ذیابطیس ایک ایسا مرض ہے، جو اگر قابو میں نہ رہے، تو جسم کے کئی حصّوں کو متاثر کرتا ہے۔ ان میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والا حصّہ پاؤں ہیں۔ ذیابطیس کے مریضوں میں پاؤں کے زخم ایک عام مگر خطرناک مسئلہ ہے۔
اکثر اوقات معمولی خراش یا چوٹ بھی بڑے زخم میں تبدیل ہو جاتی ہے، جو انفیکشن اور پیچیدگیوں کا باعث بنتی ہے۔ اگر احتیاط نہ کی جائے، تو یہ زخم اتنے بگڑ سکتے ہیں کہ پاؤں کے کسی حصّے یا پوری ٹانگ ہی کو کاٹنا پڑ جاتا ہے۔
پاؤں کی بنیادی خرابی: ذیابطیس کے مریضوں کے پاؤں میں سب سے بڑی، خرابی اعصاب کی کم زوری یا مُردہ ہونا ہے۔ جب شوگر لمبے عرصے تک قابو میں نہ رہے، تو جسم کے اعصاب(nerves) متاثر ہوتے ہیں، خاص طور پر پاؤں اور ٹانگوں کے۔ اِس کیفیت کو نیوروپیتھی کہا جاتا ہے۔
احساسِ درد کا ختم ہونا: اعصاب کے کم زور ہونے کی وجہ سے مریض کو پاؤں میں درد، ٹھنڈا یا گرم محسوس نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ بعض اوقات مریض کے جوتے یا چپل پیروں سے نکل جاتے ہیں اور اُسے پتا بھی نہیں چلتا۔ بعض مریض بستر پر جوتوں سمیت لیٹ جاتے ہیں۔
درد، دراصل اللہ تعالیٰ کی ایک نعمت ہے، جو ہمیں خطرے سے آگاہ کرتی ہے۔ جب احساسِ درد ختم ہو جاتا ہے، تو مریض اپنے پاؤں کو چوٹ لگنے سے نہیں بچا پاتا۔ وہ زخم کے باوجود چلتا رہتا ہے، کیوں کہ اسے تکلیف محسوس نہیں ہوتی، نتیجتاً زخم مزید خراب ہو جاتا ہے۔
جِلد کی خشکی اور سختی: اعصاب کی خرابی سے پاؤں میں پسینہ آنا بند ہو جاتا ہے، جس کی وجہ سے جِلد خشک ہو جاتی ہے۔ خشک جِلد پَھٹنے لگتی ہے اور ان پَھٹی ہوئی جگہوں سے جراثیم آسانی سے اندر داخل ہو سکتے ہیں۔
جن جگہوں پر پاؤں پر وزن زیادہ پڑتا ہے، مثلاً تلوے کے نیچے یا انگوٹھے کے پاس، وہاں جِلد سخت ہو جاتی ہے۔ اس سخت جِلد کے نیچے خون کی باریک نالیاں دَب جاتی ہیں، نتیجتاً وہاں خون جمع ہونے لگتا ہے اور چھالے بن جاتے ہیں اور چھالے پَھٹ جائیں، تو وہ زخم کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔
دورانِ خون میں خرابی: ذیابطیس کے مریضوں میں پاؤں کو خون پہنچانے والی شریانیں تنگ ہوسکتی ہیں۔ اگر چلنے یا سیڑھیاں چڑھنے پر پنڈلیوں میں درد ہو، جو آرام کرنے سے ختم ہوجائے، تو یہ خون کی نالیوں کے بند ہونے کی علامت ہے۔فوراً ڈاکٹر سے رجوع کریں۔
زخم بننے کی وجوہ:یہ غلط فہمی عام ہے کہ ذیابطیس کے مریضوں کے پاؤں میں زخم صرف شوگر زیادہ ہونے کی وجہ سے بنتے ہیں۔ حقیقت میں ایسا نہیں۔ زخم بننے کی بنیادی وجہ کوئی چوٹ یا دباؤ ہوتا ہے۔
جب تک جِلد محفوظ رہتی ہے، اُس کے نیچے موجود گوشت، چربی، اعصاب اور خون کی نالیاں بھی محفوظ رہتی ہیں، لیکن اگر جِلد میں معمولی سی خراش بھی آ جائے، تو جراثیم اندر داخل ہو سکتے ہیں اور وہاں تیزی سے بڑھنے لگتے ہیں۔
اگر چوٹ لگنے کے ابتدائی چند گھنٹوں میں صفائی اور احتیاط کی جائے، تو زخم کو بڑھنے سے روکا جا سکتا ہے۔ لیکن اگر لاپروائی اختیار کی جائے، تو یہ چھوٹا سا زخم خطرناک زخم میں بدل جاتا ہے۔
ذیابطیس کے مریضوں میں پاؤں کے زخم بننے کی عام وجوہ میں٭نامناسب جوتے یا چپل پہننا٭ننگے پاؤں چلنا٭کیل یا کانٹے کا لگ جانا٭پاؤں پر کوئی بھاری چیز گر جانا٭ناخن غلط طریقے سے کاٹنا٭ہیٹر، آگ یا موٹر سائیکل کے سائلینسر سے پاؤں جل جانا اور٭گرم فرش پر ننگے پاؤں چلنا، وغیرہ شامل ہیں۔ زخم والے پاؤں پر وزن ڈالنا سخت نقصان دہ ہے۔ ایسے مریضوں کو واکر، بیساکھی یا وہیل چیئر کا استعمال کرنا چاہیے۔
مناسب جوتوں کا انتخاب: ذیابطیس کے مریضوں کے لیے جوتے کا انتخاب نہایت اہم ہے۔ اکثر زخموں کی شروعات غلط جوتے یا چپل ہی سے ہوتی ہے۔اِس لیے ہمیشہ پاؤں کے معالج(Foot Specialist) سے مشورہ کر کے جوتے خریدیں۔٭ جوتا بہت تنگ ہو، نہ ہی بہت ڈھیلا۔ سول سخت اور اندر سے نرم ہو٭جوتے شام کے وقت خریدیں، کیوں کہ اُس وقت پاؤں تھوڑے سوجے ہوتے ہیں۔٭نئے جوتے آہستہ آہستہ پہننے کی عادت ڈالیں۔ پہلے دن آدھا گھنٹہ چلیں، پھر وقت بڑھائیں۔
مریضوں کے دو گروپ: پہلے گروپ میں ایسے مریض شامل ہیں، جن کے پاؤں کی ساخت نارمل ہو اور کبھی زخم نہ بنا ہو۔ یہ مریض عام سینڈل، جاگرز یا نرم جوتے پہن سکتے ہیں۔ جوتے کی نوک تنگ نہ ہو اور سول سخت، جب کہ اندر سے نرم ہو۔
جب کہ دوسرا گروپ ایسے مریضوں کا ہے، جن کے پاؤں کی ساخت بدل گئی ہو، پرانے زخم کے نشانات ہوں یا انگلیاں کٹ چُکی ہوں۔ اُن کے لیے خصوصی جوتے بنائے جاتے ہیں، جنہیں’’custom footwear‘‘کہا جاتا ہے۔یہ جوتے پاؤں کے دباؤ کو تقسیم کرتے ہیں تاکہ کسی حصّے پر زیادہ دباؤ نہ پڑے۔
کِن جوتوں سے پرہیز کریں:٭اونچی ایڑھی والے سینڈل، نرم سول یا نوک والے جوتے٭پشاوری چپّل یا بند سینڈل، جن میں انگلیاں ڈھک جائیں٭کیل یا موٹی سلائی والے جوتے٭بہت بڑے یا چھوٹے سائز کے جوتے٭بغیر جراب کے جوتے پہننے سے۔
پاؤں کی دیکھ بھال: ذیابطیس کے مریض کے لیے روزانہ پاؤں کی نگہہ داشت اتنی ہی ضروری ہے، جتنی کہ شوگر پر کنٹرول کی۔٭پاؤں کو صاف اور نرم رکھنا٭روزانہ پاؤں کو نیم گرم پانی میں دس سے پندرہ منٹ کے لیے بھگوئیں۔٭جھانوے یا نرم کپڑے سے تلوے صاف کریں تاکہ سخت جِلد نرم ہو جائے۔٭انگلیوں کے درمیان جگہ ہمیشہ خشک رکھیں تاکہ فنگس نہ بنے۔
باقی گیلے پاؤں میں پیٹرولیم جیلی یا فٹ کیئر کریم لگائیں٭نرم سوتی جرابیں پہنیں، جن میں کوئی موٹی سلائی یا گانٹھ نہ ہو۔٭دن میں کم از کم تین بار اپنے پاؤں کا جائزہ لیں۔ اگر کسی جگہ سرخی، خراش، چھالا، سوجن یا درجۂ حرارت زیادہ محسوس ہو، تو فوراً ڈاکٹر سے رجوع کریں۔٭کبھی خود سے سخت جِلد، گٹھلی یا کورن کاٹنے کی کوشش نہ کریں۔٭ناخن ہمیشہ سیدھے اور زیادہ گہرے نہ کاٹیں۔
چند بنیادی اصول: اِس ضمن میںشوگر ہمیشہ کنٹرول میں رکھیں۔ننگے پاؤں نہ چلیں، یہاں تک کہ گھر میں بھی نہیں۔ روزانہ پاؤں دھو کر خشک کریں اور کریم لگائیں۔ اپنے جوتوں کے اندر ہاتھ ڈال کر چیک کریں کہ کوئی نوک دار چیز نہ ہو۔سردیوں میں ہیٹر یا آگ کے قریب پاؤں نہ رکھیں۔ اگر پاؤں میں زخم ہے، تو خود علاج نہ کریں، فوری ڈاکٹر کو دکھائیں۔ (مضمون نگار، سند یافتہ معالج برائے امراضِ پاؤں ہیں اور عُمر ذیابطیس اینڈ فُٹ کیئر سینٹر، اسلام آباد میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ نیز، پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن (پیما) کے رُکن بھی ہیں۔)