• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

محمد سلیم راجا، لال کوٹھی، فیصل آباد

’’بھائی کا فون آیا ہے کہ امّی کی طبیعت خراب ہے۔‘‘ اہلیہ نے رات کا کھانا دیتے ہوئے بتایا۔ ’’کچھ دنوں کے لیےمجھے امّی کے پاس کراچی چلے جانا چاہیے۔‘‘ ’’ٹھیک ہے، آپ تیاری کریں، اُن کی بہتر نگہ داشت ہو جائے گی، اور بیٹی کو سامنے پا کر چچی جان آدھی تو ویسے ہی تن درست ہوجائیں گی۔‘‘ مَیں نے خوش دلی سے کہا۔

اگلے دن ناشتے پر ہم دونوں کے ساتھ دونوں بیٹیاں بھی موجود تھیں۔ بیٹیوں کو والدہ کے کراچی جانے کے فیصلے کا علم ہو چُکا تھا۔ ’’آپ نے تو بلا تردّد مجھے امّی کے پاس جانے کی اجازت دے دی۔ اپنے بچّوں سے بھی کوئی مشورہ نہیں کیا؟‘‘ ناشتا رکھتے ہوئے اہلیہ نے مُسکراتے ہوئے بیٹیوں کی طرف دیکھا، جو ماں کی چند دنوں کی جدائی کے خیال سے اداس دکھائی دے رہی تھیں۔ بہت دیر خاموشی چھائی رہی، یہ اداس سا سکوت بیٹیوں کے مُوڈ کی چغلی کھا رہا تھا۔ 

چائے کا آخری سِپ لیتے ہوئے، بالآخر مَیں نے خاموشی توڑی۔ ’’چچی جان ہزار کلومیٹر سفر کر کے، مِلنے کے لیے بچّوں کی اجازت سے آتی ہیں؟‘‘ ’’بابا! آپ ہر بات کو منطق کی رُو سے ہی کیوں دیکھتے ہیں؟‘‘ بڑی بیٹی نے تڑخ کر کہا۔ حوصلہ پا کر چھوٹی بیٹی نے بھی نکتۂ اعتراض اُٹھایا۔ ’’اب مما اتنی دُور فیصل آباد سے کراچی جائیں گی، نانی امّی کی تیمار داری کے لیے، وہاں ماموں اور ممانی ہیں تو سہی۔‘‘ 

دونوں ووٹ مخالفت میں آنے کے بعد مَیں نے اُنہیں سمجھایا۔ ’’بیٹا! خون کے رشتوں میں مسافتیں حائل نہیں ہوتیں۔‘‘ ہمارے بچّوں کو اپنی نانی سے بھی بے پناہ محبّت ہے، مگر ماں سے چند دنوں کی جدائی کی قیمت پر وہ، یہ بات گوارانہیں کررہے تھے۔ ’’دس پندرہ دن چٹکی بجاتے گزر جاتے ہیں، آپ کو بھی اِک موقع مل جائے گا، کچن میں پسندیدہ ڈشز ٹرائی کرنے کا۔‘‘ مَیں نے مضطرب بیٹیوں کی توجّہ بٹانے کی کوشش کی۔

’’ہیلو! یہ سب کے منہ پہ بارہ کیوں بج رہے ہیں؟‘‘ اکلوتا بیٹا بھی وارد ہو گیا۔ ’’جب پتا چلے گا، تو آپ کے تیرہ بج جائیں گے‘‘۔ چھوٹی پٹاخہ بیٹی نے قدرے خفگی سے کہا۔ سلسلۂ بحث طول پکڑتا دکھائی دے رہا تھا۔ اتنے میں بھابھی (بچّوں کی تائی اور خالہ بھی) اپنی بڑی بیٹی کے ساتھ کمرے میں داخل ہوئیں۔ ’’ہیں! یہ بچّے کیوں منہ بسورے ہوئے ہیں؟‘‘ ’’خالہ! آپ بڑی بیٹی ہیں، تو کراچی آپ جائیں ناں۔‘‘ خالہ کو دیکھ کے توپوں کا رُخ اُن کی طرف ہو گیا۔ ’’ہماری مما کیوں جائیں؟ 

یاد کریں، گرمیوں کی چُھٹیوں کے وہ دن، جب آپ لوگ بھاگ بھاگ کر نانی امّی کے پاس جایا کرتے تھے کہ ہماری مما چھوٹی بیٹی ہیں، اِس لیے پہلے ہم جائیں گے، تو اب بھی آپ لوگ پہلے جائیں۔‘‘ بڑی بھتیجی نے اپنے تئیں کزن کو آئینہ دکھایا۔ لیکن ہمارے بچّے ہار نہ مانے۔ ’’خالہ بڑی ہیں، زیادہ سمجھ دار ہیں، نانی امّی کی بہتر طور پر نگہ داشت کرسکتی ہیں۔‘‘ اُدھر سے دلیل پیش کی گئی۔ بحث غالباً کلائمیکس پر پہنچ چُکی تھی۔

’’ اوہو! تم لوگوں نے تو ناشتے کی میز کو ’’مچھلی بازار‘‘ بنا دیا، چلو اُٹھو، اپنے اپنے کام کاج شروع کرو۔‘‘ بالآخر بھابھی نے اظہارِ ناپسندیدگی کیا۔ مگر چھوٹی بھتیجی بھی آکر شاملِ گفت گو ہو گئی۔ ’’پچھلے سال ہماری مما کے جانے سے خالہ کام کے بوجھ سے بیڈ پہ پڑگئی تھیں، یہ بھی ذہن میں رکھیں۔ اور پھر سارا کام کاج آپ لوگوں کو سنبھالنا پڑا تھا، اِس لیے بہتر یہی ہے کہ خالہ ہی کو چند دن کے لیے جانے دیں۔‘‘ 

اچانک چھوٹا بھتیجا بھی بحث میں کود پڑا۔ پندرہ بیس سال کی عُمر میں بچّے میچور ہو جاتے ہیں، اپنے آپ کو سنبھال لیتے ہیں اور گھر کے کام کاج کرنے کے قابل ہو جاتے ہیں۔ اِس کے باوجود ماں کا ساتھ اُن کے لیےناگریز ہے، اس پر وہ کمپرومائز نہیں کرتے۔ مَیں اس ساری بحث میں بس یہی سوچ رہا تھا۔

ناشتا ختم کرکے سب اُٹھنا ہی چاہ رہے تھے کہ بڑا بھتیجا بھی آگیا۔ ’’خالہ! آپ نانی امّی کے پاس جانے کی تیاری شروع کریں، مَیں آج ہی کراچی کے لیے آپ کی ٹکٹ ریزرو کروا دیتا ہوں۔‘‘ اتنے میں میرا بھائی ہاتھ میں موبائل تھامے پاس چلا آیا۔ ’’کراچی سے چچی جان بات کرنا چاہتی ہیں۔‘‘ 

اہلیہ نے جھٹ موبائل تھاما۔ ’’جی وعلیکم اسلام…!!! ماشاءاللہ… ماشاءاللہ، اللہ کا شُکر ہے… امی جیسے آپ کہیں… ٹھیک ہے، دوا باقاعدگی سے لیتی رہیے گا… اچھا اللہ حافظ۔‘‘ فون سُننے کے بعد اہلیہ نے بتایا کہ ’’امّی نے کہا ہے کہ اُن کی طبیعت سنبھل گئی ہے، اب ہاسپٹل میں ایڈمٹ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘

سب کی نظریں یک دَم آپ ہی آپ جُھک گئیں۔ سارے بچّے ایک دوسرے سے نظریں چُرا رہے تھے۔ ’’امّی نے زندگی بھر دوسروں کی خدمت کی ہے، کبھی کسی سے خدمت لی نہیں۔ انھیں کسی کو تکلیف دینا گوارا ہی نہیں۔ بس، اتنی سی بات تھی، اور اِس قدر واویلا…‘‘ اہلیہ نے نم ناک آواز میں آہستگی سے کہا اور کچن کی طرف چلی گئیں۔

ناقابل اشاعت نگارشات اور ان کے تخلیق کار برائے صفحہ ’’ڈائجسٹ‘‘

٭ خصوصی مکالمہ (جمیل ادیب، سید، کراچی) ٭ چُپ چاپ سا سائبان (شہلا خضر) ٭ پینترا، تلافی (فائزہ مشتاق)٭ ہم شکل (صبا احمد) ٭ خوشیوں کا آشیانہ (نصرت مبین) ٭ ٹرین کا ایک انوکھا نظارا، ادھورا تسلسل (زویا نعیم، حافظ آباد) ٭ نیک نیت، قصّہ قلم کار بننے کا (ذوالفقارحسین نقوی، نیو رضویہ سوسائٹی، کراچی) ٭ ساس کی زبانی (ڈاکٹر افشاں، گلشنِ اقبال، کراچی)۔

سنڈے میگزین سے مزید