورت اور پُرفضا سیّاحتی و تفریحی مقامات ہیں۔ یہاں زیادہ تر ہندکو اور گوجری زبانیں بولی جاتی ہیں۔ وادئ کاغان کے لیے تمام اشیائے خورونوش کی ترسیل بھی اسی شہر سے ہوتی ہے۔
بالاکوٹ شہر سے آگے کا زیادہ تر سفر دشوار گزار پہاڑوں پر محیط ہے۔ اگرچہ یہاں پختہ سڑکیں ہیں، لیکن اونچائی پر انتہائی مہارت اور احتیاط سے گاڑی چلانی پڑتی ہے۔دشوار گزار راستوں سے گزرتے ہوئے بلندی پر پہنچے، تو وہاں سے دریائے کنہار نیچے گہرائی میں ایک چھوٹی سی ندی کی مانند دکھائی دےرہا تھا۔ خُوب صُورت نظاروں کے درمیان سفر کٹتا چلا گیا اور ہم بالا کوٹ سے 24کلومیٹر کے فاصلے پر واقع کیوائی کے قصبے پہنچ گئے۔
وادی کاغان کا یہ پہلا وزیٹنگ پوائنٹ ہے۔ ہم نے کچھ دیر یہاں قیام کیا۔ کیوائی اپنی منفرد آب شاروں کی وجہ سے بہت مشہور ہے، جوسیڑھیوں کی مانند پہاڑوں کے اوپر سے بہتی چلی جاتی ہیں۔ کیوائی سے8کلومیٹر کے فاصلے پر ایک عمودی سڑک پُرفضا مقام، شوگران تک جاتی ہے، وہاں سے مزید آگے کا سفر جیپ کے ذریعے طے کرنے کے بعد 6کلومیٹرکے فاصلے پر سری اور پائے کے خُوب صُورت مقامات اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ نظر آتے ہیں۔
اس علاقے کی سب سے اونچی پہاڑی ’’مکڑا چوٹی‘‘ پورے سال برف سے ڈھکی رہتی ہے۔ کیوائی سے 16کلو میٹر کے فاصلے پر پارس کے مقام سے ایک روڈ دریا کے پار 7872فٹ کی بلندی پر واقع ’’شاران فارسٹ‘‘ کی طرف نکلتا ہے، مگر وہاں تک سیّاح کم ہی جاپاتے ہیں، جس کی ایک اہم وجہ سڑک کی خستہ حالی ہے۔ جنگلوں سے گِھرا یہ انتہائی گھنا، پُرسکون اور غیر آباد مقام ہے، جو اپنے اندر خاص کشش رکھتا ہے۔ یہاں ایک فاریسٹ ریسٹ ہاؤس اور یوتھ ہاسٹل کے علاوہ عام سیّاحوں کے قیام وطعام کا بندوبست بھی ہوتا ہے، مگر خیال رہے، جنگلی حیات کی بھی کثرت ہے۔
مانسہرہ اور بالا کوٹ سے علی الصباح شروع ہونے والا 250کلومیٹر کا ہماراطویل سفر شام چار بجے کے قریب ناران پہنچ کر اختتام پذیر ہوا۔اگلی صبح جھیل سیف الملوک کے لیے رختِ سفر باندھا اور تقریباً 45منٹ کے سفر کے بعد جھیل کے نزدیک پہنچ گئے۔ راستے میں دو مقامات پرٹول ٹیکس وصول کیا گیا۔ حیرت انگیز طورپر یہ ٹیکس جیپ والے نہیں، بلکہ سیّاحوں کو دینا ہوتا ہے۔
مزید ستم یہ کہ جھیل کے قریب جیپوں کی پارکنگ فیس بھی سیّاحوں ہی سے وصول کی جاتی ہے۔ جھیل کی طرف جانے کے لیے اب پختہ راستہ بن چکا ہے۔ ہماری جیپ جھیل کے قریب پہنچی، تو صاف شفّاف پانی پر پہاڑوں کا عکس جھیل کو مزید پُرکشش کرتا نظر آیا۔ جھیل کا پانی ایک شفّاف آئینے کی مانند نظر آرہا تھا۔ ایشیا کی حسین و جمیل، تمام تر دل کشی سے مالا مال نیلگوں پانی کی جھیل، جھیل سیف الملوک سطحِ سمندر سے 10500فٹ بلند اور ناران سے محض 8کلومیٹرکے فاصلے پر واقع ہے۔
یہاں جا بہ جا دکانیں اور ریسٹورنٹ ہیں، جہاں کھانے پینے کے لوازمات اور دیگر اشیاء دست یاب ہیں۔ جھیل کے سامنے ملکہ پربت برف کا سفید لبادہ اوڑھے، شفّاف پانیوں میں اپنا عکس دیکھتی ہے، ملکہ پربت اس علاقہ کی سب سے اونچی پہاڑی چوٹی ہے، جس کی اونچائی 17390فٹ ہے۔ جھیل کے اِردگرد کا تمام علاقہ سرسبز و شاداب ہے، البتہ پہاڑی چوٹیاں سارا سال برف سے ڈھکی رہتی ہیں۔
بلاشبہ، جھیل سیف الملوک قدرت کا ایک جنّت نظیر تحفہ ہے، جس کا موسم سارا سال بدلتا رہتا ہے، سردیوں میں یہ جھیل برف کی چادر اوڑھ لیتی ہے،جب کہ موسمِ گرما میں اس کی خُوب صُورتی اور حُسن و جمال اپنے جوبن پر ہوتا ہے۔ جھیل کے پانی کا رنگ بھی موسم کے اعتبار سے بدلتا رہتا ہے، صاف موسم میں نیلگوں اور دھوپ میں سبز اور گہرے بادل ہوں، تو گہرا سبز ہو جاتا ہے، جسے دیکھ کر انسان کی عقل دنگ رہ جاتی ہے۔
اس کی دل کشی اور خُوب صُورتی دیکھ کر اندازہ ہوجاتا ہے کہ اسے یونہی ’’جھیلوں کی ملکہ‘‘ نہیں کہا جاتا۔ یہ جھیل اپنی رومانی داستان کی وجہ سے نہ صرف پاکستان، بلکہ دنیا بھر میں مشہور ہے اور لوگ اسی سبب دُوردُور سے اس کا نظارہ کرنے آتے ہیں۔ جب کہ جھیل کنارے بہت سے مقامی بزرگ شہزادہ سیف الملوک اور پری بدیع الجمال کی کہانی سنانے کو بھی بے تاب نظر آتے ہیں۔ سیّاحوں کو روک روک کر آوازیں لگاتے ہیں کہ ’’جھیل کی کہانی سُنو۔‘‘
ویسے چند روپوں کے عوض گرما گرم چائے کی چسکیوں کے ساتھ وہاں کی تاریخی کہانی سننے میں کوئی حرج بھی نہیں، سو ہم نے بھی عین اُسی جگہ بیٹھ کر چاچا ابراہیم سے جھیل کی داستان سُنی۔ جس میں شہزادے نے پری سے ملنے کے لیے 12سال انتظار کیا تھا۔ ابراہیم بابا نے کہانی کچھ اس انداز میں بیان کی کہ ہم تو بس کھو سے گئے۔
یوں محسوس ہورہا تھا، جیسے سنیما میں کوئی فلم دیکھ رہے ہوں؎ سچ تو یہ کہ جھیل سیف الملوک کی سیّاحت کا یہ سفر، ہماری زندگی کی چند حسین ترین یادوں میں سے ایک ہے۔ بے اختیار ہی امجد صاحب کی نظم یاد آجاتی ہے۔ ؎’’اُس جھیل کنارے پل دو پل…اِک خواب کا نیلا پھول کِھلے…وہ پھول بہا دیں لہروں میں… اِک روز کبھی ہم شام ڈھلے…اُس پھول کے بہتےرنگوں میں…جس وقت لرزتا چاند چلے… اُس وقت کہیں ان آنکھوں میں اُس بسرے پل کی یاد تو ہو…اُن جھیل سی گہری آنکھوں میں اِک شام کہیں آباد توہو…پھرچاہےعُمرسمندر کی… ہر موج پریشاں ہوجائے… پھر چاہے آنکھ دریچے سے… ہر خواب گریزاں ہوجائے… پھر چاہے پھول سے چہرے کا…ہر درد نمایاں ہو جائے… اُس جھیل کنارے پل دو پل وہ رُوپ نگر ایجاد تو ہو…دن رات کے اس آئینے سے وہ عکس کبھی آزاد تو ہو…اُن جھیل سی گہری آنکھوں میں اک شام کہیں آباد تو ہو۔‘‘