• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گلوبل ٹیررازم انڈیکس کی جاری کردہ 2025کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دہشت گردی سے دنیا بھر کے متاثرہ ممالک میں پاکستان ددسرے نمبر پر ہے۔ اسی وجہ سے ہمارے حکمران ایک طرف ایک مذہبی جماعت پر پابندیاں لگانے میں مصروف ہیں تو دوسری طرف ٹی ٹی پی سے امن معاہدے کے خواہاں ہیں،اس کے ساتھ آج ہمارے حکمرانوں کو اپنی 78سالہ پالیسیوں پر نظر ثانی کرنا ہو گی اور ان وجوہات پر غور کرنا ہو گا کہ مذہبی جنونیت اور دہشت گردی کے خلاف ایک طویل مدتی اور مضبوط پالیسی کیوں نہ اپنائی جا سکی۔ آج ہمیں اپنی خارجہ پالیسیوں، افغانستان کے بارے میں حکمت عملی اور خود اپنے سماج کے اندر بڑھتی ہوئی شدت پسندی کو روکنے میں ناکامیوں اور تاریخی کوتاہیوں پر نظر ثانی کرنا ہوگی۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا انتہا پسندی ہمارے سماج میں اچانک وجود میں آئی یا ہماری پالیسیوں کی وجہ سے اس میں مرحلہ وار اضافہ ہوتا چلا گیا۔ یاد رہے کہ 1949ء کی قرار داد مقاصد کے منظور ہوتے ہی حکمرانوں نے مذہب کو ڈھال کی صورت میں استعمال کرنا شروع کر دیا تھاجس سے قائداعظم کے مقرر کردہ وزیر قانون جوگندر ناتھ منڈل ملک چھوڑنے پرمجبور ہوئے۔ اسی تسلسل میں 1953ء میں پنجاب میں مذہبی تشدد کے واقعات کے بعد مارشل لالگانا پڑا۔فسادات کے بعد جسٹس منیر کی سربراہی میں ایک کمیشن بنایا گیا جس کی رپورٹ پڑھ کر بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے ملک میںمسلمانوں کی تعریف اور مختلف اقلیتوں کے حقوق کے بارے میں کتنے متضاد خیالات تھے۔ اس دوران ریاست نے ہر قسم کے متبادل بیانیے کو اور خاص طور پر بائیں بازو کے بیانیے کو عوام تک پہنچنے سے روکا ۔ روس کے خلاف جنگ کا فیصلہ تو امریکا نے کیا لیکن ہم نے دنیا بھر سے مجاہدین بغیر کسی پاسپورٹ اور کاغذات کے افغانستان میں دھکیل دیئے جسکا خمیازہ صرف پاکستانی سماج ہی نہیں بلکہ پورا خطہ آج بھی بھگت رہا ہے۔ اس جنگ کے بعد ان شدت پسندوں کو اپنے قومی اثاثے کے طور پر استعمال کرنا شروع کر دیا گیااور یہ عناصر ہمارا اثاثہ بننے کے ساتھ ساتھ ہماری ریزو فورس بھی بن گئے جسے بعد میں مختلف مواقع پر مخصوص مقاصد کیلئے استعمال کیاگیا۔ 2016ء میں ایک فوجی آپریشن کے ذریعے پاکستانی علاقوں میں دہشت گردی کا صفایا کیا گیا لیکن پھر عمران خان کے حمایت یافتہ ایک عہدیدار نے ٹی ٹی پی اور افغانستان میں طالبان سے مذاکرات کیے اور یوں 2000کے لگ بھگ جنگجوؤں کو دوبارہ قبائلی علاقوں میں آباد کیا گیا۔ ان کے پاس امریکی فوج کا چھوڑا ہوا اسلحہ بھی آ گیا اور یوں وہ دوبارہ منظم ہونا شروع ہو گئے اور اس تنظیم نے اپنی خودساختہ شریعت کے نفاذ کا اعلان بھی کر دیا۔

آج ہمیں اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہو گا کہ جتنا نقصان ہمیں افغان دوستی سے ہوا شاید اتنا ہندوستان کی دشمنی سے نہیں پہنچا۔ افغان دوستی کی وجہ سے انتہا پسندی اور مذہبی جنونیت نے پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے جسکی بھاری قیمت پاکستان ادا کر رہا ہے۔پچھلے کچھ ہی عرصے میں پاکستانی سیکورٹی فورسز کے درجنوں اہلکاربشمول فوجی افسران ٹی ٹی پی کےمختلف گروپوں کے حملوں میں شہید ہوئے ہیں۔ پاکستان نے دعویٰ کیا ہے کہ اس کے پاس ایسے شواہد موجود ہیں جنکے مطابق بعض دہشت گرد حملوں میں افغان طالبان بھی ملوث ہیں۔یاد رہے کہ موجودہ جھڑپیں اس وقت شروع ہوئیں جب پاکستان نے افغانستان سے سفارتی تعلقات کو بہتر سطح پر لانے کا فیصلہ کیا اور اس کے ساتھ ساتھ چین اور روس بھی اس کشیدگی کو کم کرانے میں اپنا کردار ادا کررہے تھے۔ تجارتی راستے جو کافی مہینوں سے بند تھے انہیں بھی کھولنے کا فیصلہ کر لیا گیا تھا۔

آج اس امر پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ مجددی،ربانی،حامد کرزئی، ڈاکٹر اشرف غنی، ملاعمر اور اب ہیبت اخوندزادہ کی حکومتوں کو افغانستان پر مسلط کروانے میں پوری مدد فراہم کرنے کے باوجود وہ کیا وجوہات ہیں کہ کچھ ہی عرصے بعد افغان حکومتیں پاکستان مخالف پالیسیاں اختیار کر لیتی ہیں۔اس سلسلے میں سیاسی دانشوروں کا خیال ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے طالبان کی رہنمائی کرتے وقت اس بات کا اعادہ نہیں کیا کہ طالبان کے پیچھے ایک ایسا نظریہ کارفرما ہے جو پورے خطے میں اپنی طرز کی اسلامی خلافت کے خواب پر مبنی ہے اور حال ہی میں دوحہ میں ہونے والا سیز فائر کا معاہدہ دراصل طالبان کی وقتی ضرورت ہے۔ طالبان اور ٹی ٹی پی نے مل کر افغانستان میں جہاد کیا ہے اور آپ کچھ بھی کہتے رہیں ٹی ٹی پی، افغان طالبان کا اثاثہ ہے اور انہیں خطرہ ہے کہ ان کو علیحدہ کرنے سے وہ علاقے کے دوسرے دہشت گرد گروہوں کے ساتھ اتحاد نہ کر لیں۔موجودہ بحران میں پاکستان بار بار شکوہ کر رہا ہے اور جسے عالمی ادارے بھی تسلیم کر رہے ہیں کہ کابل نہ صرف ٹی ٹی پی بلکہ القاعدہ، مشرقی ترکستان اسلامی تحریک اور دیگر مذہبی گروہوں کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کر رہا ہے۔

وقت کا تقاضا یہ ہے کہ امریکا، یورپ، چین اور پاکستان خطے کے مفادات اور افغان عوام کے مستقبل کی خاطر افغان حکومت کو اس وقت تک تسلیم نہ کریں جب تک وہ عورتوں کے حقوق، انسانی حقوق اور اپنی سرزمین دوسرے ممالک کیخلاف دہشت گردی کے استعمال کے مطالبے کو من و عن تسلیم نہیں کرتے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جن ممالک نے فرقہ وارانہ فسادات پر قابو پا کر مذہبی رواداری کو قائم کیا انہوں نے ایک تو سیاست اور عقیدے کو جدا کر کے جمہوری اداروں کو مستحکم کیا تو دوسری طرف جدید تعلیم کے ذریعے اس احساس کو پروان چڑھایا کہ ایک ہی معاشرہ مختلف اعتقادات اور نظریات کے ماحول میں ارتقاپذیر ہو سکتا ہے۔اسی لیے آج ہمیں بھی نصاب کی کتابوں میں تعصب اور نفرت کے خاتمے کے ساتھ ساتھ ماحولیات، آئی ٹی، فلکیات اور جینیات(Genetics)کے مضامین کو پڑھانا ہوگا تاکہ طالب علم تقلید کی بجائے جدید نظریات اور تحقیق کے میدان میں آگے بڑھ سکیں۔

تازہ ترین