• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہم گزشتہ دو ہفتے سے چین کے مطالعاتی دورے کے دوران اس راز کو پانے کی جستجو میں ہیں کہ چین نے ہمارے بعد آزادی حاصل کرکے ایسی کون سی راہ اختیار کی کہ آج دنیا بھر میں اس کی سائنسی ‘ معاشی اور معاشرتی ترقی کے ڈنکے بج رہے ہیں۔ ہم بھی چاہتے ہیں کہ ہمارا ملک پاکستان اس راہ پر چلے جہاں ترقی کا راج ہو ،ہر طرف امن و امان اور پُرسکون زندگی ہو۔ ہر کوئی ایک دوسرے کے حقوق کا احترام کرے،ہم مشکل ترین معاشی بحران سے نکل کر ترقی یافتہ اقوام میں شامل ہو جائیں۔ چین کی روزمرہ انسانی زندگی کے طور طریقے کچھ ایسے استوار کئے گئے ہیں کہ جیسے یہ لوگ انسان نہیں کسی طلسماتی دنیا کے کردار ہوں۔ دنیا کی سب سے بڑی آبادی رکھنے والے ملک کا نظم و ضبط خودداری پر مبنی ،اخلاقی رویوں پر مضبوطی سے کھڑا ہے۔ یہاں کوئی بھی شخص بھیک مانگتا نظر نہیں آتا۔ خودداری اتنی زیادہ ہے کہ آپ کسی ہوٹل میں چلے جائیںیا ٹیکسی پر سفر کریںکوئی ویٹرس یا ڈرائیور آپ سے ٹپ ”بخشش“ لینے کی خواہش نہیں رکھتا۔ دیانت داری اس حد تک دیکھنے کو ملتی ہے کہ آپ کہیں کوئی چیز بھول جائیں تو کوئی اسے مال غنیمت سمجھ کر غائب نہیں کر تا۔ چین کی ترقی میں مردوں سے زیادہ خواتین کا کردار بہت نمایاں نظر آتا ہے۔ ہوٹلوں، دفاتر، کاروباری مراکز ، کارخانوں ہر جگہ زیادہ تر خواتین کام کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ یہاں کے لوگ ہر وقت اپنے غیرملکی مہمانوں کی مدد کو تیار رہتے ہیں۔ آپ کسی سے راستہ پوچھیں تو وہ آپ کی ہر طرح سے رہنمائی کرے گا۔ چینی شہری اپنی زبان بولنے،پڑھنے پر فخر محسوس کرتے ہیں۔ انہیں اس بات کا مکمل احساس ہے کہ کسی بھی غیرملکی سے تبادلہ خیال کرنے میں زبان رکاوٹ بن سکتی ہے۔ اسی لئے وہ اپنی موبائل ایپ کی مدد سے آپ سے گفتگو کرنے میں آسانی محسوس کرتے ہیں۔ نارمل یونیورسٹی جینہوا جی جیانگ میں میڈیا تربیتی کورس کے دوران جہاں ہم نے پرنٹ میڈیا ،الیکٹرانک اور سوشل میڈیا بارے جدید رجحانات سے آگاہی حاصل کی۔ وہاں ان شعبوں کی ترقی و تنزلی بارے وجوہات اور امکانات کا جائزہ لیا وہاں چین اور پاکستان کے درمیان سماجی ،ثقافتی ذرائع ابلاغ میں باہمی تعاون و اشتراک ، ایک دوسرے کے تجربات سے استفادہ کرنے کے گہرے امکانات پر بھی غور کیا گیا۔ اس دوران ہمیں چین کی فن و ثقافت، تاریخ بارے معلومات کی فراہمی بارے مختلف شہروں میں سرامکس فیکٹری ،عجا ئب گھروں، سیاحتی مقامات کو دیکھنے کا بھی موقع ملا اور خوشی و حیرت ہوئی کہ چین کے شہری مشینی ربوٹ نہیں بلکہ انتہائی زندہ دل انسان ہیں۔ سیروسیاحت ان کا بہترین مشغلہ ہے۔ اسکول کے ننھے منے بچوں کو خصوصی طور پر ان مقامات کی سیر کروائی جاتی ہے تاکہ تاریخ و ثقافت اور تحقیق بارے ان کے علم میں اضافہ ہو سکے۔ تحقیق یہ کہتی ہے کہ کسی بھی بچے کی شخصیت سنوارنے میں عمر کے ابتدائی سات سال اس کی تعلیم و تربیت کی بنیاد رکھتے ہیں۔ سات سال کی عمر تک کے بچے کا ذہن اور اس کی شخصیت کا بنیادی خاکہ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے پختہ ہو جاتا ہے۔ اس تحقیق کی ایک جھلک ہمیں چین کے عجا ئب گھروں، تفریحی مقامات، تعلیمی اداروں اور کھیل کے میدانوں میں دیکھنے کو ملی ۔ چینی بچے اپنے اساتذہ کی زیرنگرانی میں تعلیم و کھیل کے میدانوں میں سنجیدگی سے تربیت حاصل کرتے ہیں۔ میری یہ مسلمہ رائے ہے کہ چینی قوم کی ترقی کی بنیاد اچھے اخلاق، دیانت داری، اپنے کام سے لگن اوروقت کی پابندی ہے۔ یہاں شام کے فوراً بعد کاروبارتقریباً بند ہو جاتا ہے۔ شاپنگ مالز ہر صورت رات دس بجے بند ہو جاتے ہیں۔ شام ڈھلتے ہی سڑکوں پر ٹریفک کی روانی تھمنے لگتی ہے۔جلدی سونا صبح سویرے اٹھنا‘ پارکوں میں ورزش کرنا اور صبح سات بجے سے پہلے کاروبار زندگی کا آغاز یہاں کا معاشرتی کلچر اور نظم و ضبط ہے۔ کچھ مصروف ترین کاروباری شہروں جیسا کہ ایوو جو چین کا اہم ترین کاروباری مرکز اور دنیا کی سب سے بڑی ہول سیل مارکیٹ ہے اس شہر میں صبح چھ بجے ہی کاروبار کا آغاز ہو جاتا ہے اور شام پانچ بجے یہ مارکیٹ بندہو جاتی ہے۔ چین کے شہروں میں نائٹ مارکیٹس یعنی رات کو کاروبار کا رواج بھی ہے۔ یہ نائٹ مارکیٹس سستے بازاروں کے نام سے جانی پہچانی جاتی ہیں جو مخصوص مرکزی مارکیٹوں کے درمیان سڑکوں پر شام چھ بجے سے تقریباً رات بارہ بجے تک کھلی رہتی ہیں۔ آپ مقررہ وقت سے پہلے وہاں چلے جائیں ۔ صاف ستھری کشادہ سڑکیں خالی نظر آئیں گی۔ پھر اچانک ہر طرف سے تیزرفتاری کے ساتھ خواتین اور مرد اپنی پہیوں والی گاڑیوں پر مشتمل اسٹالز سجاتے دکھائی دیتے ہیں اور چند ہی لمحوں میں ایک نیا شہر آباد ہو جاتا ہے۔ بات موضوع سے ہٹ کر کہیں سے کہیں نکل گئی اصل موضوع کی طرف آتے ہیں۔ نارمل یونیورسٹی جینہوا میں پاکستان میڈیا ٹریننگ کورس کے دوران چینی اساتذہ نے ہمیں جو سبق پڑھایا ، اس کا لب لباب یہ ہے کہ پرنٹ میڈیا ہو، الیکٹرونکس یا سوشل میڈیا کسی بھی معاشرے کا حقیقی چہرہ ہوتا ہے، یہ ریاست کا چوتھا نہیں بلکہ پہلا ستون ہے۔ میڈیا اپنے معاشرے کی جیسی تصویر دکھائے گا دنیا اسکے پس منظر میں ہی کسی بھی ریاست یا ملک سے اپنے تعلقات استوار کرے گی۔ چین کے ذرائع ابلاغ اپنے معاشرے کی بنیادیں مضبوط کرنے میں مرکزی کردار ادا کررہے ہیں۔ مضبوط مرکزیت کے نظام نے ایک بات طے کر رکھی ہے کہ حکومت اور میڈیا ایک اچھے معاشرے کی تشکیل میں باہمی اشتراک سے اپنا اپنا کردار ادا کریں گے۔

تازہ ترین