• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چین کے 21روزہ مطالعاتی‘تربیتی و سیاحتی دورے‘ وہاں گزرے ایام ‘ چینی حکام اور عوام کی پاکستان اور پاکستانیوں سے گہری محبت کو الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ صرف اتنا کہہ سکتا ہوں کہ ہم چاہیں تو چین کی پاکستان سے لازوال محبت ‘ تعاون و تجربات سے اپنی تقدیربدل سکتے ہیں۔ صحافتی و بین الاقوامی‘ سیاحتی تجربے و مشاہدے کی بنیاد پر میں یہ دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ چین وہ واحد ملک ہے جسکی قیادت خلوصِ نیت اور دل کی گہرائیوں سے پاکستان بارے یہ عزم اور ہم سے توقع رکھتی ہے کہ دونوں ملکوں کی قیادتیں اور عوام ایک دوسرے کے کندھے سے کندھا ملا کر چلیں تو عالمی سطح پر ایک منفرد مقام حاصل کر سکتے ہیں۔ چینی قیادت ہر وہ قدم اٹھا رہی ہے جس سے ہماری نوجوان نسل کا مستقبل محفوظ ہو سکے۔ چین کے اعلیٰ ترین تعلیمی اداروں میں پاکستانی طلبہ کیلئے سائنس و ٹیکنالوجی ‘ فنون لطیفہ ‘ معاشیات ‘میڈیکل سے متعلق یورپ کے مقابلے میں اعلیٰ ترین تعلیم کے سستے اور بہترین مواقع میسر ہیں۔چین میں زیرتعلیم پاکستانی طلبہ سے گفتگو کے دوران یہ رائے قائم ہوئی کہ جو والدین اپنے بچوں کو یورپ میں مہنگی تعلیم دلوانے کے خواہش مند ہیں اگر وہ چینی تعلیمی اداروں کو ترجیح دیں تو انکے بچوں کا معاشی مستقبل روشن ہو سکتا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ ہماری معیشت و دفاع چین کے ساتھ اس طرح منسلک ہو چکے ہیں کہ اگر ہماری اولین ترجیح صرف اور صرف چین ہو گی اور سی پیک جیسا عالمی گیم چینجرمنصوبہ جتنا جلدی پایہ تکمیل کو پہنچے گا اور صنعتی زونز میں چینی صنعتوں کے قیام سے یہاں ٹیکنالوجی منتقل ہوگی توتعلیم یافتہ نوجوانوں کو روزگار کے مواقع ملیں گے۔ چینی قیادت پاکستان میں تیزرفتار صنعتی انقلاب لانا چاہتی ہے۔ چینی سرمایہ کار یہاں سرمایہ کاری کرنے کیلئےبے چین ہیں۔ چینی قیادت ہماری سول‘ عسکری قیادت کے ساتھ ساتھ عوامی سطح پر دونوں ملکوں کے درمیان پرخلوص محبت ‘ باہمی تعاون و احترام کے جذبے سے ایک دوسرے کے معاشرتی و ثقافتی کلچرسے ہم آہنگ ہونا چاہتی ہے۔ چینی اساتذہ صحافیوں ‘مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی شخصیات کا سادہ طرززندگی اپنی مثال آپ تھا۔ یہ لوگ اپنے لباس ‘ لگژری گاڑیوں‘ عالی شان گھروں سے نہیں بلکہ اپنے کام سے جانے پہچانے جاتے ہیں۔ ان شخصیات سے گفتگو میں یہ احساس یقین میں بدل گیا کہ مایوسی گناہ ہے۔ ارادہ پختہ اورعزم سچاہو‘ ایک دوسرے سے اختلاف رائے کے باوجود اگر آپ میں صبر وبرداشت ہو ‘ تنقید برائے تنقید کا رویہ اور سیاسی شعبدہ بازی ‘ مذہبی منافرت پھلانے کی روش ترک کردی جائے تو زندگی آسان ہو سکتی ہے۔ دنیا نے پاک بھارت جنگ کے دوران چین کی دفاعی ٹیکنالوجی اور پاکستان کی عملی مہارت کا مظاہرہ دیکھ لیا۔ امریکی صدر ٹرمپ کی تمام ترپابندیوں کے باوجود دنیا کا معاشی نظام اب چین کے گرد گھوم رہا ہے۔ چین کی الیکٹرک کاریں ‘ موٹرسائیکلیں‘ مال بردار گاڑیاں دنیا بھر میں اعلیٰ ترین مقام رکھتی ہیں۔ چین کی سڑکوں پر ایک اندازے کے مطابق 98 فی صد ماحول دوست الیکٹرک گاڑیاں رواں دواں ہیں۔ کوئی شخص نقد رقم سے کاروبار نہیں کرتا ‘ ہر چیز موبائل فون ایپ سے منسلک ہے‘ نارمل یونیورسٹی جنہوا کے کلاس رومز اور راہداریوں میں طلبہ کی سنجیدگی‘ لائبریریوں میں ہر عمرکے افراد اور بچوں کے ہمراہ والدین کو پڑھتے دیکھا۔ چین کی صدیوں پرانی ثقافت اور دیہاتی ماحول کا مشاہدہ کیا۔ وہاں کے دیہات میں تمام تر بنیادی شہری سہولتیں میسر ہیں۔ مضبوط میونسپلٹی نظام شہریوں کو بنیادی سہولتیں فراہم کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ سڑکوں ‘ گلی محلوں میں صفائی ستھرائی کا نظام کچھ ایسا ہے کہ صبح سویرے تمام مرکزی شاہراہوں پر باقاعدگی سے پانی اور کیڑے مار ادویات کا سپرے کیا جاتا ہے۔ چین کے ہالی وڈ (Hengdian World Studios) کا دورہ کیا جدید ترین لیزر لائٹس ‘ ساؤنڈ سسٹم سے آراستہ ثقافتی شو دیکھا۔ ایئرپورٹس پر دنیا بھر سے آتے جاتے ہزاروں مسافروں کی لمبی لمبی قطاریں اس بات کا ثبوت تھیں کہ چین ہر گزرتے دن اپنی جدید ترین مہارتوں کووسعت دے رہا ہے اور دنیا ان مہارتوں سے فائدہ اٹھانا چاہتی ہے۔


سرکاری ہسپتال میں ہمارے پورے گروپ کا مکمل میڈیکل چیک اپ ہوا تو یہ دیکھ کا حیرت ہوئی کہ ہسپتال میں اِکا دُکا صحت مند مریضوں کے سوا صرف ہم ہی باقاعدہ مریض دکھائی دے رہے تھے۔ چینی شہری اپنی صحت پر خصوصی توجہ دیتے ہیں۔پیدل چلنا اور انتھک کام کرنا ان کے ڈی این اے میں شامل ہے۔ چین سے واضح پیغام لے کر آیا ہوں کہ ترقی ہمارے دروازے پر زور زور سے دستک دے رہی ہے ‘ دروازہ جتنا جلدی کھولیں گے ‘ چینی عوام کیلئے اپنے دل جتنے کشادہ رکھیں گے‘نوجوان چینی تعلیمی اداروں سے علم حاصل کرنے کو اپنی ترجیحات میں شامل کریں گے ۔ترقی اتنی ہی تیزی سے آئے گی۔ چین ”گو آؤٹ پالیسی“ کے تحت اپنی صنعتوں کو بیرون ملک منتقل کرنے کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہے۔ چینی کمپنیاں حقیقت میں اپنی فیکٹریاں دیگر ممالک میں منتقل کر رہی ہیں۔ چین تعلیم ‘ صحت اور حکومتی تعاون کو بھی بین الاقوامی وسعت دے رہا ہے۔ اسے ”چائنہ گو آؤٹ پالیسی“ کہا جاتا ہے۔ کچھ چیزیں ”ان ڈور“ بھی ہورہی ہیں۔ ”چائنہ گو آؤٹ پالیسی“ بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کے تحت پاکستان دیگر ممالک کیساتھ چین کی ترجیحات میں شامل ہے۔ اس پالیسی کا مقصد غیرملکی ٹیلنٹ اور غیرملکی سرمایہ کاری کو اندرون و بیرون چین فروغ دینا ہے ۔ چین کی سب سے زیادہ توجہ تیل و گیس کی درآمد‘ معدنیات ”مائننگ“ اور اپنی مقامی پیداوار پر مشتمل کاسٹنگ و فاؤنڈری انڈسٹری پر ہے۔ چین کی پاکستان سے لازوال محبت کی داستان وکٹوریہ کے آنسو اور وائس پریذیڈنٹ نارمل یونیورسٹی کے پاکستان بارے جذبات کا اظہار ابھی باقی ہے۔

تازہ ترین