• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گزشتہ دنوں الحمرا لاہور میں بیتے دنوں کی یادوں کے سیمینار کے احوال نے میری یادوں کو بھی جگایا۔ مجھے اپنے بچپن کے شہر بھوپال کا رمضان المبارک یاد آیا۔ جس اہتمام اور تکریم سے یہ مہینہ وہاں منایا جاتا تھا دوسری جگہ اس کی نظیر نہیں ملتی۔ بیسویں صدی کے آوائل میں شہر بھوپال کی آبادی ایک لاکھ سے کم تھی وہ امن کی آشا جس کو آج روزنامہ جنگ اور ٹائمز آف انڈیا تشکیل دینے کے لئے کوشاں ہیں بھوپال میں موجود تھی یہاں ہندو مسلمان دونوں امن و آشتی سے رہتے تھے، ماسٹر مجید ماسٹر گیاپرشد کو بھائی جان اور وہ ان کو مجید کہتے تھے۔ مولانا مودودی کی بڑی بھاوج بیوہ ہونے کے بعد کچھ عرصہ راجہ اودھہ نرائن لبریا وزیراعظم ریاست بھوپال کے یہاں مقیم رہیں۔ راجہ صاحب اور رانی صاحبہ ان کو بھابھی اور سارے بچے ان کو چچی کہتے تھے۔ شہر میں ڈھائی سو کے قریب مساجد تھیں سب سے بڑی مسجد تاج المساجد تھی جس میں بیک وقت پانچ ہزار سے زائد نمازی نماز ادا کرسکتے تھے، شہر کی جامع مسجد ایک ٹیلے پر واقع تھی اور ریل سے 12,10 میل کے فاصلے سے اس کے بلند مینار نظر آنے لگتے تھے۔ سب سے چھوٹی مسجد ’’درمیانی سیڑھی کی مسجد تھی جو قلعہ فتح گڑھ کی فصیل کے ایک مورچے میں تھی اب یہ فصیل توڑ دی گئی۔ حفاظ کی بھی کثرت تھی کیونکہ یہاں کا مدرسہ عبیدیہ ہر سال کافی حفاظ تیار کرتا رہا جو رمضان میں تراویح کے لئے اندرور، سورت، پونا اور بمبئی جایا کرتے تھے۔
کثرت کی وجہ سے مسجدوں کے نام بھی تعمیر کرنے والوں یا محلوں یا ان درختوں سے منسوب ہیں جو ان مسجدوں میں لگے ہوئے ہیں، جیسے کلثوم بیساکی مسجد، مسجد نسترن یوں لال املی والی مسجد، کیلے والی، جامن والی، کبیسٹ والی وغیرہ۔ زیادہ تر مساجد سرکاری محکمہ مساجد کے تحت تھیں، رمضان سے پہلے محکمہ ان میں سفیدی کراتا تھا۔ کمہار چھوٹی ٹھلیاں، صراحیاں اور چھوٹے بڑے کاغذی آبخورے مع ڈھکنوں کے بناتے تھے اور ان پر سفیدی پھیر دیتے تھے، دیکھنے میں یہ نازک اور خوب صورت لگتے تھے، روزہ دار اوپر سے ان میں پانی بھر کر رکھ دیتے ، افطار تک پانی ٹھنڈا بھی ہوجاتا اور اس میں مٹی کی سوندھ بھی آجاتی تھی، اس زمانے میں کمپنیوں کے شربت بہت کم تھے۔ مقامی عطار گرمیوں میں گڑہل اور فالسے کا شربت بناتے تھے۔ گندھی (عطر فروش) تنوج وغیرہ سے عطر اور خوشبو دار تیل منگاتے تھے، پان فروش لکھنو کے قوام، خوشبو دار زردہ منگاتے تھے، حقے کے شوقینوں کے لئے نئے حقے تیار کئے جاتے۔ میرٹھ سے روغنی چلمیں اور لکھنو وغیرہ سے خوشبو دار خمیرہ منگوائے جاتے تھے۔
29 شعبان کو چاند دیکھنے کا خاص اہتمام کیا جاتا تھا، مجلس العلماء کے اراکین قلعہ فتح گڑھ کے سب سے اونچے دمدمے پر جاکر چاند دیکھتے تھے، اگر چاند ہوجاتا تو وہیں سے سات توپیں سر کی جاتی تھیں اور شہر میں مبارک سلامت کا شور مچ جاتا تھا اور سحری کی تیاری ہونے لگتی تھی، اس میں حسب حیثیت لوگ پراٹھے، قورمہ، سالن وغیرہ کے ساتھ دودھ کی ایک آدھ چیز ضرور ہوتی تھی۔ جلیبیاں، پھینیاں یا کھجلے شام ہی سے دودھ میں بھگو دیئے جاتے تھے (بعض گھروں میں چائے بھی پی جاتی تھی) یہ اشیاء رات بھر میں پھول کر نرم ہوجاتی تھیں۔ رات کو تین بجے ہر محلے میں ایک یا دو فقیر آتے آواز لگاتے ’’اللہ کے پیارو، سرگئیں کرلو‘‘ سحری کا وقت ختم ہونے پر توپ چلتی تھی۔ سحری کے بعد لوگ فجر کی نماز پڑھ کر سوجاتے تھے، اسکول اور دفتر جانے والے بچے اپنے اسکولوں اور ملازمین دفتروں کی تیاری کرتے تھے۔ یہاں اسکول و دفتر کے اوقات 8سے ایک تک ہوا کرتے تھے۔
سہ پہر سے گھروں میں افطاری کے اہتمام ہونے لگتے تھے، افطاری میں بھجئے (بیسن کی پھلیاں خاصی اہمیت رکھتی تھیں) اس کے علاوہ چنے کی دھلی ہوئی یا بھیگی ہوئی کچی دال، دہی بڑے یا دہی پھلکیاں، پاپڑ، نکتیاں موسمی پھلوں کی چاٹ، تخم مالنگا یا تخم ریحاں کا شربت، ابلے ہوئے یا تلے ہوئے کالے یا سفید چنے (جنہیں کابلی چنے بھی کہا جاتا ہے) اور روزہ کھجور سے کھولا جاتا تھا۔ افطار کے لئے توپ چلتی تھی۔ گورنمنٹ پریس سنہری، روپہلی اور سادہ رمضان کی جنتریاں چھاپتا تھا، بعض گھرانوں میں مغرب کی نماز کے بعد بعض میں تراویح کے بعد کھانا ہوتا تھا۔
ہر مسجد میں تراویح کا انتظام ہوتا تھا، جن مسجدوں میں جلدی ختم ہوجاتا تھا وہاں سہ روزہ شبینے ہوتے تھے، 14رمضان کے روزے کو ’’منجھلا روزہ‘‘ کہا جاتا تھا خصوصاً خواتین میں اس کا بڑا چرچا ہوتا تھا، روزہ نہ رکھنے والی خواتین بھی اس دن روزہ رکھتیں اور محلے اور عزیزوں میں افطاری تقسیم کرتی تھیں۔ افطاری پانچ یا سات تام چینی کی پلیٹوں میں رکھ کر دن کو ایک خوان میں خوان پوش سے ڈھک کر تقسیم کی جاتی تھی، ان میں وہی افطاری ہوتی تھی جس کا اوپر ذکر کیا گیا۔ مسجدوں میں ختم قرآن کی شب شیرینی تقسیم ہوتی تھی جو عموماً نکتیوں پر مشتمل ہوتی تھی، محلے کے لڑکے مٹھائی کے حصول میں مسجدوں میں پہنچ جاتے تھے ان کو ختم پھٹکار کہا جاتا تھا، محل پر اور ریاست کی صدر منزل پر تراویح ہوتی تھی یہاں ختم کے دن مٹھائی تقسیم نہیں ہوتی بلکہ افسران ریاست اور معززین شہر کو بعد میں حصہ گھر پہنچایا جاتا تھا، شیشے کی ایک بڑی پلیٹ میں نکتی کے چار بڑے لڈو ایک چھوٹی طشتری میں بادام کا رنگین گٹکا، ایک لٹکن میں عرق کیوڑہ گلاب اوربید مشک ایک رومال میں بندھے ہوئے تھے، یہ حصے غیر مسلموں کو بھی بھیجے جاتے تھے۔
21 رمضان سے 3 شوال تک ریاست بھر تعطیلات ہوتی تھیں تاکہ سرکاری ملازمین اعتکاف میں بیٹھ سکیں۔ 29رمضان کو پھر مجلس العلماء کا وفد اس دمدمے میں جاتا تھا اور چاند ہونے پر سات ضرب توپ کی سلامی دی جاتی تھی دوسرے دن عید کی نماز چیدہ چیدہ مسجدوں میں ہوتی تھی، عیدگاہ، تاج المساجد، موتی مسجد میں خواتین کی نماز کے لئے علیحدہ حصہ تھا، شہر کی دو ایک اور مسجدوں میں بھی خواتین کی نماز کا اہتمام تھا۔ معزز خواتین عیدگاہ کے علاوہ اور کہیں نہیں جاتی تھیں یہاں پردے کا معقول انتظام ہوتا تھا۔ بیگمات بھوپال اور نواب حمید اللہ خان عید کی نماز عیدگاہ میں پڑھتے تھے یہاں قاضی ریاست امامت کے فرائض انجام دیتے تھے، ان کے عید گاہ پہنچنے پر ایک توپ سر ہوتی تھی، دوسری توپ رئیس کی آمد پر چلتی تھی نماز کے بعد خطبہ اور دعا اور پھر سات توپوں کی سلامی۔ بیگماتی دور میں افسران اور اخونان محل پر جاکر رئیسہ کو عید کی مبارک باد دیتے تھے۔ نواب حمید اللہ خان نے شہر کے وسط میں صدر تترل پر آکر عید کی مبارک باد قبول کرنے کا طریقہ اختیار کیا۔ یہاں آنے والوں کو کارڈ بھیجا جاتا تھا اور ان کو درباری لباس میں یہاں آنا پڑتا تھا درباری لباس، سیاہ شیروانی، نیلا صافہ، علی کٹ کا پاجامہ، سیاہ پمپ اور سیاہ موزے) نواب صاحب پچھلے دروازے سہ نشین آکر کھڑے ہوجاتے تھے۔ ان کی پشت پر مکمل یونی فارم میں روالے ڈی سی ہوتے تھے سب سے پہلے قاضی ریاست پھر مفتی ریاست اوپر جاکر مصافحہ کرتے تھے اس کے بعد وزیراعظم اور وزراء اور پھر افسران اور معززین شہر سب سے مل کر نواب صاحب پچھلے دروازے سے واپس چلے جاتے تھے۔ درباریوں کی تواضع شیر خرما، مٹھائی وغیرہ سے کی جاتی تھی۔
اب نہ ریاست باقی ہے نہ شاہی خاندان اور نہ وہ ماحول، رہے نام اللہ کا۔
تازہ ترین