ذکر اِک ’’ پری وش‘‘ کا اور پھر عظیم المرتبت، سکہ بند دانشور الطاف حسن قریشی کا بیاں، مرزا غالب جہاں اپنے پری وش کو غیر معمولی رفعت عطا کرتے ہیں، وہاں اپنے قلم کی شوکت پر بھی نازاںہیں مگر محترم الطاف حسن قریشی کے ہاں معاملہ اُلٹ ہے۔ اُن کا پری وش اُن کے دل و دماغ پر یوں چھایا ہے کہ خودداری کے سب پیرائے اُس کی تابندگی میں تحلیل ہو گئے ہیں۔ سراپا انکسار، مرنجانِ مرنج، گویا کوہِ ہمالیہ کے نیچے دبے، ذات الطاف اپنے سارے الطافات کے ساتھ پری وش کے قدموں میں ڈھیر نظر آتی ہے۔الطاف حسن قریشی صاحب کی تازہ تصنیف ’’پیارے مولانا‘‘ اُنہوں نے اپنے دستخط کے ساتھ مرحمت فرمائی۔ کتاب ہاتھوں میں آئی تو ایک ہی نشست میں پڑھ ڈالی کہ انہماک نے پلک جھپکنے نہ دی۔ یہ جواہر پاروں کا مجموعہ دراصل سیدی و مرشدی کی سیرت و کردار کا معمولی پر تو دکھا پائی ہے۔ الطاف صاحب نے بحرِ بیکراں سے کوزہ بھر سہی، مگر ہر لفظ، ہر قطرہ تشنگی کو اور بڑھا گیا۔ تحریر کا قرینہ، جذبے کی تہذیب اور عقیدت کی زبان، ایک نادر امتزاج میں ڈھل گئی ہے۔
پیارے مولانا کا جسدِ خاکی جب امریکہ سے پاکستان آتے ہوئے لندن رُکا، تو ایک دنیا جنازہ پڑھنے کی متمنی تھی۔ الطاف گوہر مرحوم اُس وقت لندن میں مقیم تھے، ٹیکسی کے ذریعے جلد از جلد جنازے میں شریک ہونا چاہتے تھے۔ ڈرائیور نے بےچینی دیکھی تو پوچھا، ’’کوئی عزیز ہے؟‘‘ جواب آیا، ’’نہیں! عزیز جہاں تھا۔‘‘ الطاف صاحب کی کتاب ’’عزیز جہاں‘‘ کا نقش بٹھاتی اجاگر کرتی ہے، نذرانۂ عقیدت اور ہدیۂ تبریک کی مختصر مگر نشہ آور تحریر وجد طاری ہو جاتا ہے۔
وطنی سیاسی مدّوجزر کے بیچ، باوجود میلان کے، خوبصورت کتابوں کو کالم میں جگہ دینا مشکل رہتاہے مگر ’’پیارےمولانا‘‘وہ نادر کتاب، آج کے کالم کی آن بان شان، کالم برطرف میری زندگی کا حصہ ہے۔ ابتدائی ابواب دو قیمتی انٹرویوز سے مزین ہیں، جب کہ باقی ابواب میں چند نابغہ روزگار اہلِ قلم کی تحریریں شامل ہیں۔ محترم مجیب الرحمن شامی کے دو مضامین — ایک جامع، دوسرا مختصر مگر نگینے کی طرح جڑا ، چار چاند کتاب کومزید آٹھ چاندلگادئیے ہیں۔
کتاب کے آخری ابواب میں چند مشاہیرکے ’’پیارے مولانا‘‘ سے والہانہ ربط و عقیدت کے قصے پڑھے تو دل و دماغ ماضی کے سنہری دریچے میں اُتر گیا۔ یادوں کی دھند میں وہ دن پھر جاگ اُٹھے،ایک بھرپور مسلم لیگی سیاسی گھرانے میں آنکھ کھولی۔ ابتدا ہی سے سیاست کا ذوق غالب رہا، مطالعے نے رفتہ رفتہ مجھے پیارے مولانا کی تحریروں کے قریب کر دیا۔ ان کی کتابیں پڑھتے ہوئے یوں محسوس ہوا جیسے دل کے کسی گوشے میں سوئی ہوئی روح اچانک انگڑائی لے کر جاگ اٹھی ہو۔یہ غالباً 1971ء کا زمانہ تھا۔ جوش و خروش نے جماعتِ اسلامی کے دروازے تک پہنچایا۔ وہاں سے پیارے مولانا کا اتا پتا معلوم کیا اور ایک طویل خط لکھ بھیجا۔ چند سطروں پر مشتمل مولانا کا جواب میرے لیے زندگی کا سب سے قیمتی انعام بن گیا۔ کئی راتیں خط سرہانے کے نیچے سرشاری اور آسودگی کا وسیلہ بنا رہا۔
بیسویں صدی کے تین بڑے دیدہ ور، علامہ اقبال، مولانا مودودی اور سید قطب، کا کمال اس سطح تک پہنچا کہ حدیث، قرآن اور فقہ میں ان کا علم اتنا پختہ تھا کہ ان کا تقابلی جائزہ امام تیمیہ، ابن قیم، امام غزالی اور شاہ ولی اللہ کے ساتھ کیا جاتا ہے، جہاں اٹھارویں، انیسویں اور بیسویں صدی میں جس نئے فلسفے سے انسانی عقل پہلے کبھی متعارف نہ تھی، وہ جدید فکری چیلنجز اٹھارویں سے بیسویں صدی کے فکری منظرنامے پر ابھرے اور تمام مذاہب کی روایات کو متزلزل اور بعض اوقات ہلکان کر دیا، جدید اسلامی فکر اور تجدیدی شعور کو سمجھنےکیلئےلازم ہے کہ ان نئے، نویلے فکری، فلسفیانہ اور سائنسی چیلنجز کا جائزہ لیا جائے جنہوں نے مغرب میں عقل، تجربہ، سائنس اور مادیت پر مبنی ہمہ گیر تصورات جنم دیے اور مذہبی تعبیرات کے مقابل ایک نئی فکری دنیا قائم کی، ان تین صدیوں کو ’’عہد روشن خیالی‘‘ کہا جائے گا، جب انسانی عقل نے مذہب کے بجائے سائنس، تجربہ اور منطق کو حاکمِ اعلیٰ قراردے دیا ، جان لاک نے سماجی معاہدےکا نظریہ پیش کیا، جس سے حکومت کی مشروعیت عوام کی رضامندی سے منسلک ہوئی اور مذہب کو تابع بنایا گیا، روسو نے فرد کی آزادی اور اجتماعی ارادے کو اہمیت دی جس سے سیاسی نظاموں میں جمہوری تصورات کو فروغ ملا، مونتسکیو نے ریاستی اختیارات کی تقسیم کا اصول پیش کیا، جس نے آج کے تمام جمہوری دساتیر کی بنیاد رکھی، کارل مارکس نے جدلیاتی مادیت اور طبقاتی جدوجہد کو بنیاد بنایا، جس سے معاشرتی نظاموں میں اقتصادی عدم مساوات اور سماجی اصلاح کے مکالمے پیدا ہوئے، آگسٹ کومٹے نے علم الاجتماع کی بنیاد رکھی، جس سے سماجی علوم کو ایک آزاد اور منظم میدان ملا، ڈارون نے نظریۂ ارتقاء پیش کیا، جس نے انسانی وجود اور حیاتیات میں تبدیلی کے فلسفیانہ اور سائنسی پہلو اجاگر کیے، نطشے نے خدا کےنہ ہونے کا اعلان کیا اور فوق البشر کے تصور سے اخلاق و مذہب کو چیلنج کیا، اس سے مغربی معاشرت میں فرد پر انحصار اور اخلاقی خودمختاری کے تصورات فروغ پائے، اور سگمنڈ فرائیڈ نے نفسیات کے میدان میں انسانی ضمیر اور لاشعور کی نئی تعبیر پیش کی، جس سے انسانی نفسیاتی کشمکش، ثقافتی اور معاشرتی رویوں کی سمجھ ممکن ہوئی اور فرد کی اندرونی خواہشات کو مادیت پر مبنی رہنما اصول بنایا، برٹرینڈ رسل نے منطق اور فلسفۂ علم میں نئے اصول دیے، جبکہ جدید نظریات اور فکری ترقی نے مذہب کو رکاوٹ جانا اور اس کی بیخ کنی کی راہ میں تحریک پیدا کی، اس سے پہلے کسی دور میں اسلامی فکر اور نظریہ ایسے انوکھے، نویلے خیالات اور جدید تعلیم سے آراستہ زاویوں سے کبھی واسطہ نہ پاتا، علامہ اقبال، مولانا مودودی اور سید قطب نے اس چیلنج کا مقابلہ نہ صرف منفرد انداز میں کیا بلکہ اسلام کو ایک مکمل ضابطۂ حیات کے طور پر پیش کیا، مغرب کے جدید فلسفہ اور لبرل ازم کے راج میں اسلامی دنیا کیلئے ایک مضبوط فکری اور عملی پلیٹ فارم قائم کیا، تین صدیوں پر پھیلا یہ فکری سفر اسلامی مفکرین کیلئے آزمائش اور مکالمے کا مرحلہ رہا، جسے انہوں نے بخوبی طے کیا، مولانا مودودی نے اسلام کو صرف عبادت نہیں بلکہ ایک مکمل نظامِ حیات کے طور پر پیش کیا، سرمایہ داری اور اشتراکیت کے فکری چیلنجز کا مقابلہ کیا، الطاف حسن قریشی کی کتاب ’’پیارے مولانا‘‘میں یہ سب درج ہے، جیسے سمندر کو کوزے میں بند کر دیا گیا ہو۔
پہلے جتنے محقق و مجدد آئے، شاہ ولی اللہ نے مذہب کو عقل، اخلاق اور شریعت کے امتزاج سے سمجھایا، ابن تیمیہ اور ابن قیم نے اسلام کو عملی شریعت اور اخلاقی اصلاح کے زاویے سے پیش کیا، الغزالی نے تاریخ و سیرت کو اخلاقی و فکری سبق کے لیے استعمال کیا، امام تیمیہ، ابن قیم، الغزالی، شاہ ولی اللہ اور ابن خلدون نے اسلام اور تاریخ کو معاشرتی اور سیاسی قوانین کے تناظر میں بیان کیا، سب مفکرین نے اسلام کو ایک ہمہ گیر نظامِ حیات کے طور پر اجاگر کیا، اللہ، وحی اور عدلِ اجتماعی کو مرکز قرار دیا اور انسان کو اس کے حقیقی مقام، قرآن و سنت کے پیمانے پر واپس لانے کی کوشش کی، اسلام کی اصل قوت دلیل، روحانیت اور اخلاقی استقامت میں پوشیدہ ہے، نہ کہ اندھی تقلید یا ماضی پرستی میں۔مولانا مودودی کی فکری جدوجہد اسی طویل فکری جنگ کا حصہ تھی، جس نے انسانی عقل کو دوبارہ الہامی اور اخلاقی مرکز سے جوڑنے کی کوشش کی، بلکہ جدید افکار، نظریات، الحاد اور لبرل ازم کے سامنے اسلام کیلئے ایک مضبوط سیسہ پلائی دیوار کے طور پر ثابت ہوئی، تفسیر قرآن و حدیث، تجدید، احیائے دین، اخلاقیات، معاشیات اور جدید علوم پر درجنوں ضخیم کتابیں لکھی گئیں، اور الطاف حسن قریشی نے ’’پیارے مولانا‘‘ میں بالکل درست فرمایا کہ مولانا مودودی کا کام آنے والی کئی صدیوں تک رہنمائی کرے گا اور باطل نظریات کو چیلنج کرتا رہے گا، مولانا کا فکری کام ایک سیسہ پلائی دیوار ثابت ہوگا۔
شذرہ: خاطر جمع!27ویں آئینی ترمیم وطن عزیز میں موجود سیاسی عدم استحکام کو مستحکم اور Institutionalise کر گئی ہے۔