اس آفاقی حقیقت سے کسی کو انکار نہیں کہ اس دنیا میں آمد و رخصت کا سلسلہ ازل سے جاری ہے، ہر لمحہ نجانے کتنے انسان دھرتی پر آنکھ کھولتے ہیں اور کتنے آخری سانس لیکر رخصت ہو جاتے ہیں، تاہم تاریخ صرف ان لوگوں کو یاد رکھتی ہے جو اپنے مالک کے عطاکردہ وقت کی قدر کرتے ہیں اور دنیا میں دی گئی مہلت کو عظمت، جرات، دانش اور انسانیت کی خاطر گزارتے ہیں، ایسے مہان لوگ اپنے کردار سے سماج کو بدلتے ہیں، بہادری سے حالات کا مردانہ وار مقابلہ کرتے ہیں، اپنے نظریات سے دِلوں کو منور کرتے ہیں اور اپنے عمل سے آنے والی نسلوں کیلئےایک مثال چھوڑ جاتے ہیں۔میری نظر میں بیس نومبر کا دن اس حوالے سے خاص اہمیت رکھتا ہے کہ یہ تاریخ ہمارے خطے کی دو عظیم ترین شخصیات کی یاد کو تازہ کرتی ہے، آج بیس نومبر کی تاریخ کو شیرِ میسور ٹیپو سلطان جیسے دلیر، دبنگ اور بہادر حکمران کے جنم دن سے منسوب کیا جاتا ہے جس نے ہندوستان میں غیرملکی سامراج کے سامنے سر جھکانے سے انکار کیا، جب تک ٹیپو سلطان زندہ رہا، انگریز ہندوستان پرمکمل قبضے کیلئے سرتوڑ کوششیں کرتا رہا ۔اسی طرح آج ہی کے دن بیس نومبر کو ہمارے دِلوں میں ظلم، جبر اور ناانصافی کے خلاف ایک نیا حوصلہ، ہمت اور ولولہ پیدا کرنے والے فیض احمد فیضؔ جیسے انقلابی شاعر نے آخری سانس لیا۔بیس نومبر 1750ء کو جب سلطان فتح علی صاحب ٹیپو نے جنم لیا تو شاید کسی نے سوچا بھی نہ تھا کہ یہ بچہ آگے چل کر ہندوستان کی آزادی کی جنگ میں مضبوط دیوار ثابت ہوگا، اس زمانے میں برصغیر کے مختلف راجے مہاراجے نواب انگریز کے سامنے سرنگوں ہوچکے تھے، کئی نے غلامی کی راہیں چن لی تھیں، مگرشیرِ میسور ٹیپو سلطان نے انگریز سامراج کے تسلط کو قبول کرنے سے انکار کردیا۔جب انگریزوں نے 1799ء میں انکی راجدھانی سرنگاپٹم پر حملہ کیا تو ٹیپو سلطان آخری سانس تک محاذ ِجنگ پر ڈٹا رہا، ٹیپو سلطان وہ مردِ میدان تھا جسکی شہادت کے بعد انگریز کیلئے پورے ہندوستان پر قبضہ کرنا آسان ہوگیا، انگریزجنرل کا ٹیپو سلطان کی شہادت پر ٹوڈے انڈیا اِز اوورز (آج ہندوستان ہمارا ہے)اظہارِ مسرت ہماری تاریخ میں ایک تلخ یاد کے طور پر جانا جاتا ہے۔ میری نظر میں ٹیپو سلطان نے اپنی جرات و بہادری سے ثابت کردکھایا کہ سامراجی غیرملکی قوتوں کے سامنے ڈٹ جانے والا حکمران ہی قوم کی عزت کا مستحق ہے، انہوںنے رہتی دنیا کو یہ سبق دیا کہ شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سوسالہ زندگی سے بہتر ہے،ٹیپو کا یہ قول آج بھی دنیا بھر میں مزاحمت اور غیرت کی علامت سمجھا جاتا ہے۔انقلابی فکر، محبت اور مزاحمت کا استعارہ ، اُردو ادب کا روشن ستارہ، انقلابی شاعر فیض احمد فیضؔ کا شمار ہمارے ملک کے اُن عظیم شاعروں میں ہوتا ہے جنہوں نے صرف محبت کے نغمے نہیں گائے بلکہ انسانیت، آزادی، مزاحمت اور ظلم کے خلاف آواز اٹھائی، حسنِ اتفاق سے وہ آج ہی کے دن بیس نومبر 1984ء کواس دنیا سے رخصت ہوئے لیکن انکے نظریات آج بھی زندہ ہیں، دِلوں کو گرماتے ہیں اور ذہنوں کو بیدار کرتے ہیں۔ فیض کی شاعری ہرانسان کےدل میں امید جگاتی ہے، اندھیرے میں روشنی بن کر راستہ دکھاتی ہے۔ انکا ہر شعر گویا انسان کو یہ پیغام دیتا ہے کہ ظلم کا نظام ہمیشہ قائم نہیں رہ سکتا، آخرکار بہار آتی ہے اور چراغ جلتے ہیں۔مجھے یاد ہے کہ جنرل مشرف کے دور میں جب عدلیہ تحریک شروع ہوئی تو جیوٹی وی نے فیض احمد فیضؔ کی شہرہ آفاق نظم ' ’ہم دیکھیں گے‘ کواس وقت کے ملکی حالات کے تناظر میں نشر کیا تو یہ ہمت، مزاحمت اور بہادری کی راہ پر چلنے والوں کیلئے پسندیدہ ترانہ بن گئی، اس وقت ہر جلسے جلوس اور مظاہروں میں فیض احمد فیضؔ کی شاعری عوام کے دِلوں کو گرماتی تھی، اور پھر واقعی ایک دن ساری دنیا نے دیکھا کہ طاقت کے سرچشمہ عوام کی طاقت سے برسراقتدار آنے والے پیپلز پارٹی کےمنتخب وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کی رہائی کا حکم جاری کرکے خودداری، غیرت اور بہادری کی ایک تاریخ رقم کردی۔میں سمجھتا ہوں کہ فیض احمد فیض کے اشعار صبر، حوصلے اور امید کا ایک مکمل فلسفہ پیش کرتے ہیں،انکی شاعری کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے ظلم کے خلاف آواز کو محبت کے لہجے میں ڈھالا، انکی نظموں میں مزاحمت بھی ہے اور انسانیت کیلئے تڑپ بھی، یہی وجہ ہے کہ سرحدپار کے انسان دوست مظاہرین بھی اپنی جدوجہد تیز کرنے کیلئے فیض احمد فیض ؔکی لازوال شاعری کا سہارا لیتے ہیں۔ میری نظر میں شیر ِ میسور اور شاعر انقلاب دونوں کی عظیم شخصیات اس حقیقت کی زندہ مثال ہیں کہ تاریخ میں ہمیشہ وہی نام زندہ رہتے ہیں جو اپنے فکر، اپنی جدوجہد اور اپنے کردار سے انسانیت کا حوصلہ بلند کریں۔بیس نومبر کے دن ٹیپو سلطان اس دنیا میں آیا اوربرسوں بعد اسی تاریخ کو فیض احمد فیضؔ اس دنیا سے چلاگیا ۔ایک نے اپنی تلوار سے سامراج سے لڑائی لڑی،دوسرے نے اپنے قلم سے جبر کے نظام کا مقابلہ کیا۔ٹیپو سلطان نے آزادی کیلئے میدانِ جنگ میں خون بہایا،فیض نے آزادی کا فکری نقشہ تراشا۔ایک نے اپنے خون سے دھرتی کو قربانی پیش کی،دوسرے نے اپنی شاعری سے دھرتی پر خلقِ خدا کے راج کا مطالبہ کیا۔اگرچہ دونوں کا اندازِ جستجو الگ تھا مگرانکی منزل آزادی، غیرت، خودداری اور انسانیت کی سربلندی، ایک تھی۔ اِن دونوں نے ثابت کیا کہ تاریخ انہیں یاد رکھتی ہے جو اپنے دور کے چیلنجز کا سامنا سر اٹھا کر مردانہ وار کرتے ہیں اور سچ اور اصول پر ڈٹے رہتے ہیں ۔آج بیس نومبر کو ہمیں اُن عظیم شخصیات سے یہ سبق حاصل کرنا چاہیے کہ اگر مقصد عظیم ہو، ارادہ پختہ ہو اور خودداری کا دامن مضبوطی سے تھام لیا جائےتو انسان اپنی زندگی کو تاریخ کے صفحوں پرہمیشہ ہمیشہ کیلئے امر کر لیتا ہے۔