میں اپنا دورہ امریکہ و کینیڈا مکمل کرکے وطن واپس پہنچ چکا ہوں، اس دوران مجھے نیویارک، واشنگٹن، ٹورنٹو، لاس اینجلس سمیت شمالی امریکہ کے مختلف علاقوں میں قائم نجی و سرکاری اداروں کا قریب سے جائزہ لینے کا بھی موقع ملا، جیسا کہ میں نے اپنے گزشتہ کالم میں تذکرہ کیا تھاکہ امریکی سرزمین پر قدم رکھتے ہی میرا سب سے پہلا واسطہ آرٹیفیشل انٹلیجنس (اے آئی)سے پڑا، ایئرپورٹس پر خودکار روبوٹ سیکیورٹی سمیت مختلف اہم ذمہ داریاں سنبھالے ہوئے ہیں، شاپنگ مالز، پارکس، سڑکوں اورعوامی مقامات پر ہمارے ملک کی طرح صفائی کا عملہ نظر نہیں آتا بلکہ سمارٹ مشینیںخودکار انداز میں یہ فریضہ سرانجام دے رہی ہیں، سڑکوں پر جابجا جدید تھری ڈی کیمروں، جی پی ایس میپنگ اور سنسرز کی مدد سے مسافروں کا ڈیٹا اکٹھا کرکے سہولیات کی فراہمی میں بہتری یقینی بنائی جارہی ہے ۔ امریکہ میں قیام کے دوران ایک خیال بار بار میرے ذہن میں آتا رہا کہ اگر پاکستان مصنوعی ذہانت کو اپنا لے تو؟ میں سمجھتا ہوں کہ اس ایک سوال کےجواب کے اندر ہمارامستقبل، ملکی معیشت، قومی دفاع، ترقی و خوشحالی، سفارتکاری اور حتیٰ کہ پاکستان کی قومی خودمختاری بھی پنہاں ہے۔ امریکہ میں اے آئی سے کسی کو کوئی خوف لاحق نہیں لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں ہم مصنوعی ذہانت سے خوفزدہ نظر آتے ہیں، امریکہ میں ہر شعبے میں اے آئی کی بدولت بہتری آرہی ہے جبکہ ہم اس قسم کی غلط فہمیوں کا شکار ہیں کہ آرٹیفشل انٹلیجنس اپنانے سے ہمارے ملک میں ملازمتیں ختم ہوجائیں گی، بے روزگاری کی شرح بڑھ جائے گی اور ہمارے معاشرے میں انسانوں کی جگہ روبوٹس کاتسلط قائم ہوجائے گا۔میں نے امریکہ میں اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ امریکہ میں بسنے والا اے آئی سے ڈر نہیں رہا بلکہ بڑھ چڑھ کر مصنوعی ذہانت کا استعمال کررہا ہے، یہاں پر روبوٹس انسان کی ملازمتیں ختم نہیں کررہے بلکہ انسان کی مدد کررہے ہیں، امریکہ میں اے آئی اپنانے سے انسان ناکارہ نہیں بلکہ جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہورہے ہیں،ایسی ریسرچ رپورٹس منظرعام پر آرہی ہیں کہ اے آئی کو استعمال کرنے والے لوگ کم وقت میں تیزی سے اپنے اہداف کا حصول یقینی بنا رہے ہیں۔میں نے جب امریکہ کے تعلیمی میدان میں اے آئی کی بدولت انقلابی تبدیلیاں برپا کرنے والےلاس اینجلس میں قائم ادارے ایڈیوڈاٹ کام کا دورہ کیا تو وہاں بریفنگ میں بتایا گیا کہ ساٹھ کی دہائی میں ایشیائی ملک سنگاپور قدرتی وسائل کی کمی، بے روزگاری کی بلند ترین شرح، مہنگائی اوراندرونی اختلافات جیسے چیلنجز کا سامنا کررہا تھا، ایسے نازک موقع پر سنگاپورحکومت نےملک بھر کی یونیورسٹیوںاور تعلیمی اداروں کے نصابِ تعلیم کو معاشی اہداف اور نئے صنعتی تقاضوں کے مطابق ڈھالا، عالمی اداروں کے اشتراک سےسنگاپور کے نوجوانوں کو ہنر اور تکنیکی مہارتیں سکھائیں،دس سال قبل سنگاپور میں اسکلز فیوچر کے تحت ایک ایسی ملک گیر روزگار تحریک شروع کی گئی جس سے حکومتی پالیسی ساز، آجر، ادارے اور نوجوان سب ایک پیج پر آگئے،آج سنگاپور انسانی سرمایہ کو اپنا قومی اثاثہ بنانے والوں کیلئے ایک رول ماڈل ہے۔ آج اکیسویں صدی میں پاکستان کا اصل اثاثہ ہمارے نوجوان ہیں، ہمارے ملک میںتریسٹھ فیصد نوجوان تیس سال سے کم عمر ہیں،ہمارے ملک میں نوجوانوں کی اتنی بڑی تعداد میں افرادی قوت عالمی سطح پر بھی اے آئی ٹیکنالوجی اداروںکیلئے کشش کا باعث ہے ، عالمی میڈیا رپورٹس کا جائزہ اس حقیقت سے پردہ اُٹھاتا ہے کہ اس وقت امریکہ اور چین جیسی عالمی طاقتیں مصنوعی ذہانت کے شعبے میں پاکستانی نوجوانوں کی صلاحیتوں سے فائدہ اُٹھانے کیلئے سنجیدہ ہیں۔آج مصنوعی ذہانت تیزی سے تعلیم، مواصلات، صحت، زراعت اور طرز حکمرانی سمیت روزمرہ زندگی کا حصہ بن رہی ہےتو دوسری طرف ہم اے آئی سے خوفزدہ ہورہے ہیں۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور ہمیں مالک نے چاروں موسموں سے نوازا ہے لیکن ہم خوراک تک دوسرے ممالک سے امپورٹ کرنے پر مجبور ہیں۔دوسری طرف امریکہ میں ڈرون کی مدد سے فصلوں پر مصنوعی بارش برسائی جارہی ہے، بنجر زمین کو زرخیز بنایا جارہا ہے، مٹی میں نصب سینسر اے آئی کی مدد سے آگاہ کرتے ہیں کہ کونسا بیج پھوٹنے والا ہے اور کونسے بیج کو کب اور کتنے پانی کی ضرورت ہے، فصلوں کے جنگلی جانوروں اور حشرات الارض سے بچاؤ کیلئے حفاظتی روبوٹ دن رات متحرک ہیں۔ امریکہ کے ہسپتالوں میں اے آئی ڈاکٹر کی جاب پر قابض نہیں ہورہی بلکہ ڈاکٹر کو اس قابل بنارہی ہے کہ وہ اپنا قیمتی وقت سنجیدہ نوعیت کے امراض اورریسرچ کیلئے صرف کرسکے، اسی طرح انجینئرنگ، کمپیوٹر سائنس، ٹیلی کام، کامرس اورمارکیٹنگ جیسے شعبوں سے وابستہ پروفیشنل مصنوعی ذہانت کی بدولت اپنی پیشہ ورانہ صلاحیتوں میں اضافہ کررہےہیں۔میں سمجھتا ہوں کہ آج دورِ جدید کی جنگوں میں کامیابی کا دارومدار مضبوط دفاعی صلاحیتوں پر ہے، رواں برس مئی میں پاک بھارت سرحدی کشیدگی کےتناظر میں عالمی میڈیاکا کہنا ہے کہ پاکستان کی ناقابل ِ یقین دفاعی کامیابی میں چینی ساختہ اے آئی ٹیکنالوجی نے فیصلہ کُن کردار ادا کیا۔ ہمیں بھی جدید دنیا کی طرح اس حقیقت کا ادراک کرنا چاہیے کہ اس ملک کو ترقی و خوشحالی سے کوئی طاقت نہیں روک سکتی جسکےنوجوان اپنے شعبے میں تربیت یافتہ ہوںاورماڈرن ٹولز کا استعمال جانتے ہوں ۔اگر ہم اے آئی کو اپنا لیں تو ہمارے پروفیشنل بھی اپنی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کو نکھار سکتے ہیں، ہم اپنا دفاع اسمارٹ اور ناقابلِ تسخیر بناکر قومی ترقی و خوشحالی کے منصوبوں پر توجہ مرکوز کرسکتے ہیں ہم اپنی فصلیں ہری بھری کرسکتے ہیںاورہمارا نوجوان بھی اے آئی کی دنیا کا لیڈر بن کر ملک و قوم کا نام روشن کرسکتا ہے، تاہم اس کیلئے ضروری ہے کہ ہم اپنےاعلیٰ تعلیمی اداروں میں زیرتعلیم اسٹوڈنٹس کو مصنوعی ذہانت کے ذمہ دارانہ استعمال سے روشناس کرائیں۔آج ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومتی سطح پر فوری طور پر اے آئی کو قومی ترجیح کا درجہ دیا جائے ، سکول سے یونیورسٹی تک اے آئی لٹریسی لازمی قرار دی جائےاورایڈیوڈاٹ کام جیسے عالمی اداروں کے ساتھ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ میں اضافہ ہو۔ آج پاکستان کے پاس سنہری موقع ہے لیکن اگر ہم نے ہچکچاہٹ میںیہ موقع کھو دیا تو تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔