• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عدلیہ کی تباہی کے ذمہ دار اور نظام عدل میں آئینی ترامیم

پی-ٹی-آئی ماضی بھول جانے کے لاعلاج مرض میں مبتلا ہے، ایسے گناہ جو انہوں نے اپنے دور اقتدار میں کئے ہوتے ہیں، پہلے تو غلط کو درست ثابت کرنے کی کوششیں کرتے اور پھر ان کے سرزد ہونے سے ہی منحرف ہوجاتے ہیں کیونکہ’’قائد تحریک‘‘ کا یہ ایمان ہے کہ جھوٹ اتنی زور سے بولو کہ وہ سچ لگنے لگے یہی سیاسی کامرانی کا راز ہے۔

نظام عدل میں آئینی اصلاحات کے بعد پی-ٹی-آئی نے انصاف، قانون اور آئین کی بالادستی میں جو قصیدہ گوئی کی ہے اس کی مثال جمہوریت پسندوں کی دنیا میں کہیں نہیں ملتی۔ اپنے سیاہ ماضی کو فراموش کرکے جس انداز میں اسمبلیوں اور ٹی وی چینلوں جو طوفان اٹھا رکھا ہے اس کی نظیر بھی کہیں نہیں۔عدلیہ کی بالادستی کے نام پر عدل اور عدلیہ کی جس قدر بے توقیری انہوں نے کی اسے اپنے ماتھے کا ’’ٹیکا‘‘ بنا کر جو واویلا کر رہے ہیں اس کے جواب میں زیرک سیاستدان یہی کہتے ہیں کہ آئین میں عدالتی اصلاحات کے لئے جو ترامیم کی گئی ہیں وہ پی-ٹی-آئی کے اپنے دور حکومت میں عمران خان کے اشاروں پر’’رقص‘‘ کرنے والے ’’نظام عدل‘‘ جس کے تخلیق کار ثاقب نثار اور عمر عطا بندیال تھے، میں ترامیم و اصلاح کرکے عدل کو آئین کے دائرے میں لانا ضروری تھا ورنہ اس ملک میں عدل و انصاف کی ’’روسیاہی‘‘ کے لئے ثاقب نثار اور عمر عطا بندیال پیدا ہوتے رہیں گے۔

’’دورعمرانی‘‘ کی تاریخ میں ایسی کئی مثالیں جلی حروف سے تحریر ہیں جن سے عمران خان اور ان کے نزدیک’’انصاف‘‘ کے معنی اور مقاصد کی قلعی کھلتی ہے۔اگر پی-ٹی-آئی کے رہبروں کو اپنے دور اقتدار کی ’’آمرانہ جمہوریت‘‘ کے کارنامے یاد ہوں تو انہیں یہ بھی یاد ہوگا کہ ثاقب نثار اور عمر عطا بندیال کی صورت میں عدل و انصاف عمران خان کے ’’گھر کی باندی‘‘ تھے۔

عمران خان کے دورِ حکومت 2018-2022) )میں بعض اہم عدالتی فیصلوں اور جج صاحبان کے طرزِ عمل پر عوامی اور سیاسی حلقوں کی طرف سے شدید تنقید دیکھنے میں آئی۔ تنقید کا مرکز خاص طور پر ثاقب نثار اور ان کے بعد آنے والے چیف جسٹس عمر عطا بندیال رہے ہیں۔انہوں نے قانون سازی اور انتظامی امور میں غیر معمولی مداخلت کی، جو آئینی طور پر مقننہ اور انتظامیہ کے دائرہ کار میں آتے ہیں۔

سیاسی مخالفین کا کہنا ہے کہ ان کے بعض فیصلے، جیسے کہ عمران خان کو صادق اور امین قرار دینا اور بعض دیگر سیاسی مقدمات میں ان کی بریت، بظاہر عمران خان کی حکومت کو فائدہ پہنچانے کا تاثر دیتے تھے۔ناقدین ان پرسیاسی انجینئرنگ کے الزامات بھی لگاتے ہیں۔

جسٹس عمر عطا بندیال کے دور میں عدالتی تقسیم کھل کر سامنے آئی اور آئینی معاملات میں عدالتی بحران گہرا ہو گیا۔ ان کے فیصلوں پر تنقید کرنے والے کہتے ہیں کہ سابق ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کو کالعدم قرار دینے کے فیصلے پر بعض حلقوں نے اختلاف کیا۔یہ تاثر عام ہوا کہ مخصوص ججوں پر مشتمل بینچ بنائے جا رہے ہیں جو کہ پی ٹی آئی کے حق میں فیصلہ دے سکتے ہیں۔ جسٹس بندیال پر الزام لگایا گیا کہ انہوں نے سینئر ججوں کو نظرانداز کیا اور اہم آئینی معاملات پر ایسے بنچ تشکیل دئیے جن میں ان کے ہمخیال ججز شامل تھے۔ ناقدین کے مطابق، انتخابی تاریخ سے متعلق ان کے سخت فیصلوں نے حکومت اور عدلیہ کے درمیان تقسیم کو بڑھا دیا اور ملک کو ایک آئینی بحران کی طرف دھکیل دیا۔ ایک مضبوط مؤقف یہ رہا ہے کہ ان دونوں جج صاحبان اور ان کے ساتھیوں نے پاکستان کے آئین کی روح اور انصاف کے بنیادی اصولوں کو مجروح کیا ہے۔خاص طور پر پارلیمانی خودمختاری اور وفاقی ڈھانچے پر ان فیصلوں کے اثرات پر گہری تشویش کا اظہار کیا گیا، جس سے بظاہر جمہوری عمل کو کمزور کیا گیا۔سیاسی مقدمات میں عدلیہ کی مداخلت کو کچھ حلقوں نے ماضی کے ’’نظریہ ضرورت‘‘ کے احیاء سے تعبیر کیا، جس کا مقصد کسی مخصوص سیاسی فریق کو تقویت پہنچانا تھا۔ان اقدامات نے پاکستان کی عدلیہ کی آزادی اور غیر جانبداری پر ایک مستقل سوالیہ نشان لگادیا، کیونکہ فیصلے انصاف کے بجائے سیاسی مفادات کی عکاسی کرتے محسوس ہوئے۔ یہ مؤقف بھی سامنے آیا کہ عدلیہ سیاسی جماعتوں کے دباؤ میں کام کر رہی تھی اور ان کی مداخلت کی اصل وجہ یہ تھی کہ دیگر ریاستی ادارے (جیسا کہ الیکشن کمیشن یا پارلیمنٹ) اپنے آئینی فرائض کی انجام دہی میں ناکام رہے تھے۔

جسٹس ثاقب نثار اور جسٹس بندیال کے ادوار کو پاکستانی عدالتی تاریخ میں ایک ایسے عہد کے طور پر یاد رکھا جائے گا جہاں عدالتی فیصلے نہ صرف سیاسی طور پر انتہائی متنازع بنے بلکہ انہوں نے ملک میں آئینی بحث کو بھی ایک نئی جہت دی۔ تنقیدی نقطہ نظر کے حامل افراد کے نزدیک، ان فیصلوں نے بظاہر ایک مخصوص سیاسی بیانیہ کو تقویت دی اور اس کے نتیجے میں ملک کے عدالتی اور آئینی ڈھانچے کو نقصان پہنچا۔یہ فیصلے ثاقب نثار اور دیگر ججز کے ادوار سے متعلق ہیں اور ان پر پی ٹی آئی کو فائدہ پہنچانے کے الزامات لگتے رہے ہیں۔

تازہ ترین