• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

رات کے اندھیرے میں نئی نئی بنی کالی سڑک پر بس، کروفر سے دوڑے جا رہی تھی۔ ہیڈ لائٹ سے نکلتی تیز روشنی اژدھے کی مانند تیزی سے رینگتی، کچھ گز کے فاصلے تک تاریکی کو نگلتی آگے سے آگے بڑھ رہی تھی۔ ابھی کچھ دیر پہلے تک توغروبِ آفتاب کی لالی دُوراُفق پر چھب دِکھا رہی تھی، مگر اب ایسےغائب ہوئی، جیسے کبھی تھی ہی نہیں۔ بالکل ایسے ہی جیسے اُسے پتا ہی نہ چلا اور اُس کی زندگی خاموشی سے گزر گئی۔ 

بس کے پہیے، وقت کے تیز بہاؤ میں آگے کی جانب بڑھ رہے تھے، مگر اس کا دماغ لہروں کی مخالف سمت، ماضی کی طرف محوِ سفر تھا۔ اُس کی پوری زندگی ہی سفر میں گزری تھی۔ ابھی بیسواں سال شروع ہی ہوا تھا کہ باپ کی اچانک موت نے سارا منظر ہی بدل ڈالا۔ باپ کی شرافت، نیک نامی، فیکٹری مالکان کی ضرورت اور مہربانی، سب مل کر اُس کا آسرا بن گئے اور وہ باپ کی جگہ ڈرائیور بھرتی ہوگیا۔ صُبح منہ اندھیرے کراچی کے محلے محلے پِھر کر ملازمین اکٹھے کرتا اور شہر کے مضافات میں قائم مِل تک وقت سے پہنچا دیتا۔ شام کو مِل سے الٹا سفر شروع ہوتا اور پھر وہ اندھیرا پھیل چُکنے کے بعد ہی گھر داخل ہوتا۔

عید ، شب برات تو چھوڑ، اسے اپنی شادی اور بچّے ہونا بھی بس دھندلا دھندلا سا یاد تھا، جیسے خواب اور بے داری کی مشترکہ سرحد پر کھڑے حقیقت اور گمان ایک دوسرے میں خلط ملط ہو جاتے ہیں، ہاں مگر اپنے رستے کا ہر ہر گڑھا، اسپیڈ بریکر، اونچائی، اُترائی اُسے ازبر تھی۔ رستے کی ایک ایک عمارت، اُن میں بنی دکانیں اور اُن کے آگے لوٹتے کتوں تک سے وہ واقف تھا۔ چالیس سال کے روزانہ معمول میں کئی دودھ والوں، اخبار فروشوں کو چہروں سے شناخت کرسکتا تھا۔ اس لمبے عرصے میں اُس نے کئی جوانوں کوبوڑھا ہوتے، پودوں کو درخت بنتے دیکھا تھا۔ 

مگر صُبح و شام کی مصروفیت میں اپنے متعلق کچھ اندازہ ہی نہ ہو پایا۔ اُسے اچھی طرح یاد تھا کہ کہاں بوڑھے برگد کے دونوں جانب نیم کے سلیقے سے لگے درخت با ادب کھڑے ہیں، کون سے موڑ سے مُڑ کر تین منٹ کے فاصلے پر نیاز بیگ کی جھاڑیوں سے اٹھتی تعجب خیز بو دل کو متحیّر کردیتی ہے۔ بڑے سے احاطے کی قدِ آدم دیواروں سے باہر جھانکتے آم کے درخت، اُن پرآئی بور اور اُن پر کوکتی کوئل بھی اس کے شناساؤں میں شامل تھی۔ 

مگر اب اپنی ریٹائرمنٹ سے ماندہ، اُس نے دن کی روشنی میں چشمہ لگا کر اپنا چہرہ دیکھا تو حیرت ہوئی۔ جہاں تک اُسے اپنا آپ یاد تھا، وہ ہمیشہ ہی سے لمبا اور سوکھا سا تھا۔ لمبی گردن کی کاغذی کھال سے گلے کی ہڈی تھوک نگلتے وقت بھی اوپر نیچے ہوتی واضح نظر آتی۔ پیلی مٹیالی رنگت پر ماتھے کے بیچوں بیچ سجدے کے نشان نے چہرے کےمختلف رنگوں میں ایک رنگ کا اضافہ کردیا تھا۔ 

ابرو پہاڑوں کی مانند بلند تھے، جن کے دامن میں گہری اُترائی تھی، مگر ان آنکھوں میں وحشت نہیں، ایک اطمینان نظر آتا تھا۔ آنکھوں کے نیچے سیاہ حلقے سوجن کے باعث چھوٹے چھوٹے ٹیلوں کی مانند اُبھر سےگئے تھے۔ ناک اورگال کی ہڈی کے درمیان کھال پرسلوٹیں اتنی دبیزہوچکی تھیں کہ گھاٹیوں کا گمان ہوتا۔ ٹھوڑی پر آگے چند سفید بال شرمندہ شرمندہ سے لگتے۔ ابھی وہ اِسی فکر میں غلطاں تھا کہ اپنی جمع پونجی کی مختصرسی رقم سے کوئی چھوٹا موٹا محفوظ کاروبارشروع کرے کہ نوکری ختم ہوئی تھی، زندگی توباقی تھی۔ 

بیوی نے یہ بتا کر اُسے نئی الجھن میں ڈال دیا کہ اُس کی منجھلی بیٹی نے، جو راول پنڈی میں پھوپھی کے گھر بیاہی تھی، اپنے محلے میں، چھوٹی بہن کے لیے کوئی رشتہ پسند کیا ہے اور اب اصرار کر رہی ہے کہ اماں ابا چھوٹی کو لے کر پنڈی پہنچ جائیں، تو اُس کے نومولود کے عقیقے میں شرکت کے ساتھ رشتے کے معاملات بھی طے کرلیں۔ وہ ان باتوں سے بے بہرہ تھا، اُسے کیا خبر کہ رشتے کے مراحل کیسے طے ہوتے ہیں۔ بڑی بیٹی اپنی خالہ اور منجھلی پھوپھی کے گھر گئی تھی، مگر اب سلسلہ غیروں سے تھا۔ 

اُسے اللہ کے بعد اپنی بیوی سے ڈھارس تھی کہ ہمیشہ کی طرح کچھ کر کرا کے وہ یہ معاملہ بھی نمٹا لے گی، مگر اب کے شاید وہ بھی گھبرا رہی تھی۔ دونوں ہی بڑی بیٹی کے یہاں شادی کے پانچ سال بعد تک اولاد نہ ہونے اور پھر اُس کے سسرال میں گاہے گاہے شوہر کی دوسری شادی کے متعلق اُٹھنے والے غلغلے سے پریشان تھے۔ بیٹی کی دھواں دھواں صُورت اُسے دل گرفتہ کر دیتی مگر وہ ہمیشہ کی طرح خاموش ہی رہتا۔

وہ پنڈی جانےسے گھبرا رہا تھا۔ ایک ناقابلِ بیان ڈر اُس کےدماغ پرمسلط تھا، اُس کی چھٹی حِس اُسے خبردار کررہی تھی۔ وہ اس سفر کو ٹالنا چاہتا تھا، مگر جب بیمار بہن نے فون پر اپنی زندگی میں اُس کی صُورت دیکھنے کی خواہش کی، تو وہ انکار نہ کرسکا۔ یوں اِس وقت وہ ڈرائیور کے سامنے والی سیٹ پربیٹھا روشنی اور اس کے خوف سے بھاگتا اندھیرا دیکھنے میں محو تھا۔ اُسے محسوس ہوا، اندھیرا ذرا دیر کو سمٹتا تو ضرور ہے، مگر اگلے ہی لمحے بھیڑیوں کی طرح چاروں طرف سے روشنی پر حملہ آور ہو جاتا ہے اور آخر کار غلبہ حاصل کر لیتا ہے۔ بس تیزی سے گزرتے ہوئے اپنے پیچھے تاریکی ہی چھوڑ جاتی ہے۔ 

زیادہ تر مسافر اونگھ رہے تھے کہ کنڈکٹر نے آواز لگا کر مسافروں کو ہوشیار کیا کہ بیس منٹ کے لیے گاڑی کھانے پینے یا ٹوائلٹ جانے کے لیے ریسٹ ایریا میں رُکے گی۔ شومئی قسمت وہ دستی تھیلا، جس میں کھانے پینے کا سامان اور سویٹر وغیرہ تھے، اُس نےخُود ہی جلدی میں بغیر سوچے سمجھے، سامان کم کرنے کے چکر میں بڑے بیگ میں ٹھونس کر بس کے نیچے موجود سامان کے خانے میں رکھوا دیا تھا کہ عصر کے وقت جب وہ چلے تھے، اس کی ضرورت ہی محسوس نہ ہوئی تھی۔ مگر اب بھوک اور اوائل نومبر کی سردی دونوں اپنا احساس دِلا رہے تھے۔ 

اُس نے دھیمے دھیمے کنڈکٹر سے بس رکنے پربیگ نکالنے کی بات کی، تو ڈرائیور اور کنڈکٹر جن کی پہلے ہی ڈیزل ڈلوانے کے معاملے پر بدمزگی ہوچُکی تھی، جیسے سیخ پا ہی ہوگیا۔ ’’او بھائی! ضرورت کا سامان اپنے ساتھ رکھنا تھا۔ اب کچھ نہیں ہوسکتا۔‘‘ ڈرائیور کی بد تمیزی دل کو چرکا لگا۔ بَھری بس، خصوصا اپنی بیوی، بیٹی کے سامنے بے عزتی، اُس کی عزت نفس پامال کر گئی۔ گھبرا کربیٹی کی جانب دیکھا۔ اُس کے چہرے پر خوف اور آنکھوں میں بے یقینی نظر آئی کہ یہ بے عقل میری زندگی کا فیصلہ کرنے چلا ہے۔ 

اپنے تئیں اِس عُمر میں وہ خُود کو معزز، لائقِ احترام سمجھ رہا تھا کہ بیٹی کی شادی جیسی اہم ذمّے داری کا فیصلہ اس کے ہاتھوں میں تھا۔ اِس اختیار کے بوجھ میں وہ دھنسا جارہا تھا۔ بحیثیت ڈرائیور وہ جانتا تھا کہ یہ ڈرائیور کی ذمّے داری ہوتی ہے کہ وہ بس کو مقررہ وقت پرمنزل تک پہنچائے۔ اگر وہ سب سواریوں کی سننے لگے، تو کبھی وقت پرمنزل پہ نہ پہنچ پائے۔ مگر یہ بات ڈرائیورسہولت سے بھی کرسکتا تھا۔ وہ شرمندہ ہو کر چُپ ہو رہا۔

گاڑی ریسٹ ایریا میں رُکی، تو انسانوں کا جمِ غفیر دیکھ کر وہ حیران رہ گیا۔ بیوی کی شال اوڑھے نیچے اُترا کہ کچھ کھانے پینے کا انتظام کرے۔ موٹروے پر ہر چیز اپنی اصل قیمت سے دو، تین گنا پرفروخت ہورہی تھی، اور سب خرید بھی رہے تھے۔ اس نے دُکان دار سے اتنی زیادہ قیمت پراستفسارکرنا چاہا، تو اُس نے ایسی حقارت بھری نظروں سے دیکھا، جیسے وہ بھیک مانگ رہا ہو۔ ’’لینا ہے تو لو، ورنہ آگے چلو۔‘‘ ابھی وہ پہلے صدمے ہی سے نہ نکلا تھا کہ دوبارہ ایک لمحے میں ایک مزدور پیشہ نے دوسرے محنت کش کی عزت اُتار کر رکھ دی۔ 

اُس کا تعلق ایک ایسے معاشرے سے تھا، جہاں غربت کو شرافت کی دلیل سمجھا جاتا ہے، مگرعزت صرف پیسے والے کی ہوتی ہے۔ آلو والا سموسہ اور دال کا بن کباب خرید کر اُس نے جلد ہی بس میں بیٹھی بیوی، بیٹی تک پہنچائے۔ نہ چاہتے ہوئے بھی، بیٹی کےاصرار پر سموسہ اپنے حلق سے اتارتے ہوئے وہ اپنے آنسو پیتا رہا کہ امیروں، سرمایہ داروں کا تو ذکر کیا، خُود ایک مزدور اپنے جیسے مزدورکا بھرم نہیں رکھتا۔ اسے سانس لینا دشوار ہورہا تھا، ہوا کے لیے بس سے نیچے آ کھڑا ہوا۔

ڈرائیور کے دئیے گئے وقت میں سے دس منٹ تو گزر ہی چُکے تھے، مگر زیادہ تر بس خالی تھی۔ ڈرائیور اور کنڈکٹر بھی دُور چارپائی پر لیٹے سگریٹ سے شوق فرما رہے تھے۔ ریسٹ ایریا میں بڑی رنگا رنگی تھی۔ کچھ لوگ سکون سےبیٹھے کڑاہی اورتکّوں سےانصاف کر رہے تھے، جب کہ کچھ پر افراتفری سوار تھی۔ کچھ ٹوائلٹ کے باہر لائن میں کھڑے تھے۔ 

اُس لمحے پژمردگی میں لوگوں کو ہنستے، باتیں کرتا دیکھ کر اُسے حیرت ہوئی کہ آخر ایسی کیا بات ہے، جس پر خوش ہوا جا سکے۔ وہ ٹوائلٹ کے باہر قطار میں لگ گیا۔ اسے دُور بس اور ڈرائیور نظر آرہے تھے۔ بچے ٹائلز کے فرش پر بھاگ بھاگ کر پھسل رہے تھے، مائیں اُن کے پیچھے پیچھے دوڑ کرچکرا رہی تھیں۔ کچھ لڑکیاں ہوٹل کے سامنےلگے جھولوں پر پینگیں لینے لگیں، تو لڑکے گھر والوں سے دُور، کونے میں ہو کر سگریٹ کے کش لگا رہے تھے۔

آگے پیچھے چار پانچ بسوں کے مسافر ریسٹ ایریا میں اُتر گئے تھے، جبھی تو ایک دم اتنی بھیڑ ہو گئی تھی۔ ہوٹل کی پچھلی دیوار کے قریب پہلی بار ماں بننے والی ایک نوجوان دیہاتی لڑکی مجمعے سے دُور ہونے کی کوشش سے نااُمید ہونے کے بعد نوزائیدہ بچے کو چُپ کروانے میں ناکام ہورہی تھی، تو ساس کی ایما پر اُسے دودھ پلانے لگی۔ چادر سے لپٹی لڑکی کے چہرے پر خوشی کے ساتھ ساتھ ناتجربہ کاری کی گھبراہٹ نمایاں تھی۔ 

برابر میں بچّے کے شور سے پریشان اورحواس باختہ اس کا شوہر کھڑا پردے داری کی کوشش کررہا تھا۔ ساتھ ہی ساتھ اپنی دانست میں، اپنی ماں کی نظر بچاتے ہوئے بیوی کو کنکھیوں سے دیکھ رہا تھا۔ یہ نظریں اس کی بیوی میں نئی جوت جگانے کو کافی تھیں۔ لڑکی بچّے کی پیدائش پر سوا مہینہ میکے میں گزار کر واپس سسرال جارہی تھی۔ اتنے دِنوں کی دُوری کے بعد ملن اور بچّے کی خوشی نے دونوں کو نہال سا کیا ہواتھا۔ اِس منظر نے کچھ لمحوں کے لیے اُس کی بے زاری کم کردی۔

دل میں اُس جوڑے کے لیے محبت وشفقت سی امڈ آئی۔ مگر پھر اُسے سب چیزوں سے بے گانگی محسوس ہونے لگی۔ اچانک دل میں فرار کی خواہش نے جنم لیا۔ وہ اس صورتِ حال سے بھاگ جانا چاہتا تھا، مگر کہاں اور کیسے، اِس کا جواب اس کے پاس نہ تھا۔ قطار میں کھڑے کھڑے دل جو پہلے ہی بھاری ہو رہا تھا، ٹوائلٹ سے اٹھتی بدبو کے بھبکوں سے متلانے لگا۔ مگر اُس کی نگاہیں اپنے بس کے ساتھیوں پر مرکوز تھیں، جن میں سے چند تو بس کی طرف جاچُکے تھے، مگر کچھ ابھی بھی خرید و فروخت میں مشغول تھے۔ 

وہ کسی بات پر ہنس رہے تھے۔ اُسے شک ہوا، وہ اُسی کے متعلق بات کررہے ہیں۔ اس کی نگاہیں دُکان دار سے چار ہوئیں تواس کی مسکراہٹ سے اُسے گمان گزرا کہ وہ سب مل کراُس کا مذاق اُڑا رہے ہیں۔ اچانک ایک خیال اُس کے دماغ میں پختہ ہوا کہ اب یہ دُکان دار مدتوں ہر آنے جانے والے کو اُس کی بے وقوفی کے قصّے سُنا سُنا کر محظوظ کرے گا۔ اور تو اور، سامنے لگے املتاس کے درخت اپنی شاخیں ایک دوسرے کی گردنوں میں حمائل کیے اُسی کا تماشا دیکھتے محسوس ہوئے۔ کوئی غیر مرئی سی شئے جیسے اُس کا سینہ دبانے لگی۔ 

صبر آزما وقت کاٹ کر اُس کے اندر جانے کی باری آہی گئی۔ اُس کی شدید خواہش تھی کہ پیٹ صاف ہوجائے، مگر سُستی ماری آنتیں ہِل جُل کر ساتھ دینے پرآمادہ نہ تھیں کہ اُن کو پیٹ بھر کر کھانا کہاں نصیب ہوا تھا۔ کان اور دماغ باہر سے آنے والے بس کے ہارن پر لگے تھے۔ چارو ناچار وہ ناکام ہی باہر کی جانب دوڑا۔ سر چکرانے سے آنکھوں کے سامنے اندھیرا سا چھا رہا تھا۔ سردی میں بھی پسینے چھوٹ رہے تھے۔ لڑکھڑاتے ہوئے سمت کا تعیّن کرتے پوری جان لگا کر بس کی جانب دوڑا، جو اس کی نظروں کے سامنے ریسٹ ایریا سے باہر نکل رہی تھی۔ 

اسے بھاگتا دیکھ کر کچھ لوگوں نے ’’اوئے اوئے‘‘ کی آوازیں لگا کے ڈرائیور کو متوجّہ کرنے کی کوشش بھی کی مگر تب تک بس سیدھی لمبی سڑک پر ہولی تھی۔ گو کہ اُس کی رفتار اتنی تیز نہ تھی، مگر اس سن رسیدہ، مضمحل اورناتواں کا، سبک رفتاری سے اس کاتعاقب کرناناممکن سا تھا۔ 

یقیناً اندر موجود اس کی بیوی اور بیٹی کے شور شرابے نے ڈرائیور کو گاڑی روکنے پر مجبور کردیا ہوگا، جب ہی کچھ میٹر کے فاصلے سے کنڈکٹر بکتا جھکتا اُترا، لیکن اُس کی بے ترتیب سانس، دشواری سے دھڑکتے دل، پسینے میں شرابور جسم کو لڑکھڑاتا دیکھ کر اُسے خاموشی سے سہارا دیتے ہوئے بس میں چڑھانے کی کوشش کرنے لگا، مگر وہ اپنے ہاتھ پیر چھوڑ چُکا تھا، کنڈکٹر کے بازوؤں ہی میں جھول گیا۔ دو ایک اور مسافر’’ارے بزرگو، ارے بزرگو‘‘ کہتے نیچے کو لپکے، مگر اب اُسے صرف عیسٰی ابنِ مریم کی ضرورت تھی، جسے خدا پہلے ہی آسمان پر اُٹھا چُکا۔

اُن کا سامان گاڑی سےنکالنے اوراُسے چارپائی پر ڈال کر واپس ریسٹ ایریا کے قریب پہنچانے میں بس کو پندرہ منٹ مزید تاخیر ہوگئی۔ آگے کا سارا معاملہ ہمیشہ کی طرح اُس کی بیوی کو اکیلے سمیٹنا تھا۔

ناقابل اشاعت کلام اور ان کے تخلیق کار برائے صفحہ ’’ڈائجسٹ‘‘

٭ افتخارِ وطن (صبا احمد)٭ فتحِ سحر10مئی 2025ء(ظریفؔ احسن)٭نعتِ رسو ل مقبولﷺ(شگفتہ بانو، لالہ زار، واہ کینٹ)٭وقت تو کاٹ لیا(انتخاب:محمد صفدر خاں ساغرؔ، راہوالی، گوجرانوالہ)

ناقابلِ اشاعت نگار شات اور اُن کے تخلیق کار 

٭ خصوصی مکالمہ (جمیل ادیب، سید، کراچی) ٭ چُپ چاپ سا سائبان (شہلا خضر)٭ پینترا، تلافی، سراب، کہانی زندگی کی (فائزہ مشتاق)٭ ہم شکل (صبا احمد) ٭ خوشیوں کا آشیانہ (نصرت مبین) ٭ ٹرین کا ایک انوکھا نظارا،ادھورا تسلسل (زویا نعیم، حافظ آباد) ٭ نیک نیت، قصّہ قلم کار بننے کا (ذوالفقارحسین نقوی، نیو رضویہ سوسائٹی، کراچی) ٭ ساس کی زبانی (ڈاکٹر افشاں، گلشنِ اقبال، کراچی)۔٭ قاتل بیٹا (حرا خان) ٭ چمن کے پھولوں پر (عیشتہ الراضیہ شہزاد) ٭ گھر والا، مسترد (مبشرہ خالد، کراچی) ٭ آزادی (جویریہ شاہ رخ) ٭کاٹھ کباڑ (جاوید جواد حسین، گلزار ہجری، کراچی) ٭ یومِ دفاع (عائشہ بی، گلشنِ اقبال، کراچی) ٭ بے ایمانی، موت کا شکنجہ (ذوالفقار علی بخاری) ٭ آشیانۂ محسن، بیسٹ فرینڈ (شاہدہ ناصر، گلشنِ اقبال، کراچی) ٭ باغ بان (فوزیہ جمیل) ٭ مال (لطیف النساء، ناظم آباد، کراچی) ٭ خُوشبو (مریم شہزاد، کراچی) ٭ راستے کی دیوار (رافعہ بنتِ فاروق) ٭ یومِ دفاعِ پاکستان (فضاء الہٰی، کراچی) ٭ چُبھن (ثناء طارق کھوسہ، ڈی جی خان)۔

سنڈے میگزین سے مزید