آج سائیں اللہ دتا میرے پاس آیا۔مجھے افسوس ہےکہ میں آج تک آپ کا اس سے تعارف کیوں نہیں کرا سکا۔ یہ میرا بچپن سے عالم شباب تک کا دوست ہے۔ سائیں تو اس نے ایک ہفتہ پہلے کہلوانا شروع کیا ہے۔ اس سے پہلے تو حسینان شہر میں سائیں نہیں سائنس دان سمجھا جاتا تھا اور اس وقت یہ اللہ دتا بھی نہیں تھا۔ یہ نام تو اس نے ایک ہفتہ پہلے اڈاپٹ کیا ہے۔ اسے شہزادہ گلفام کہا اور سمجھا جاتا تھا۔ یہ جدھر سے گزرتا حسینوں کے کشتوں کے پشتے لگا دیتا ۔اب بقول اس کے یہ کام اس نے گزشتہ 10 برس سے چھوڑ دیا ہے۔ آج اس کی آمد بہت اچانک تھی۔ ورنہ اس نے جب بھی آنا ہوتا بڑے کھڑکےدڑکے سے آتا اور اکیلا نہیں آتا تھا ۔حسینوں کا جھرمٹ ساتھ ہوتا تھا وہ آیا اور سلام دعا لئے بغیر میرے برابر کے صوفے میں بیٹھ گیا ۔چائے کے گھونٹ بھرنے کے دوران میں نے ماضی کے شہزادہ گلفام اور آج کے سائیں اللہ دتا سے پوچھا کیا بات ہے۔ آج اکیلے آئے ہو ،وہ حسینانِ نازک اندام کہاں ہیں جو ہر وقت تمہارے دائیں بائیں ہوتی تھیں ،بولا وہ سب موجود ہیں، پہلے ان کا ذکر اذکار شو مارنے کے لیے کیا کرتا تھا، اب چونکہ تم مجھ پر ایمان لے آئےہو، اس لیے انہیں کندھوں پر بٹھائے رکھنے کی کوئی ضرورت نہیں پھر میں نے وہی 12 نام لے کر ان کا حال احوال پوچھا تو اس نے کہا سب خیریت سے ہیں ۔اور تم یہ سن کر خوش ہو جاؤ کہ وہ تمہارے بارے میں پوچھتی رہتی ہیں۔اس کے بعد میں نے یہ موضوع دانستہ چھوڑ دیا کہ مجھے خدشہ تھا کہ ہم کوئی اور بات کر نہ سکیںگے اور اسی بات کا بتنگڑ بناتے رہیں گے۔ سو میں نے گفتگو کا موضوع بدلنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا آج کل سیاست کدھر جا رہی ہے ،بولا یار کوئی آسان سوال پوچھ، میں نے کہا اس سوال میں مشکل کیا ہے، کہنے لگا مشکل یہ ہے کہ ان دنوں سیاست کہیں ہے ہی نہیں ۔بلکہ ہر کوئی ان کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش میں ہے ۔ جو آزاد ہیں وہ بھی اور جو قید ہیں وہ بھی، میں نے کہا یار آج تم اپنی ہر بات کا آغاز ہی انتہا سے کر رہے ہو ۔یہ کیا ہو گیا ہے تمہیں ۔یہ سن کر اس نے کہا، تم صحیح کہتے ہو۔ خود میں نے بھی اپنی گفتگو سے یہی نتیجہ نکالا تھا ----ماضی کے شہزادہ گلفام اور آج کے سائیں اللہ دتا نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا، تمہیں پتہ ہے ایسی باتیں میں کب کرتا ہوں۔ میں نے کہا نہیں، بولا میں یہ باتیں اس وقت کرتا ہوں جب مجھے شدید بھوک لگی ہو ۔تب میں نے کہا سیدھی طرح کہو کہ تم نے کچھ کھانا ہے… اور اس کے بعد میں نے اس کی میز پر کھانا سجا دیا۔! میرے اس دوست میں ایک بہت بری عادت ہے کہ کھانے کے بعد انتہائی بے سرا سا ڈکار با آواز بلند مارتا ہے۔ اور اس کے بعد عموماً وہ قدرے بہتر گفتگو کرنے لگتا ہے۔ مگر اس دفعہ ڈکارنے کے بعد وہ دوبارہ اپنے غیر شرعی حرم کا ذکر لے بیٹھا۔تم نے بہت کچھ پوچھا پری چہرہ نسیم کی بابت دریافت نہیں کیا، اس نے سوال کیا، میں نے پوچھا وہ کون ہے، جس پر وہ تھوڑا سا ناراض ہوا اور بولا ،اب ایسے تو نہ کہو ،پہلے تو تم مجھ سے سب سے پہلے اسی کے بارے میں پوچھا کرتے تھے۔ میں نے اپنی بری یادداشت کو ہمیشہ کی طرح اس دفعہ بھی برا بھلا کہنے کے بعد کہا، یار میں اگر بھول گیا ہوں تو تمہی بتا دو---- اس نے مجھے یاد دلایا ،وہی جس کی تمہیں ایک عادت بہت ناپسند تھی ،یعنی اس کی خود پسندی -جس پر میں نے ایک سسکاری بھرتے ہوئے کہا ۔ہاں وہی جس کے بارے میں میرا خیال ہے کہ وہ ہزار خوبیوں کے باوجود صرف عشاق کی تعداد میں اضافہ کرنےکیلئے اپنا ٹیلی فون نمبر جہاز سے پھینکواتی ہے۔ اس پر اس کی ہنسی نکل گئی ۔بولا،میں سمجھ گیا۔تم کس کی طرف اشارہ کر رہے ہو،وہ تو اب اپنے غیر ملکی دوستوں کے بارے میں بھی بتاتی ہے کہ وہ اس سے ملنےکیلئے پاکستان آ رہےہیں -مجھے اس ذکر اذکار سے کراہت محسوس ہوئی کہ میرے نزدیک اس کی صرف یہ عادت ایک خوبصورت چہرے پر بد نما داغ کی طرح تھی-حال سائیں اللہ دتا سابق شہزادہ گلفام اللہ جانے بار بار کیوں اس کی طرف آ جاتا تھا، میں نے گفتگو کا رخ موڑنے کی بہت کوشش کی۔مگر وہ ہر بار گھیر گھار کر مجھے اس موضوع پر لے آتا تھا،بالآخر میں نے اسے کہا۔یار شہزادہ گلفام ،حال سائیں اللہ دتا کسی اور موضوع پر بات کرنا ہے تو کرو،ورنہ تمہاری وجہ سے میرے بہت سے کام رہ جائیں گے ۔یہ سن کر میرے اس بدذوق دوست نے پہلی دفعہ ایک خوبصورت شعر سنایا جو جمیل الدین عالی کا تھا۔’’کچھ نہ تھا یاد بجز کار محبت اک عمر...یہ جو بگڑا ہے تو اب کام کئی یاد آئے‘‘بہرحال تقریباً ایک گھنٹہ میرے پاس بیٹھنے کے بعد سائیں اللہ دتا اٹھ کرچلا گیا ۔مگر اس کے جانے کے بعد پتہ چلا کہ عالی صاحب کا شعر اچھا ہے۔مگر کام بگڑنے کے بعد کوئی کام بھی یاد نہیں رہتا۔آخر میں میری ایک غزل ۔
سمندر بیچ دیتے ہیں فضائیں بیچ دیتے ہیں
ہمارے پر کٹے،ساری اڑانیں بیچ دیتے ہیں
یہ بیوپاری عقیدوں کے، پجاری ہیں فقط زر کے
یہ مندر ،مسجدیں،گرجے،گھپائیں بیچ دیتے ہیں
ہمارے شہر کے سارے درختوں کے یہ بیری ہیں
ہمارے شہر کی تازہ ہوائیں بیچ دیتے ہیں
انہیں معلوم کیا غیرت حمیت نام ہے کس کا
یہ دھرتی بیچ دیتے ہیں یہ مائیں بیچ دیتے ہیں
بہت سفاک لوگوں میں عطا رہنا پڑا مجھ کو
یہ نغمے بیچ دیتے ہیں یہ تانیں بیچ دیتے ہیں