آسیہ پری وش، حیدرآباد
بوڑھی مچھیرن بیوی نے بوڑھے مچھیرے شوہر اور خالی پڑے پاٹ کو مایوسی سے دیکھا۔ حسبِ معمول آج بھی اُس کے جال میں ایک ہی مچھلی پھڑپھڑا رہی تھی۔ ’’آج بھی صرف ایک مچھلی…‘‘ ’’نیک بخت! شُکر کیا کر۔ اللہ ہم دونوں کو بُھوکا نہیں سُلا رہا۔ گزر بسر جتنا نواز رہا ہے۔ ورنہ مجھ بوڑھے کم زور میں اب اتنا دَم نہیں کہ کچھ اور کرسکوں۔ ہمارا مالک یہاں بیٹھے بیٹھے روز ایک بڑی مچھلی جال میں پھنسوا دیتا ہے۔
دوسری کے لیے جتنی بھی کوشش کرتا ہوں، تھکن کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔‘‘ دلاسا ملنے پہ بھی سارہ کی مایوسی کم نہیں ہوئی تھی۔ ’’اللہ کی طرف سے یہ ایک مچھلی ہمارا رزق ہے، جسے بیچ کے ہم پورے دن کا سودا سلف لے لیتے ہیں۔ میرے مالک کا شُکر ہے۔‘‘ بوڑھا مچھیرا ابراہیم سمجھائے جا رہا تھا۔ ’’اگر کبھی مچھلی کھانے کو دل کرے تو باقی کا پورا دن اُس ایک مچھلی کے کانٹوں سے پیٹ بھرا جائے۔‘‘ سارہ بولی۔
اری نیک بخت! تُو فرمائش تو کر۔ تیرے لیے چھوٹی مچھلی لا دوں گا۔‘‘ ابراہیم پوپلے منہ سے ہنس پڑا۔ ’’اگر یہی بڑی مچھلی کھانے کو من کرے؟‘‘ سارہ نے اس کی طرف دیکھا۔ ’’اب اتنی بڑی فرمائش بھی نہ کر کہ مجھ بوڑھے کا نکلتا دَم، وقت سے پہلے ہی نکل جائے۔‘‘ ابراہیم زور سے ہنسا، تو دونوں کی بوڑھی ہنسی سے ماحول ہلکا پھلکا ہو گیا۔’’زندہ رہنے کے لیے صرف کھانا پینا ہی تو ضروری نہیں اور بھی بہت کچھ چاہیے ہوتا ہے۔‘‘
سارہ نے اپنے جگہ جگہ سے پیوند لگے کپڑوں پر نظر ڈالی۔ ’’او نمانی عورت! اللہ نے جس چیز کا جو وقت مقرر کیا ہوتا ہے۔ اُس ویلے اس کے اسباب بھی پیدا کر دیتا ہے۔ روز کے سودا سلف سے بچتے پیسے ایک دو روز میں اتنے جمع ہو جائیں گے کہ تُو ایک اچھا جوڑا لے سکے۔ تو پھر تُو وہ پہن کر اِٹھلاتی پھرنا۔‘‘ ابراہیم کے چہرے پہ بڑی پیاری مسکراہٹ تھی۔ ’’تیرے کپڑے بھی تو پھٹے پرانے ہیں۔‘‘ سارہ نے اس کے جگہ جگہ سے پھٹے اور پیوند لگے کپڑوں کی طرف اشارہ کیا۔ ’’میرے تن پہ یہی سجتے ہیں۔‘‘ ابراہیم کے چہرے پہ سادہ سی مسکراہٹ آگئی۔
روزانہ کی طرح ایک بڑی مچھلی پکڑنے کے بعد اپنی دم گزار بیوی کے ساتھ محض وقت گزاری کی خاطر اُس نے اِس یقین کے ساتھ دوبارہ جال پھینکا کہ دوسری مچھلی تو ہاتھ آنی نہیں، بس نمانی کا دل بہلا رہے گا۔ ’’ہمارے بچّے کیا کررہے ہوں گے؟ وہ ہمیں یاد کرتے ہوں گے؟‘‘
سارہ نے سمندر میں موج مستیاں کرتے بچّوں کو دیکھتے آہ بھری۔ ’’وہ ہماری طرح ویلے نہیں کہ ہمیں یاد کرتے ہوں۔‘‘ ابراہیم نے جال پہ نظریں جما دیں۔ ’’ماں باپ اور اولاد کا رشتہ وقت کا قیدی نہیں ہوتا۔‘‘ سارہ بولی۔ ’’اب ہوگیا ہے۔‘‘ ابراہیم نے دھیرے سے کہا۔ ’’یاد ہے، جب بچے چھوٹے تھے، تو ان کے لیے ہم کتنی محنت کیا کرتے تھے۔ اُن کے مستقبل کے لیے ہم نے مل کر کتنے خواب دیکھے تھے۔‘‘
سارہ کی آنکھیں آنسوؤں کی نمی سے جھلملانے لگیں۔ ’’اب ہمارے بچّے اپنے بچّوں کے مستقبل کے لیے خواب دیکھتے ہوں گے اور محنت بھی کرتے ہوں گے، تو اتنی اَن تھک محنت میں اُنہیں ہم کیسے یاد آتے ہوں گے۔‘‘ ابراہیم نے اُن آنکھوں کی جھلملاہٹ سے نظریں پھیریں۔ ’’وہ ہمارے بڑھاپے کا سہارا تھے۔‘‘ ’’سچ ہے، جو اصل سہارے کو چھوڑ کر دنیاوی سہارے ڈھونڈتا ہے، اُس سے وہ سہارے ایسے چھن جاتے ہیں، جیسے ایک فصل کی دن رات آب یاری کی جائے، مگر جب بہار آنے لگے، تو ٹڈی دَل کا حملہ ہو جائے۔‘‘ ابراہیم بولا۔ ’’اللہ نہ کرے، جو میرے بچّوں پہ کسی بُری نظر کا سایہ بھی پڑے۔‘‘ ابراہیم کی بات کا اصل مقصد سمجھے بغیر سارہ بچّوں کے لیے ایسی مثال ہی پہ دہل کے رہ گئی۔ یوں بھی اُس کے پاس شوہر کی انِ درویشانہ باتوں کا کوئی جواب نہ ہوتا تھا۔
’’یہ بھی سچ ہے، ماں جیسا کوئی نہیں ہوتا۔ اولاد سے دُکھ پا کر بھی وہ اُسے دعائیں ہی دیتی ہے۔‘‘ ابراہیم ہنس دیا۔ ’’دوسروں کے جال میں اتنی مچھلیاں پھنس جاتی ہیں۔ تمہارے میں روز صرف ایک مچھلی ہی کیوں آتی ہے؟‘‘ سارہ نے سمندر میں بکھرے دوسرے مچھیروں کی طرف بات موڑ کر چُپکے سے آنسو پونچھتے ہوئے اولاد کی خود غرضی والی بات ہی بدل ڈالی۔ ’’اللہ سب کو اُن کے حصّے کا رزق بانٹتا ہے۔ دوسرے مچھیرے توانا جسم اور گھر بھاتی والے ہیں۔
اُن کے لیے اُن کے جتنا رزق اور ہم دو کم زور جسم والوں کے لیے ہمارے جتنا رزق۔‘‘ ابراہیم ہمیشہ کی طرح بہت شانت تھا۔ ’’یہ کیا… آج جال میں دوسری مچھلی بھی پھڑپھڑانے لگی ہے۔ اللہ کس چیز کا سبب پیدا کر رہا ہے؟‘‘ ابراہیم نے اپنی سوچ پہ الجھ کر خوشی سے دمکتے چہرے والی بیوی کو دیکھا۔ ’’اِس کے پیسوں سے تم اپنے لیے ایک جوڑا لے لینا۔‘‘
دُکھ سُکھ کی ساتھی کو بڑی مچھلی کھانے کی فرمائش بھول گئی۔ ’’نہیں، نیک بخت! یہ کسی اور چیز کا وسیلہ بن رہا ہے۔‘‘ ’’کس چیز کا؟‘‘سارہ حیرانی سے اسے دیکھے جا رہی تھی۔ ’’میرا سوہنا مالک اپنے کاموں سے خُود ہی واقف ہے۔ وہ وقت پہ آپوں آپ کھول دے گا۔‘‘ ابراہیم مطمئن تھا۔ ’’ابھی جال نہ سمیٹو۔ کیا پتا اور مچھلیاں بھی پھنس جائیں۔‘‘ سارہ نے اُسے جال سمیٹتے دیکھ کر ٹوکا۔ ’’نہیں۔ مَیں تھک گیا ہوں۔ ابھی ان مچھلیوں کو بازار جا کے بیچنا بھی ہے۔‘‘ ابراہیم نے جال سمیٹ کر ایک طرف رکھ دیا۔ اُسے جسمانی تھکن کےساتھ ساتھ ذہنی تھکن بھی محسوس ہورہی تھی۔
ابراہیم نے دونوں مچھلیاں بیچ کر ایک سے سودا سلف لیا اور دوسری کے پیسے الگ سے جمع کرنے کو بیوی کے حوالے کردیے۔ دوسرے دن اُس نے جان بوجھ کر ایک مچھلی کے بعد دوبارہ جال پھینکا۔ اُس کی توقع کے مطابق اُس دن بھی دوسری مچھلی پھنسی۔ اُس کی دُور اندیشی اُسے الجھا رہی تھی۔ تیسرے، چوتھے دن بھی یہی معمول رہا۔
وہ ذہن میں کوندتے خیالات کو وقت کے دھارے پہ چھوڑ کر مطمئن ہو گیا۔ اُس دن وہ مچھلیاں بیچ کر اور سودا سلف لے کر گھر آیا، تو سارہ کو نیا جوڑا زیبِ تن کیے دیکھ کرمسکرایا۔ ’’لش ہے بھئی۔ آج تو تُو خوب دمک رہی ہے۔‘‘ ابراہیم کی سادہ سی تعریف پہ بوڑھی سارہ شرما سی گئی۔ ’’یہ لے آج کا سودا اور دوسری مچھلی کے پیسے۔‘‘ ’’میری ایک بات مانےگا؟‘‘
سارہ نے ابراہیم کو محبّت سے دیکھا۔ ’’ہاں بول۔‘‘ ’’اس مچھلی کے پیسوں سے تُو بھی کپڑے لے لے۔‘‘ ’’چل ٹھیک ہے۔ یہ پیسے میرے کپڑوں اور اپنے کچھ خرچ کے لیے سنبھال کے رکھ۔ اللہ آگے بھی اسباب پیدا کر دے گا۔‘‘ اس کے من میں جانے کیا سمائی کہ اُن پیسوں کا تصرف زبان پہ آگیا۔ سارہ خوش ہوگئی، مگر… وہ خوشی صرف اُسی دن کی ثابت ہوئی۔
صبح سویرےابراہیم کو ایک بےجان جسم کی صُورت دیکھ کر سارہ زمین پہ بیٹھتی چلی گئی۔ اس کے اردگرد کئی سوال چکرانے لگے۔ ’’اپنا واحد سہاراچھن جانے کے بعد، اب وہ کیا کرے گی، کہاں جائے گی؟ خالی جیب کفن دفن کا بندوبست کیسے کرے گی؟ اس غریب بستی میں کون اُسے قرض دے گا۔ اور وہ قرض وہ کیسے اتارے گی؟‘‘ ’’او نمانی! فکر کیوں کرتی ہے۔ اللہ ہر چیز کا وسیلہ بنا دیتا ہے۔
ہم بندے نہیں جانتے مگر وہ اپنے کاموں سے بخوبی واقف ہے۔ بس اس پہ توکل کر اور اس کے مقرر وقت کا انتظار کر۔‘‘ اس کے کانوں میں ابراہیم کی آواز گونج رہی تھی۔ اپنی اندھیر ہوتی دنیا میں شمعِ توکل کی مانند روشنی بکھیرتے ابراہیم کے خیال کے ساتھ اُس کی نظریں بے اختیار کونے میں پڑے برتن کی طرف اُٹھیں، جس میں جمع ہوتے پیسے اپنے مالک کی آخری وصیت کے منتظر تھے۔ ’’یہ پیسے میرے کپڑوں اور اپنے کچھ خرچ کے لیے سنبھال کے رکھ۔ اللہ آگے بھی اسباب پیدا کردے گا۔‘‘
ناقابل اشاعت نگارشات اور ان کے تخلیق کار برائے صفحہ ’’ڈائجسٹ‘‘
٭ خصوصی مکالمہ (جمیل ادیب، سید، کراچی) ٭ چُپ چاپ سا سائبان (شہلا خضر) ٭ پینترا، تلافی (فائزہ مشتاق)٭ ہم شکل (صبا احمد) ٭ خوشیوں کا آشیانہ (نصرت مبین) ٭ ٹرین کا ایک انوکھا نظارا، ادھورا تسلسل (زویا نعیم، حافظ آباد) ٭ نیک نیت، قصّہ قلم کار بننے کا (ذوالفقارحسین نقوی، نیو رضویہ سوسائٹی، کراچی) ٭ ساس کی زبانی (ڈاکٹر افشاں، گلشنِ اقبال، کراچی)۔