بلوچستان ہائی کورٹ نے اے این پی رہنما ایمل ولی کے بطور سینیٹر انتخاب کے خلاف درخواست ناقابلِ سماعت قرار دیتے ہوئے مسترد کر دی۔
ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ ایمل ولی خان کی سینیٹ الیکشن میں کامیابی مکمل طور پر آئینی و قانونی ہے۔
جسٹس محمد کامران ملا خیل اور جسٹس گل حسن ترین پر مشتمل 2 رکنی بینچ نے فیصلہ سنایا۔
عدالت نے فیصلے میں کہا کہ ایمل ولی خان کی نامزدگی اور انتخاب آئینی و قانونی تقاضوں کے مطابق ہوا، ان کا شناختی کارڈ بلوچستان کے پتے پر جاری ہوا، ان کا نام کوئٹہ کے حلقے کی ووٹر فہرست میں موجود ہے۔
فیصلے میں عدالت نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے 15 مارچ 2024ء کو ایمل ولی خان کے ووٹر اندراج کا سرٹیفکیٹ جاری کیا، درخواست گزار کوئی ثبوت پیش نہ کر سکے کہ ووٹر کا اندراج غیر قانونی تھا، الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعات 26 اور 27 کے تحت پتہ اور ووٹر لسٹ کافی ہیں۔
الیکشن کمیشن نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ انتخابی عمل مکمل ہونے کے بعد اعتراض صرف الیکشن ٹربیونل میں اٹھایا جا سکتا ہے، انتخابی تنازعات کا دائرہ اختیار صرف الیکشن ٹربیونل کو حاصل ہے۔
بلوچستان ہائی کورٹ نے کہا کہ آئینی درخواست کے ذریعے انتخابی نتائج چیلنج نہیں کیے جا سکتے، ایمل ولی خان آئین کے آرٹیکل 62 کے تقاضوں پر پورا اترتے ہیں، الیکشن ایکٹ کی دفعہ 110 کے تحت ان کے کاغذات جانچ پڑتال کے بعد منظور ہوئے۔