• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
افغان الیکشن کے سینئر ممبر ضیاء الحق امر خیل نے مستعفی ہوکر میری حیرت میں ایک اور اضافہ کر دیا ۔پہلی حیرت صدارتی امیدواروں کی تعلیمی قابلیت تھی۔ 22جون کوافغانستان کے صدارتی الیکشن کے نتیجے کا اعلان ہونا تھا مگر صدارتی امیدوار عبداللہ عبداللہ کے گنتی پراسیس سے علیحدگی کے بعد نہ ہو سکا ۔افغان صدر کے انتخاب کیلئے عوام نے طالبان دھمکی کے باوجود دوسرے مرحلے میں بھی بھاری تعداد میں ووٹ ڈالے ۔ پہلے مرحلے کی طرح طالبان کوئی بڑا اپ سیٹ نہ کر سکے۔ 22جون کو افغان صدر کے انتخاب کا اعلان ہونے سے قبل ہی عبداللہ عبداللہ کے حامی الیکشن کمیشن کی دھاندلی کے خلاف سڑکوں پر آ گئے اور گنتی کے پراسیس سے علیحدگی اختیار کر لی ۔گو احتجاجیوں کی تعداد 1500سے زیادہ نہیں بتائی جاتی مگراس عمل سے علیحدگی نتائج کی تاخیر کا باعث بن چکی ہے۔ اقوام متحدہ نے عبداللہ عبداللہ سے اس عمل کا حصہ دوبارہ بننے کی اپیل کی ہے مگر عبداللہ کاالزام ہے صدر حامد کرزئی ،مخالف امیدوار اشرف غنی نے الیکشن کمیشن سے مل کر بڑے پیمانے پر دھاندلی کی ہے ۔ سینئر ممبر الیکشن کمیشن ضیاء الحق امر خیل اس دھاندلی کے مرکزی کردار ہیں وہ مستعفی ہوں۔ آپ حیران ہوں گے عبداللہ کے مطالبے پر امرخیل نے استعفیٰ دے دیا ۔امر خیل کے علاوہ صوبہ قندوز کے الیکشن سیل کے سربراہ نے بھی الزام تراشی پر رضاکارانہ استعفیٰ دے دیا۔ پاکستان میں رضاکارانہ استعفیٰ کا رواج ہی نہیں۔ دونوں مستعفی افسران کا کہنا ہے استعفیٰ آزاد اور شفاف تفتیش کے لئے دیا ہے تاکہ الزامات کو دہرایا نہ جا سکے۔ الیکشن کمیشن نے تفتیش شروع کر دی ہے اور اقوام متحدہ نے بھی شفاف انکوائری کیلئے الیکشن کمیشن سے مذاکرات شروع کر دیئے ہیں۔ صدر حامد کرزئی نے بھی شکایات کی رپورٹ کیلئے ایک وفد ترتیب دے دیا ہے۔ عبداللہ کا الزام ہے 70لاکھ کل رجسٹرڈ ووٹروں ہیں جبکہ 20لاکھ کے قریب جعلی ووٹ شامل کئے گئے ہیں۔مقام شکر ہے ابھی تک پاکستان کو کسی بھی طرف سے نتھی نہیں کیا جا رہا۔ میں پہلے لکھ چکا ہوں پاکستان کا افغانستان کے الیکشن میں کوئی کردار نہیں تھا ،ہر طرف بھارت ہی بھارت تھا ۔عبداللہ عبداللہ پرتو بھارت کی ہمیشہ نوازش رہی ہی ہے باقی امیدواروں کے بھی کسی نہ کسی صورت بھارت سے ہی رابطے تھے۔ صدر حامد کرزئی پاکستان سے مخاصمت کا کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں ہونے دیتے۔ جنوبی ایشیا کے نئے شہنشاہ نریندر مودی کی حلف برداری میں بھی بھارتی سفارتخانے پر حملے کا الزام پاکستان پر عائد کر کے بھارتی میڈیا کی توجہ اور مودی کی پشت پناہی کا طلبگار رہا مگر اقتدار کے اس کھیل میں کون کس طرف کھسک جائے کچھ کہنا ممکن نہیں۔حامد کرزئی پہلے الیکشن میں پاکستان کے حمایت یافتہ مانے جاتے تھے مگر اپنے پورے دور اقتدار میں سب سے زیادہ پاکستان کی مخالفت کی ۔امریکی جن کے کندھے پر بیٹھ کر حکمرانی کی وہ بھی شاکی ہیں۔ عبداللہ کی گنتی سے علیحدگی اور الیکشن کمیشن پر الزام سے الیکشن کی شفافیت پر حرف آ چکا ہے ۔ عبداللہ کے حامیوں کا کہنا ہے ہمارے امیدوار کو کامیاب قرار دیا گیا تو الیکشن کے نتائج قبول کریں گے ورنہ نہیں۔الیکشن کے عمل سے علیحدگی کا مطلب ہے وہ ہار رہے تھے ۔اشرف غنی بھی پوری طاقت سے میدان میں ہیں ۔وہ کہتے ہیں انہوں نے دوسرے مرحلے میں بہتر مہم چلائی ،ان کے جلسوں میں حاضرین کی تعداد زیادہ تھی انہیں زیادہ لوگ ووٹ ڈالنے آئے ۔عبداللہ کا مطالبہ مانا جا چکا ہے الیکشن کے عمل سے علیحدگی اب مناسب نہیں ہو گی۔امرخیل کے استعفے کا مطالبہ کرکے اب وہ ٹریپ میں آ چکے ہیں ۔انہیں اب پراسیس کی طرف جانا پڑے گا۔ حقیقت یہ ہے جو ہونا تھاوہ ہو چکا ۔ جعلی ووٹ اگر بکسوں میں ڈالے جا چکے ہیں تو پھر وہ گنتی کا حصہ توبنیں گے۔ زیادہ چانس ہے کہ اب کی بار بھی صدارت عبداللہ کے ہاتھ سے نکل جائے ۔فیئر اینڈ فری الیکشن فورم کے نعیم اللہ نے کہا ہے ہم پورے افغانستان میں الیکشن پر نظر رکھے ہوئے ہیں ۔ پہلے مرحلے کی طرح الیکشن دوسرے مرحلے میں بھی شفاف تھا جسے دونوں امیدواروں نے تسلیم کیا تھا۔ عبداللہ نے ایک آڈیوٹیپ جاری کی ہے جس میں امرخیل اور اشرف غنی کو باتیں کرتے سنایا جا رہا ہے مگر دونوں نے آڈیو ٹیپ کی صحت سے انکار کیا ہے۔ ٹیپ میں بیلٹ بکس کیلئے stuffed sheepکا کوڈ استعمال کیا گیا ۔کچھ تو پس پردہ راز داری ہے۔ عبداللہ نے پہلے مرحلے میں45% ووٹ حاصل کئے تھے جبکہ اشرف غنی نے 33% زلمے رسول نے 11%ابو سیاف نے 7%دونوں بعد الذکر حضرات نے بھی اپنا وزن عبداللہ کے پلڑے میں ڈال دیا تھا۔عبداللہ کی کامیابی یقینی نظر آتی تھی ووٹوں کی گنتی کے دوران اشرف غنی جیتتے نظر آنے لگے تو عبداللہ کے ایجنٹوں کا ماتھا ٹھنکا اور انہوں نے انتخابی عمل سے علیحدگی کا اعلان کر دیا۔ جنگ نے پہلے ہی افغانستان کو ادھیڑ رکھا ہے ،سیاسی پراسس بھی بحران کی بھینٹ چڑھتا نظر آ رہا ہے۔ لوگ شدت سے نتیجے کا انتظار کر رہے ہیں تاکہ زندگی نارمل ہو۔ میں ذاتی طور پر عبداللہ کے باہر ہونے پر خوش ہوں اور من حیث القوم ہمارے لئے راحت کا سامان بھی اسی میں ہے۔عبداللہ مکمل طور پر بھارت نواز ہیں اشرف غنی بھی بھارت کیلئے نرم گوشہ رکھتے ہیں مگر کچھ جگہ پاکستان کیلئے بھی ہے ۔یقیناً عبداللہ ڈاکٹر ہیں اور تعلیم یافتہ ہیں مگر اشرف غنی سے ان کا کوئی مقابلہ نہیں ۔ڈاکٹر اشرف غنی نے کولمبیا یونیورسٹی سے انتھروپالوجی میں ماسٹر کیا۔ ازاں بعد کولمبیا ،برکلے،کیلیفورنیا ،ہاپکن اور ہالینڈ کی آرتھس جیسی یونیورسٹیوں میں پڑھاتے رہے ۔ کابل یونیورسٹی کے چانسلر رہے ۔دنیا کے ذہین ترین پہلے 100افراد میں ان کا نام شامل ہے ۔ورلڈ بنک اور اقوام متحدہ کے ساتھ بھی کام کیا کتابیں لکھیں، دنیا کے بڑے اخبارات میں کالم لکھے، بی بی سی ، سی این این اور فاکس نیوز پر بطور ماہر تبصرے کرتے رہے ۔انہیں امریکہ یورپ اسکینڈے نیویا ،روس، چین، بھارت، مشرق وسطیٰ سب ممالک میں کام کا تجربہ ہے ۔اشرف غنی کو افغانستان کی تصویر بھی کہا جاتا ہے۔ اشرف غنی بان کی مون کے مدمقابل یو این او کے سیکرٹری جنرل کے امیدوار تھے تو دنیا بھر کے اسکالرز کی رائے تھی اشرف غنی کا سیکرٹری جنرل بننا اقوام متحدہ کی خوش قسمتی ہو گی مگر امریکہ کے سیاسی مفادات راہ میں رکاوٹ بنے اور قرعہ بان کی مون کے نام نکلا ۔میری رائے ہے جس شخص کی تعلیم تجربہ اور اہلیت سے پوری دنیا فائدہ اٹھا چکی ہے اس کی اہلیت سے افغانستان جو اس کا آبائی ملک ہے کو بھی فائدہ ملنا چاہئے ۔
تازہ ترین