• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امن و آشتی، برداشت و رواداری کا علم بردار ... سرکپ

ہم محوِ سفر تھے اور ہماری منزل تھی، ٹیکسلا۔ وہ ٹیکسلا، جس کی ہر اینٹ، ہر ستون اور ہر کھنڈر، ایک گم گشتہ تہذیب کی سرگوشی کرتا ہے۔ اُس روز ہمیں ڈھائی ہزار برس قدیم شہر کا طرزِ زندگی دیکھنا تھا اور وہ شہر تھا ’’سرکپ۔‘‘ انڈو گریکس کا بسایا، سرکپ۔ ٹیکسلا کا یہ دوسرا قدیم شہر، ایک دیو مالائی لوک کہانی کے کردار کی نسبت سے سرکپ کہلاتا ہے۔

تاریخی روایت کے مطابق، یہ شہر یونانی و بکتری بادشاہ دیمیٹریوس نے ہندوستان پر حملے کے بعد 180قبلِ مسیح میں بسایا تھا۔ یونانی طرزِ تعمیر کے مطابق بسائے جانے والے اس خُوب صُورت شہر کے بیچوں بیچ ایک وسیع و عریض میدان تھا، جس کے گردسڑکیں تعمیر کی گئی تھیں، جب کہ شہر کے گرد 5سے7میٹر چوڑی اور4.8کلومیٹر لمبی فصیل بنائی گئی تھی۔

معروف یونانی فلاسفراپولونوس از تیانا پہلی صدی عیسوی میں سرکپ بھی آیا تھا۔ اس نے اس شہر کے یونانی طرزِ تعمیرسے متعلق لکھا ہے کہ ’’ٹیکسلا، نینوا جتنا بڑا ہے، اور اس کی شہرِپناہ یونانی طرز کے مطابق تعمیر کی گئی ہے۔ شہرکی فصیل ایتھنز کی طرح بے ترتیب طریق پر تنگ گلیوں میں تقسیم تھی اور گھروں کو اس طرح بنایا گیا تھا کہ باہر سے دیکھنے پر ایک منزلہ نظر آتے تھے، لیکن اندر داخل ہونے کے بعد اتنے ہی زیر زمین کمرے نظر آتے، جتنے زمین کے اوپر۔ ‘‘

باختریوں کا بسایا جانے والا شہر، سرکپ: فصیل دار شہر، سرکپ باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ تعمیر کیا گیا تھا۔ دوسری صدی قبل مسیح میں آباد ہونے والا 'سرکپ کا یہ شہر باختری یونانیوں نے بسایا تھا۔ سرکپ کا نام بدھ روایت سے مستعار ہے۔ 

اس نام کی وجہ تسمیہ کےحوالے سے پنجاب کی دو ہزار سال پرانی ایک لوک کہانی کا ذکر ملتا ہے۔ یہ کہانی، راجا سرکپ سے متعلق ہے، جو ایک چالاک حکم ران اور’’چوسر‘‘ کا ماہر کھلاڑی تھا۔ اس کھیل میں جو ہارتا، اس کا سر کاٹ دیا جاتا۔

راجا رسالو نے سرکپ کو کھیل میں ہرا دیا، مگر سرکپ کی جان بخشی کر دی گئی۔ اسی طرح اس شہر کا نام ’’سرکپ‘‘ مشہور ہوگیا۔ مرکزی دروازے سے داخل ہوتے ہی ایک طرف کنویں اور دوسری طرف دربان کے کمرے کے آثار نظر آتے ہیں۔ یہاں سے یونانی تہذیب سے متاثر کئی نادر اشیاء دریافت ہوئی ہیں۔

جن میں خاص طور پر بادشاہوں کے زمانے کے قدیم سکّے شامل ہیں، جن میں یونانی دیومالائی کہانیوں کے تصوّرات ملتے ہیں۔ بدھ اسٹوپے شہر میں جگہ جگہ موجود ہیں، اسی طرح ایک ہندو مندر بھی پایا گیا ہے، جس سے یہاں دونوں مذاہب کے درمیان روابط کا علم ہوتا ہے۔ سرکپ کے نزدیک ہی جنڈیال کے مقام پر ایک یونانی یا زرتشتی مندر بھی موجود ہے۔

یہاں کے گول اسٹوپے سے متعلق خیال کیا جاتا ہے کہ یہ ایک زبردست زلزلے کے نتیجے میں موجودہ جگہ پر آن گرا تھا۔ جب پہلی صدی عیسوی میں شہر دوبارہ تعمیر کیا گیا، تو اس کے گرد دیوار بنا کر اسے محفوظ کر دیا گیا۔ گول مندر سرکپ کی سب سے بڑی مذہبی عمارت ہے، جو70x40میٹر رقبے پر مشتمل ہے۔ اس مندر میں ایک مستطیل حصّہ ہے، جس میں کئی کمرے ہیں، جو بدھ راہبوں کے زیر ِاستعمال تھے۔

اس کے علاوہ ایک گول کمرا ہے، جو مندر کی وجہ تسمیہ ہے۔ سرکپ کا ایک خاص اسٹوپا، دہرے سر والے عقاب کا سٹوپا ہے۔ اس میں نظر آنے والے ستون یونانی طرز کے ہیں۔ ان کے اوپر دہرے سر والا عقاب اس لحاظ سے بھی عجیب ہے کہ اس طرح کے عقاب کا تصوّر بابل کی قدیم تہذیب سے ملتا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ وہاں سے یہ خیال سکیتھیا اور بعدازاں پنجاب آیا۔

کچھ فاصلے پر رہائش گاہوں، بازار اور مختلف مذاہب کی عبادت گاہوں کے آثار موجود ہیں، جن میں جین مت، بدھ مت، ہندو مت اور عیسائیت شامل ہیں۔ ان کے علاوہ منتّی اسٹوپا اور سورج دیوتا کے پجاریوں کے منادر کے آثار بھی موجود ہیں۔ سورج دیوتا کا مندر، عبادت گاہ کے ساتھ ساتھ، گھڑیال کے طور پر بھی استعمال ہوتا تھا۔ اس عمارت میں تکون شکل کی آٹھ بنیادیں ہیں، یعنی عمارت کے آٹھ حصّے، دن کے آٹھ پہروں کو ظاہر کرتے ہیں۔ 

چھوٹا گول اسٹوپا، اس شہر کی قدیم ترین عمارت ہے،جو کھدائی کے دوران تیسری تہہ سے دریافت ہوا تھا۔ یہاں دو سَروں والے عقاب کا مندر بھی موجود ہے، جس میں بجا طور پر دو تہذیبوں کے رنگ نظر آتے ہیں۔ ستون اور اندرونی بناوٹ یونانی طرز کی ہے، جب کہ بیرونی خد و خال ہندوستانی طرزِ تعمیر کو ظاہر کرتے ہیں۔ 

یاد رہے، 2سَروں والے عقاب کا تصوّر بابل کی قدیم تہذیب میں بھی ملتا ہے،جو دنیا کے ایک بڑے حصّے میں طاقت کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ سرکپ میں سینٹ تھامس کا محل بھی موجو د ہے، جو عیسائیت کی تبلیغ کے لیے ہندوستان آیا اور ٹیکسلا کے اس مقام پر قیام کیا تھا۔ آج بھی پاکستان بھر سے عیسائی کمیونٹی، ہر سال جولائی کے مہینے میں سینٹ تھامس فِیسٹ منانے یہاں آتی ہے۔ یہاں دو حوض بھی بنائے گئے ہیں، جہاں بپتسمہ کی رسم ادا ہوتی ہے۔

مَیں سرکپ کی مرکزی شاہراہ کے کنارے لگی بینچ پر بیٹھا تھا، میرے گرد گہری خاموشی تھی، تاہم، سبک رفتار سے چلنے والی ہوا کی خوش گوار سرسراہٹ بہت بھلی محسوس ہورہی تھی۔ یہاں مختلف مذاہب کی مذہبی عمارتوں کے آثار دیکھ کر کے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگ ایک ہی شہر، ایک ہی محلّے اور ایک ہی بازار میں اپنی زندگی کے شب و روز پُرامن طریقے سے گزارتے تھے۔ اس شہر نے بہت سے مذاہب کو اپنی رواداری اور شفقت کی چھاؤں میں آباد رکھا۔ 

یہاں ہر کسی کو اپنی مرضی سے اپنے معبود کی عبادت کی اجازت تھی۔ کسی کو کسی کے مذہب سے کوئی خطرہ نہیں تھا اور.....صدیوں پرانے ان آثار کو دیکھتے ہوئے میرے لبوں پر سرائیکی زبان کے شاعر، قربان کلاچی کا ایک شعرآگیا؎ کوئی تاں حوالہ حیاتی دا باقی بچا.....ول نئیں لبدھا کِتھائیں، وقت جے کوں مٹائے۔ یعنی، اپنی زندگی کا کوئی نہ کوئی حوالہ ضرور باقی چھوڑو، ورنہ وہ پھر کبھی نہیں ملتا، جسے وقت نے مٹا دیا ہو۔

گو کہ وقت نے بظاہر قدیم اہلِ سرکپ کو مٹا دیا، لیکن اُن کی محبت، اتحاد و یگانگت، ایک دوسرے کو قبول اور برداشت کرنے کا رویّہ، آج بھی اہلِ سرکپ کی زندگی کا حوالہ ہے، جوہنوز زندہ ہے۔ یہ خاموش پتّھر، آج بھی اُن کی رواداری، برداشت، امن و آشتی کی داستان سناتے ہیں۔

سنڈے میگزین سے مزید
    سیر و سیاحت سے مزید