پاکستان میں اقلیتوں یا اُن کی عبادت گاہوں کے تحفّظ کے تناظر میں بھارت میں خاصی حسّاسیت پائی جاتی ہے اور اِس احساس کے پیچھے وہ میڈیائی منفی پروپیگنڈا ہے، جس کے تحت عوام کو بتایا جاتا ہے کہ’’پاکستان میں اقلیتیں اور اُن کی عبادت گاہیں غیر محفوظ ہیں۔‘‘بالخصوص ہندو آبادی اور مندروں سے متعلق وہاں یہ تصوّر عام ہے کہ’’پاکستان میں ریاستی سرپرستی میں مندر منہدم کر دیئے گئے اور اب بھی یہ عمل جاری ہے۔ ہندو شہری حملوں کی زَد میں رہتے ہیں اور انہیں مقامی طور پر غیر انسانی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔‘‘ اِن احساسات کا براہِ راست اندازہ اُس وقت ہوا، جب ایک موقعے پر سوشل میڈیا پر بھارتی شہریوں سے گفتگو کا موقع ملا۔
ہمیں بلوچستان کے حیرت کدے،’’ہنگول نیشنل پارک‘‘ کے سیّاحتی دورے کا موقع بھی ملا۔ ایک شام، ایک دوست کے ہم راہ کنڈ ملیر سے واپسی پر مکران کوسٹل ہائی وے سے ہنگول ندی کے کنارے، ہنگلاج ماتا مندر کی طرف سفر کا ارادہ کیا، جو ہندو مذہب میں ایک نہایت معتبر مقام ہے۔ جب ہم پندرہ کلو میٹر کا سفر طے کرکے مندر کے مرکزی دروازے پر پہنچے، تو سیکیوریٹی پر مامور اہل کار نے روک لیا۔
اُس نے سوال کیا کہ’’مندر میں آپ کیا کریں گے، یہاں تو صرف ہندو یاتری آتے ہیں؟‘‘ہم نے درخواست کی کہ اِس قدیم مندر کی راہ داریوں میں گھوم پِھر کر مشاہدہ کرنا چاہتے ہیں، جس پر ہمیں اندر جانے کی اجازت دے دی گئی۔ ہنگلاج ماتا مندر اور وہاں موجود درجن بھر دیگر مندروں کے عقیدت مندوں کی بڑی تعداد بھارت، بالخصوص ریاست گجرات میں رہتی ہے۔
ہنگول میں واقع اس مندر میں اردو، سندھی اور انگریزی کے علاوہ گجراتی زبان میں ہدایات اور تحریریں جابجا دیکھنے کو ملیں۔ ہنگلاج ماتا مندر، بلوچستان کے ضلع لسبیلہ میں ہنگول کے دُور دراز پہاڑوں میں واقع ہے۔ مندر تک جانے کے لیے مکران کوسٹل ہائی وے سے پختہ سڑک تعمیر کی گئی ہے اور راستے میں ہنگول ندی پار کرنے کے لیے ایک بڑا پُل بھی بنایا گیا ہے۔
ہنگول کے اِس علاقے میں چند گوٹھ واقع ہیں، جہاں محدود پیمانے پر کچّے گھر دیکھنے کو ملتے ہیں۔ تاہم مندر کا احاطہ ایک مکمل کمپلیکس کی صُورت میں تعمیر کیا گیا ہے۔ یہاں یاتریوں کے لیے درجنوں کمروں پر مشتمل رہائشی عمارتیں بنائی گئی ہیں۔ حکومت کی جانب سے وہاں ایک ایمبولینس بھی موجود تھی۔
اِسی طرح ہنگلاج ماتا مندر اور کالی ماتا مندر میں، جو پہاڑ کے نیچے بنائے گئے ہیں، اعلیٰ قسم کی ٹائلز لگی دیکھیں۔ یہ کمپلیکس اور اس سے متصل علاقہ اِس قدر پُرامن ہے کہ وہاں ہمارے گھومنے پِھرنے پر کسی نے باز پُرس نہیں کی، جب کہ ہم نے مندر سے واپسی کا سفر غروبِ آفتاب کے وقت کیا۔
اِسی مندر سے کچھ فاصلے پر کوسٹل ہائی وے سے سپٹ بندر کی طرف مٹّی کا آتش فشاں واقع ہے، جہاں سے کیچڑ اُبلتا ہے۔ ہندو یاتری ہنگلاج مندر جانے سے قبل یہاں بھی آتے ہیں اور اُبلتے کیچڑ میں ناریل ڈالتے ہیں۔مٹّی کے اِس آتش فشاں کو وہ’’چندر گپ‘‘ کا نام دیتے ہیں۔
مذکورہ آتش فشاں انتہائی بلندی پر واقع ہے، جہاں تک جانے کے لیے پختہ سیڑھیاں تعمیر کی گئی ہیں۔ بلوچستان میں واقع ہندوؤں کے اِن مقدّس مقامات کی طرف یوں تو سال بَھر یاتری جاتے رہتے ہیں، تاہم اپریل میں سالانہ میلے کے موقعے پر تو یاتریوں کی بہت گہماگہمی ہوتی ہے، جنہوں نے کبھی خود کو غیر محفوظ نہیں سمجھا اور یہ سلسلہ برسوں سے جاری ہے۔
اِسی طرح سندھ میں مقیم اقلیتوں میں ہندوؤں کی تعداد سب سے زیادہ ہے اور ان کے صدیوں پرانے مندر نہ صرف کراچی کے قدیم علاقوں میں واقع ہیں، بلکہ اندرونِ سندھ، بالخصوص تھرپارکر اور عُمرکوٹ میں بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ تھرپارکر کے ضلعی صدر مقام، مٹھی شہر میں جہاں مساجد کے مینار نظر آتے ہیں، وہیں ہر طرف مندروں کے گنبد بھی دِکھائی دیتے ہیں۔ سندھ کے اِن شہروں میں مسلمان اور ہندو برسوں سے ایک ساتھ رہتے چلے آ رہے ہیں۔
دوسری جانب پنجاب میں سِکھوں کے کئی مقدّس مقامات واقع ہیں، جہاں بھارت سے بھی سِکھ یاتری آتے رہتے ہیں اور چند سال قبل کرتار پور کوریڈور بھی بنایا گیا، جو اِس خطّے میں مذہبی سیّاحت کی ایک انوکھی مثال ہے۔ مُلک کے تمام حصّوں میں وہ مقامات، جو کسی بھی مذہب کے حاملین کے لیے اہمیت کے حامل ہیں، نہ صرف قائم ہیں، بلکہ محفوظ بھی ہیں۔
بھارت میں پاکستان مخالف منفی پراپیگنڈے کے پیچھے محض سیاسی مقاصد کارفرما ہیں۔ اگر پاکستان میں مذہبی سیّاحت کو فروغ دیا جائے، تو ہندو عقیدت مندوں کی بڑی تعداد اپنے مقدّس مقامات کا دَورہ کرسکے گی، جس سے پاکستان کے حوالے سے پھیلائے گئے منفی تصوّرات کا سدّ ِباب بھی ممکن ہو سکے گا۔