• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چشم تصور مجھے ماضی کے جھروکوں میں لے گئی۔ کیسے بڑے لوگ ، کیسی نابغہِ روزگار ہستیاں۔ علامہ محمد اقبال ، محمد علی جناح ،سید ابوالاعلی مودودی، نواب کالا باغ ، حسین شہید سہروردی ،چوہدری خلیق الزمان ، سید عطاء اللہ بخاری ، نواب بہادر یار جنگ ، میاں طفیل محمد اور نہ جانے اور کتنے سروقد قائدین ۔مینار پاکستان پکاریں ، یاد گار پاکستان کہہ لیں۔ یہ ایک لازوال جدوجہد، ایک عہد اور داستان کی کہانی و نشانی ہے۔ علامہ اقبال خواب دیکھتے، محمد علی جناح اسے تعبیر بخش کر قائداعظم کہلائے جاتے ہیں۔ سہروردی نے قرار داد پیش کی تھی۔ نواب بہادر یارجنگ اس جدجہد کا حصہ تھے، خواب کی تعبیر سے تین سال قبل رب کے پاس واپس پہنچ گے مگر بیدار مغز و نبض شناسا نواب نے جو کہا تھا وہ ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔تحریک پاکستان کے ایک جلسے میں محمد علی جناح کو مخاطب کرکے نواب بولے۔ آپ کی ولولہ انگیز قیادت میں ہم پاکستان حاصل کرلینگے، مگر(اسٹیج پر بیٹھی مسلم لیگی قیادت کی طرف اشارہ کرکے کہا) کچھ کھوٹے سکے یہ لوگ اسے پاکستان نہیں بننے دینگے۔

قرارداد پاکستان کی منظوری کے سوا سال بعد سید مودودی نے اقامت دین کی تحریک جماعت اسلامی کی بنیاد رکھی۔ دینی جماعتیں اور مذہبی شخصیات موجود تھیں مگر اقامت دین( زندگی کے ہر شعبے میں دین کے نفاز کی تحریک ) کا سہرا سید مودودی کو جاتا ہے۔جماعت اسلامی پُرامن جدوجہد کے ذریعے معاشرے میں اللہ اور رسول کی شریعت کے نفاذ کے لئے قیام سے اب تک مصروف عمل ہے۔ سید مودودی کی فکر پوری دنیا میں نفوذ کرچکی مگر افسوس کہ پاکستان میں انگریز کی باقیات حکمراں اشرافیہ و بیوروکریسی نے اقامت دین کی اس تحریک کے پارلیمان میں داخلے کی راہیں مسدود بنائیں۔پارلیمان اقامت دین کے لئے سب سے مضبوط پلیٹ فارم ہے مگر جماعت اسلامی کی جدوجہد کسی ایک محاذ تک محدود نہیں۔

سید مودودی رحمتہ اللہ کو اس جدوجہد کی بنا پر طویل قید و بند ہی نہیں موت کی سزا تک سنائی گئی۔ جماعت اسلامی پر پابندی لگی، ساری مرکزی قیادت قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرتی رہی ۔ ہر دور میں جماعت فوجی و سول حکومتوں کے انتقام کا نشانہ بنتی رہی مگر سید مودودی ہوں، درویش صفت میاں طفیل محمد یا سیماب صفت قاضی حسین احمد ، عزم و حوصلہ کے مالک اور اپنی مثال آپ سید منور حسن یا مرد کوہستانی سراج الحق ہوں سب نے اپنی صلاحیتوں اور بصیرت کے مطابق اس قافلہ کی قیادت کا حق ادا کیا۔

کراچی جماعت اسلامی کا شہر تھا مگر ظالم آمروں نے جماعت اسلامی سے جان چھڑانے کے لئے روشنیوں کا شہرعروس البلاد کراچی لسانی اور فسطائی تنظیم کے حوالے کرکے اسے اندھیروں اور گڑھوں کی نذرہی نہ کیا اُس کا سَکھ چین چھین لیا۔ جماعت اسلامی و اسلامی جمعیت طلبہ نے روشنی و امن کی بحالی کے لئے کئی جانیں وار دیں ، بہت بھاری قیمت ادا کرکے ایک بار پھر لوگوں کی حقیقی آواز بنی ۔

طعنہ دیا جاتا تھا کہ جماعت کے بیلٹ باکس تو خالی رہتے ہیں ۔ حافظ نعیم الرحمن عشرہ بھر کراچی کے امیر رہے، اُن کی شبانہ روز جدوجہد ، بصیرت اور حکمت عملی کے نتیجے میں بلدیاتی انتخابات میں جماعت اسلامی ایک بار پھر سب سے بڑی جماعت بن کر ابھری، مگر افسوس کہ حقیقی قوت کی بجائے اقتدار انھیں بخشا گیاجِن کا خون تزئین گلستان میں شامل نہیں تھا۔ اپنے قیام سے اب تک(ضیاءالحق کا دور چھوڑ کر) پیپلزپارٹی ، اسٹیبلشمنٹ کی اے ٹیم رہی ، سندھ جو کھنڈر اور بدامنی کے باوجود بار بار اسٹیبلشمنٹ کی تائید سے پی پی کو ملتا ہے اور اب آزاد کشمیر میں اقتدار کی راہداریوں میں اُن کے داخلے کی راہیں آسان بنا کر یہ ثابت ہوا کہ پی پی ، اے ٹیم نہیں بلکہ اے پلس ہے۔

انجیئنر نعیم الرحمن سید مودودی کے وہ وارث ہیں جو قنوطیت کا شکار ہوئے نہ بددل۔وہ امیر بنے تو مہنگائی لوگوں کو خود کُشیوں تک لے جا چکی تھی، قوم لاتعداد مسائل کا شکار تھی، تیل ، بجلی وگیس عام آدمی کیا، کھاتے پیتے لوگوں کی دسترس سے باہر ہورہا رہا تھا، بین الاقوامی محاذ پر غزہ میں ایسا ظلم و جبر بپا تھا جس کی نظیر تاریخ انسانی میں ملنا دشوار ہے۔ حافظ نعیم الرحمن بیک وقت کئی محاذوں پر جُت گئے۔ انتخابی دھاندلی کا زیادہ شکار کوئی اور ہوا مگر اس بددیانتی کیخلاف توانا آواز حافظ نعیم بنے، بجلی کی قیمتوں اور آئی پی پیز پر نوازشات کیخلاف تاریخی دھرنا انھوں نے دیا۔ غزہ میں مظالم کیخلاف تاریخ ساز مارچوں کی قیادت کرتے حافظ نعیم نظر آئے۔حکمران طبقے کی ہوس اقتدار اور غلط پالیسوں کے نتیجے میں بے روزگاری کا شکار نوجوان نسل ایسی بددل ہوئی کہ پُر خطر سفر اختیار کر کے ملک چھوڑ کر بھاگنے پر مجبور ہو گئی ۔

شکوۂ ظُلمتِ شب سے تو کہیں بہتر تھا

اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے

امیر جماعت حافظ نعیم کی ٹیم کا اہم حصہ ہوتے ہوئے میں دیکھتا ہوں کہ شکوے سے زیادہ وہ اپنی اور اپنے قافلے کی توانائیاں شمعیں جلانے پر صرف کررہے ہیں۔کہیں بنو قابل کا شاندار پروگرام لیکر آگے بڑھتے اور کہیں وہ معیشت کی ریڑھ کی ہڈی زراعت کی صورت حال بہتر بناتے کسان کاروں کی قیادت کرتے نظر آتے ہیں۔

چشم تصور مجھے قرارداد و یاد گار پاکستان لے گئی تھی تو آج پھر مجھے بدل دو نظام کی صورت ایک اور قرارداد اکیس تا تیئس نومبر منظور ہوتی نظر آرہی ہے۔ نواب بہادر یارجنگ کو کچھ کھوٹے سکے نظر آئے تھے مگر میں اپنے رب کا ایک عاجز بندہ دیکھ رہا ہوں کہ سید مودودی کے اس قافلے کے راہی ، حافظ کے ’’ کھرے سکے‘‘انشاء اللہ اس اجتماع سے ولولہ و مہمیز لیکر جائیں گے۔ بدل دو نظام ایک نعرہ نہیں بلکہ ایک تحریک بنے گی

( کالم نگار جماعت اسلامی پاکستان کے سیکریٹری اطلاعات ہیں)

تازہ ترین