رواں برس مُلک بَھر میں موسمِ سرما کے مقبولِ عام خُشک میوے، چلغوزے کی قیمت میں ریکارڈ کمی واقع ہوئی ہے اور یہ 8ہزار روپے فی کلو تک سستا ہوگیا ہے۔ تاہم، چلغوزے کی قیمت میں اس تاریخی کمی کے نتیجے میں شمالی بلوچستان کے مقامی تاجروں سمیت اُن سیکڑوں افراد کا واحد ذریعۂ معاش شدید متاثر ہوا ہے کہ جو پورا سال اس مشہورِ زمانہ خُشک میوے کی منافع بخش فصل ہی پرگزربسر کرتے ہیں۔
گزشتہ کئی دہائیوں سے چلغوزے اور دیگر خُشک میوہ جات کے کاروبار سے وابستہ تاجروں کا کہنا ہے کہ رواں برس چلغوزے کی قیمت میں غیر معمولی کمی نے نہ صرف تاجروں بلکہ چلغوزے کی پیداوار پر انحصار کرنے والے جنگلات کے مالکان اور مقامی قبائل کو بھی شدید نقصان سے دوچار کیا ہے۔
ان کے مطابق، گزشتہ سال ژوب کی مقامی منڈی میں چلغوزہ7 ہزار روپے فی کلو تک فروخت ہو رہا تھا، مگر رواں سیزن میں اس کی قیمت کم ہو کر ڈیڑھ سے دو ہزار روپے فی کلو تک پہنچ گئی ہے، جس کے نتیجے میں کوہِ سلیمان کے دامن میں آباد قبائل اپنے مستقبل کے حوالے سے بےیقینی کے شکار ہیں۔
قیمت میں کمی کی وجوہ
مقامی تاجروں کے مطابق چلغوزے کی قیمت میں غیر معمولی کمی کے اسباب میں ہم سایہ مُلک، چین کو چلغوزے کی برآمد میں تعطّل، موسمیاتی تبدیلی کے باعث بارشوں میں واضح کمی، حکومتی عدم توجّہی، ناکافی وسائل اور ژوب میں چلغوزے ذخیرہ کرنے کے لیے کولڈ اسٹوریج کی عدم موجودگی شامل ہیں۔
اُن کا کہنا ہے کہ ماضی میں لاہور میں قائم دو بڑے گوداموں کو پہنچنے والے نقصان کا تاحال ازالہ نہیں ہوسکا۔ اُن میں سے ایک گودام ڈاکوؤں نے لوٹ لیا تھا، جب کہ دوسرا گودام حُکّام نے افغان درآمدات کے نام پرغیر قانونی قرار دے کر سِیل کردیا، جس کے نتیجے میں تاجروں کو مجموعی طور پر تقریباً ڈیڑھ ارب روپے کا نقصان ہوا، جب کہ ژوب میں چلغوزے ذخیرہ کرنے کے لیے کولڈ اسٹوریج کی عدم موجودگی کے سبب تاجروں اور مقامی باشندوں کو اس خُشک میوے کو مجبوراً فوری اور کم قیمت پر فروخت کرنا پڑتا ہے، کیوں کہ اگرچلغوزے کوزیادہ دیر تک ذخیرہ کیا جائے، تو اس کا وزن اور معیار متاثر ہوجاتا ہے۔
کوہِ سلیمان اور خالص چلغوزے کے جنگلات
کوہِ سلیمان میں دُنیا کےسب سے بڑے چلغوزے کے جنگلات پائے جاتے ہیں۔ بدقسمتی سے چند سال قبل یہاں لگنے والی آگ نے ہزاروں قیمتی پَھل دار درختوں کو شدید نقصان پہنچایا۔
اقوامِ متّحدہ کے ادارہ برائے خوراک و زراعت کے اعداد وشمار کے مطابق، پاکستان دُنیا میں چلغوزے پیدا کرنے والا پانچواں بڑا مُلک ہے، جو اس خُشک میوے کی عالمی طلب کا تقریباً پندرہ فی صد حصّہ پورا کرتا ہے اور اس میں سے تقریباً 74 فی صد پیداوار کوہِ سلیمان کے جنگلات سے حاصل ہوتی ہے۔
ایف اے او کے مطابق، کوہِ سلیمان کے 26ہزار ایکڑ رقبے پر پھیلے جنگلات سے سالانہ تقریباً 6لاکھ 40ہزار کلوگرام چلغوزہ حاصل ہوتا ہے۔ گرچہ جنوبی وزیرستان، چترال اور گلگت بلتستان میں بھی چلغوزے کے جنگلات پائے جاتے ہیں، لیکن کوہِ سلیمان کا پہاڑی سلسلہ وہ واحد علاقہ ہے کہ جہاں خالص چلغوزے کے درخت پائے جاتے ہیں۔
پیداوار اور برآمدات
عام طور پر چلغوزہ کوہِ سلیمان، تورغر، شین غر اور ژوب کے علاقے، گستوئی کے دُشوار گزار پہاڑوں کے راستے پہلے ژوب شہر میں لایا جاتا ہے، جہاں سے اِسے دیگر شہروں خصوصاً لاہور اور پھر وہاں سے دیگر تاجروں کے ذریعے چین برآمد کیا جاتا ہے۔ تاہم، رواں سال چین کو چلغوزے کی برآمد تعطّل کا شکار ہے، جس کے نتیجے میں مقامی مارکیٹ پر منفی اثرات مرتّب ہوئے ہیں۔
اس ضمن میں مقامی تاجروں کا کہنا ہے کہ چلغوزے کے کاروبار سے منسلک اکثر افراد غریب طبقے سے تعلق رکھتے ہیں، جن کا تمام تر انحصار اسی خُشک میوے پر ہے اور حکومت کو مذکورہ بالا مسائل کے حل کے لیے فوری طور پر عملی اقدامات کرنے چاہئیں۔
مزدوروں کی مشکلات
ہرسال سیکڑوں مزدورکوہِ سلیمان سے چلغوزے جمع کرنے کے لیے اپنی جانوں کو خطرے میں ڈال کر بلند و بالا اور دُشوار گزار پہاڑوں پر چڑھتے ہیں اور اس دوران کسی قسم کے حفاظتی آلات یا سہولتیں نہ ہونے کے سبب کئی مزدور پائن کے اونچے درختوں سے گر کر زخمی بھی ہوجاتے ہیں۔
نیز، کئی جانوں سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتےہیں۔ دوسری جانب جب چلغوزہ ژوب سے مُلک کی دیگر منڈیوں میں منتقل کیا جاتا ہے، تو اِس دوران راستے میں مختلف مقامات پر تاجروں کو بِلاجواز روکا جاتا ہے اور ٹیکس ادا کرنے کے باوجود تنگ کیا جاتا ہے۔
مقامی تاجروں کا کہنا ہےکہ حکومت اور متعلقہ ادارے اس معاملےکا فوری نوٹس لیں۔ نیز، اگر حکومت کولڈ اسٹوریج، جدید ذرائع نقل وحمل اور برآمدی سہولتیں فراہم کرے، تو چلغوزے کا کاروبار نہ صرف بلوچستان بلکہ پورے مُلک کی معیشت کو فائدہ پہنچا سکتا ہے۔
جغرافیائی محلِ وقوع
کوہِ سلیمان کوئٹہ سے تقریباً چار سو کلومیٹر کے فاصلے پر ضلع ژوب، ضلع شیرانی، اور خیبرپختون خوا کے ضلع، ڈیرہ اسماعیل خان کے سنگم پر واقع ہے۔ شیرانی پہلے ژوب کی تحصیل تھی، جسے دو دہائیاں قبل الگ ضلع بنا دیا گیا اور اس کا ضلعی مرکز، ستنوراغہ میرعلی خیل ہے، جو ٹانک سے متّصل ہے۔
بنیادی سہولتوں کی کمی سے دوچار مقامی قبائل
گرچہ کوہِ سلیمان کےدامن میں صدیوں سے آباد قبائل چین اور خلیجی ممالک کو ہر سال ہزاروں من چلغوزہ برآمد کرتے ہیں، مگر یہ قبائل آج بھی زندگی کی بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں۔ مٹی، پتّھر اور لکڑی سے بنے گھروں میں رہنے والے یہ لوگ نہ صرف تعلیم، صحت، بجلی اور سڑکوں کے بغیر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں بلکہ انہیں پینے کا صاف پانی تک میسّر نہیں۔
اِس ضمن میں مقامی باشندوں کا کہنا ہے کہ وہ دَورِ جدید میں بھی پتھر کے زمانے کی انتہائی سادہ اور پُرمشقّت زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ صدیوں سے جاری چلغوزے کی تجارت سے اُن کی زندگی میں نہ کوئی بہتری آئی اور نہ کبھی حکومت یا کسی غیرسرکاری ادارے نے آج تک اُن کی حالتِ زار پر توجّہ دی ہے۔
پائے دار معاشی ترقّی کی ضرورت
مقامی تاجروں کا کہنا ہے کہ اگر حکومت چلغوزے کے کاروبار سے وابستہ افراد کو ترجیحی بنیادوں پر سہولتیں فراہم کرے اور برآمدات کی راہ میں حائل رکاوٹیں دُور کردے، تو کوہِ سلیمان کا چلغوزہ نہ صرف ماحولیاتی تحفّظ کا ضامن، بلکہ پائے دار معاشی ترقّی کا ایک کلیدی ذریعہ بھی بن سکتا ہے۔