• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

غزہ امن منصوبے کی منظوری سعودی ولی عہد کا امریکا میں شاندار استقبال

مشرقِ وسطیٰ میں تیز رفتار پیش رفت جاری ہے، جو جنگوں، معاہدوں، سرمایہ کاری اور جدید ہتھیاروں کی سپلائی پر مشتمل ہے۔ اِن معاملات کو الگ الگ دیکھنا یک طرفہ تجزیہ ہوگا، کیوں کہ یہ سب معاملات ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔گزشتہ دنوں سلامتی کاؤنسل نے صدر ٹرمپ کے 20نکاتی امن منصوبے کی بھاری اکثریت سے منظوری دی۔ اِس پندرہ رُکنی دنیا کے سب سے طاقت وَر ادارے میں منصوبے کے حق میں 13ووٹ آئے، جب کہ کسی نے مخالفت نہیں کی، تاہم چین اور روس نے ووٹ دینے سے اجتناب کیا کہ اُن کے کچھ تحفّظات ہیں، جب کہ حماس نے اسے مسترد کردیا۔ 

دنیا کے زیادہ تر ممالک نے اِس اقدام کا خیر مقدم کرتے ہوئے اِسے امن اور فلسطینی ریاست کے قیام کی طرف اہم قدم قرار دیا۔ پاکستان سمیت عرب اور مسلم ممالک نے اس منصوبے کے حق میں ووٹ دیا۔ غزہ سیز فائر کا، جو اِسی منصوبے کی ابتدا تھی، اِس اکثریت سے پاس ہونا ظاہر کرتا ہے کہ دنیا کے پاس اس کا متبادل منصوبہ موجود نہیں ہے۔ سیز فائر نے جہاں غزہ میں خون ریزی بند کروائی، اب بیس نکاتی منصوبے کی منظوری نے مزید آگے بڑھنے کی راہ ہم وار کی ہے۔

غور کیا جائے، تو روس، امریکا اور چینی صدور کی حالیہ ملاقاتیں بھی اس کا موجب بنیں۔ غزہ میں دوسالہ جنگ کا، جس میں اسرائیلی جارحیت بلا روک ٹوک جاری رہی، رکوانا ضروری تھا۔ اب دوبارہ جنگ نہ ہونے دینا، غزہ کی بحالی اور فلسطینی ریاست کے قیام جیسے اقدامات کی طرف بڑھنا ضروری ہے، وگرنہ ایسے کئی سیز فائر ہوئے اور پھر ثالثوں کی عدم دل چسپی یا حالات کی وجہ سے معاہدے ٹوٹتے رہے۔ تنازعات اب بھی اُسی طرح موجود ہیں اور کسی معمولی سی بات پر بھی آگ بھڑک سکتی ہے۔ 

حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ گزشہ ایک سال میں مسلم دنیا میں جاری دو خون ریزیاں ختم ہوئیں۔ پہلے شام میں امن قائم ہوا اور اب غزہ میں۔ شام میں5 لاکھ سے زیادہ افراد ہلاک اور ایک کروڑ کے قریب بے گھر ہوئے، جب کہ غزہ میں68ہزارافراد شہید اور ہزاروں زخمی ہوئے۔ پھر اسرائیل کی جانب سے مسلّط کیے گئے قحط نے بحران میں مزید اضافہ کیا۔

ایک اہم امر یہ بھی ہے کہ چین اور روس امن منصوبے میں ابہام کی بات تو کرتے ہیں، لیکن ان میں سے کوئی بھی جنگ رکوانے میں کام یاب ہوا اور نہ ہی قحط سے نمٹنے کا کوئی منصوبہ پیش کر سکا۔ مشرقِ وسطیٰ میں اِس وقت سعودی عرب معاشی اور سیاسی طور پر رہنما کا کردار ادا کر رہا ہے، اِسی پس منظر میں ولی عہد، محمّد بن سلمان کا امریکا میں شان دار استقبال بہت سے اشارے دے رہا ہے۔

اقوامِ متحدہ کی سلامتی کاؤنسل میں بھاری اکثریت سے منظور ہونے والی’’غزہ قرار داد‘‘ اِس لحاظ سے اہم ہے کہ اب اِسے عالمی سند مل گئی ہے۔ اس قرارداد کے تین نکات بہت اہم ہیں اور اُن پر عمل درآمد ہی معاہدے کی افادیت واضح کرے گا۔انٹرنیشنل اسٹیبلائزنگ فورس کا قیام، بورڈ آف پیس اور اسرائیل فوجیوں کی واپسی کے ساتھ، حماس وغیرہ کو غیر مسلّح کرنا۔ بین الاقومی استحکامی فورس کی ذمّے داری غزہ میں خون ریزی روکنا اور امن یقینی بنانا ہوگا۔

اطلاعات کے مطابق، ابتدائی مرحلے میں نئی تربیت یافتہ پولیس شامل ہوگی، بعدازاں اِس بین الاقوامی فورس میں دوسرے ممالک کے فوجی بھی شامل ہوجائیں گے۔ اِسی پر روس اور چین نے تنقید کی ہے کہ اس میں یہ نہیں بتایا گیا کہ یہ مُلک کون سے ہوں گے، جب کہ حماس کا کہنا ہے کہ یہ فلسطینیوں کو منظر سے ہٹانے کے مترادف ہے، تاہم حماس دوحا معاہدے میں یقین دہانی کروا چُکی ہے کہ وہ غزہ کی گورنینس میں کوئی کردار ادا نہیں کرے گی۔ 

فلسطینی اتھارٹی نے، جو ویسٹ بینک(مغربی کنارے) پر حُکم ران ہے، ٹرمپ منصوبے پر جلد عمل درآمد کا مطالبہ کیا ہے۔ بہت سے مسلم ممالک نے، جن میں پاکستان بھی شامل ہے، زور دیا کہ قرار داد میں فلسطینی ریاست کے قیام کا واضح ذکر ہو۔ اِس قرارداد میں پہلی مرتبہ فلسطینی ریاست تسلیم کرنے اور فلسطینیوں کے حقِ خود ارادیت کا مصدقہ حوالہ موجود ہے، جب کہ نیتن یاہو اِس کی مخالفت کرتے رہے ہیں۔ اِسے صدر ٹرمپ کی ڈپلومیسی کی کام یابی کہا جاسکتا ہے کہ اُنہوں نے اسرائیل پر دباؤ ڈال کر فلسطینی حق قرارداد کا حصّہ بنالیا۔ 

امریکی سفیر کا کہنا تھا کہ بین الاقوامی فورس، غزہ کو محفوظ علاقہ بنانے میں مدد دے گی اور اسے اسلحے سے پاک کرے گی، جب کہ بورڈ آف پیس عبوری حکومت ہوگا۔ یہ فلسطینیوں کی ٹیکنوکریٹک حکومت ہوگی، جو مکمل طور پر غیر سیاسی افراد پر مشتمل ہوگی۔ اس کے ذمّے غزہ کے شہریوں کی خوراک، صحت اور دیگر روز مرّہ کی ضروریات پوری کرنی ہوگی۔

بم باری نے شہر کو کھنڈر بنادیا ہے اور شہریوں کے پاس رہنے کے لیے گھر نہیں رہے۔ بورڈ آف پیس غزہ میں تعمیرِ نو کی طرف بھی خصوصی توجّہ دے گا۔ دنیا کے وہ ممالک، جو دو سال سے غزہ پر جارحیت کے خلاف آواز بلند کرتے آئے ہیں، اب غزہ کے تباہ حال شہریوں کی ٹھوس مدد کرنے کے قابل ہوسکیں گے اور وہ بھی اقوامِ متحدہ کے تحت۔

یہ عمل سلامتی کاؤنسل کی قانونی نگرانی میں ہوگا، اِس لیے قرارداد کے حق میں ووٹ نہ دینے والے ممالک بھی اِس عمل میں حصّہ لینے میں قباحت محسوس نہیں کریں گے۔ جو ممالک اور تنظیمیں جوشیلے بیانات دیتے رہے یا اِس معاملے پر سیاست کرتے تھے، وہ کیسے امدادی کاموں میں حصّہ لیتے ہیں، یہ اُن کا بھی امتحان ہوگا۔ صدر ٹرمپ اِس بورڈ آف پیس کے نگران ہوں گے، یعنی اسے امریکا کی مکمل سرپرستی حاصل ہوگی۔ 

قرارداد کا تیسرا اہم نقطہ اسرائیلی فوجیوں کی غزہ سے واپسی اور مزاحمت کاروں کو غیر مسلّح کرنا ہے۔اسرائیل کب اور کہاں تک اپنے فوجوں کو ہٹاتا ہے، یہ بہت بنیادی معاملہ ہے کہ اِسی سے غزہ کی خود مختاری ثابت ہوگی۔ دوسری طرف، حماس کا غیر مسلّح ہونا بھی نہایت اہمیت کا حامل ہے، جو ایک ملیشیا کے طور پر گزشتہ سولہ سال سے غزہ پر حکومت کرتی چلی آ رہی ہے۔حماس اِس نئے رول پر اپنی رضامندی رواں برس اپریل میں دے چُکی ہے کہ وہ حکومتی سیٹ اپ کا حصّہ نہیں ہوگی، لیکن اس کے بعد اس کا سیاسی کردار کیا ہوگا، یہ سب دیکھنے کی باتیں ہیں۔

پاکستانی سفیر نے کہا کہ غزہ میں خون ریزی روکنا، جنگ بندی برقرار رکھنا اور اسرائیلی قبضے سے اُسے آزاد کروانا ووٹ دینے کا بنیادی مقصد ہے۔ غزہ میں اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں68 ہزار افراد کا قتل اور بڑے پیمانے پر تباہی نے پوری دنیا میں ہلچل مچائی۔ہر طرف احتجاج ہوا، لیکن تکلیف دہ بات یہ ہے کہ کوئی بھی عالمی طاقت امن کروانے میں کردار نہ کرسکی۔

ایسے میں صدر ٹرمپ کا 20نکاتی منصوبہ روشنی کی ایک کرن کے طور پر سامنے آیا۔ ہر پلان میں ترمیم کی گنجائش ہوتی ہے، جو تنقید اور اختلاف کرنے والے بات چیت کے ذریعے کرسکتے ہیں۔ غزہ کے بے کس لوگوں کو صرف بیانات، ہم دردی اور احتجاج کی ضرورت نہیں، بلکہ عملی تعاون چاہیے، جو دنیا مل کر ہی اُنہیں دے سکتی ہے۔ تنقید تو ہر چیز پر ہوسکتی ہے، لیکن یہ اپنی تجزیاتی مہارت ثابت کرنے سے زیادہ انسانوں کو حق دِلوانے کا معاملہ ہے۔ یہ میدان میں کام کرنے سے ہوگا، نہ کہ منہ سے جھاگ نکال کر۔ دیرینہ تناذعات کا حل جرأت، حوصلہ اور عزم مانگتا ہے نہ کہ صرف شور شرابا، کیوں کہ جن پر گزرتی ہے، وہی تکالیف کو جانتے ہیں۔

مشرقِ وسطی میں ایک اور اہم پیش رفت سعودی ولی عہد، شہزادہ محمّد بن سلمان کا دورۂ امریکا کی صُورت دیکھنے میں آئی، جہاں اُن کا فقید المثال استقبال ہوا۔ اِس دورے میں دو طرفہ معاملات، تیل کی صُورتِ حال، سرمایہ کاری، ٹیکنالوجی، ہتھیاروں کی سپلائی، مشرقِ وسطیٰ میں پائے دار امن کا قیام اور ایران کے ساتھ دوبارہ نیوکلیئر ڈیل پر بات چیت ہوئی۔

غزہ اور ایران، اسرائیل جنگ نے مشرقِ وسطیٰ، خاص طور پر خلیجی ممالک کے لیے سیکیوریٹی مسائل بڑھا دئیے ہیں۔ اگر اسرائیل نے قطر پر میزائل حملہ کیا، تو ایران نے بھی اُسے میزائل کا نشانہ بنایا۔گو، دونوں کے جواز مختلف تھے، لیکن دونوں حملوں میں بہرحال قطر کی خود مختاری تو چیلنج ہوئی۔ اِسی لیے سعودی ولی عہد کے دَورے میں صدر ٹرمپ نے اُنہیں جدید ترین، ایف-35لڑاکا طیارے فراہم کرنے کا وعدہ کیا۔ 

واضح رہے، اس ایک طیارے کی قیمت آٹھ کروڑ ڈالرز سے زیادہ ہے۔ اِس معاہدے سے یہ بھی اشارہ ملتا ہے کہ محمّد بن سلمان سعودی عرب کا مشرقِ وسطی میں لیڈنگ رول دیکھنا چاہتے ہیں۔ اِس وقت خطّے میں صرف اسرائیل کے پاس یہ طیارے ہیں، جو شاید یہ ڈیل پسند نہ کرے۔محمّد بن سلمان نے امریکا میں 10کھرب ڈالرز کی مجموعی سرمایہ کاری کا وعدہ کیا۔ غالباً یہ اِس وقت دنیا کے کسی بھی مُلک کی دوسرے مُلک میں سب سے بڑی سرمایہ کاری ہے۔

درحقیقت، یہ سعودی ولی عہد کے اُس ویژن کا حصّہ ہے، جس کے تحت وہ تیل پر انحصار کم کرکے ٹیکنالوجی، خاص طور پر آرٹی فیشل انٹیلی جینس کو سعودی عرب میں بڑے پیمانے پر لانا چاہتے ہیں۔ ابراہام اکارڈ سے متعلق ایک سوال کے جواب میں سعودی ولی عہد نے کہا کہ’’ہم معاہدے کا حصّہ بننا چاہتے ہیں، لیکن یہ یقینی بنانا ضروری ہے کہ فلسطینی ریاست کا کوئی واضح راستہ موجود ہو۔‘‘ اُنہوں نے کہا کہ اِس سلسلے میں صدر ٹرمپ سے اچھی بات چیت ہوئی۔

کچھ سال پہلے یواے ای، بحرین اور تیونس نے اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کیے تھے، جب کہ قطر سے اُس کے تجارتی روابط ہیں۔ مسلم دنیا میں تُرکیہ، مصر اور اُردن کے پہلے ہی اسرائیل سے سفارتی تعلقات ہیں، جنہیں کئی دہائیاں گزر چُکی ہیں، گو کہ وہ فلسطین پر بھی اصولی مؤقف رکھتے ہیں۔

پاکستان کا حال ہی میں سعودی عرب سے دفاعی معاہدہ ہوا اور اکثر تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اگر امریکا، خلیج کے ممالک کو سیکیوریٹی دینے میں ناکام رہتا ہے، تو پھر ایسے معاہدوں کی اہمیت بڑھ جاتی ہے، کیوں کہ پاکستان کے پاس بڑی اور جدید فوجی صلاحیت موجود ہے۔ یہ بھی ذہن میں رہے کہ گزشتہ ایک سال میں پاکستان اور امریکی تعلقات میں بہت گرم جوشی دیکھنے میں آئی ہے۔ ٹرمپ، وزیرِ اعظم شہباز شریف اور فیلڈ مارشل عاصم منیر کی کئی بار تعریف کرچُکے ہیں۔

سلامتی کاؤنسل میں ’’غزہ قرار داد‘‘ کی بغیر مخالفت منظوری اور پھر شہزادہ محمّد بن سلمان کی واشنگٹن میں صدر ٹرمپ سے مشرقِ وسطیٰ کے مستقبل پر جامع بات چیت، اُس تبدیلی کی جانب اشارے دے رہی ہے، جو علاقے میں رُونما ہورہی ہے۔ یعنی سعودی عرب کا لیڈنگ رول، فلسطینی ریاست کا قیام، خطّے میں امن اور ایران سے نئی نیوکلیئر ڈیل۔

حال ہی میں ایرانی وزیرِ خارجہ نے بیان دیا کہ اُن کے مُلک نے یورینیم افزودگی بند کردی ہے۔ یہ واضح اشارہ ہے کہ یورپی ممالک کی طرف سے اسنیپ بیک پابندیوں نے ایران پر دباؤ بڑھایا ہے اور نیوکلیئر ڈیل پر پیش رفت بیک ٹریک ڈپلومیسی کے ذریعے جاری ہے۔ پاکستان کی بھی خواہش ہے کہ ایران سمیت مشرقِ وسطیٰ کے تمام ممالک اِس بحرانی صُورتِ حال سے نکلیں اور فلسطین کا مسئلہ، فلسطینیوں کی خواہش کے مطابق حل ہو۔ یہ سب ہی اُس ماحول کا باعث ہوسکتا ہے، جس میں اُس قسم کی ترقی ممکن ہے، جیسی جنوب مشرقی ایشیا میں دیکھی گئی۔

دیکھا جائے، تو جنوبی ایشیا سے افریقا تک مسلم دنیا کی بڑی تعداد موجود ہے، مگر وہ اب تک ترقّی نہیں کرسکی اور جو دولت ہے، وہ بھی صرف قدرتی تیل ہی کی وجہ سے ہے۔ مسلم دنیا کو بدلتے حالات کے مطابق جذبات کی بجائے ترقّی کی سفارت کاری اپنانی چاہیے۔ پاکستان ایک بڑی آبادی کا مُلک ہے۔ اِسی طرح تُرکیہ، بنگلا دیش، ایران، مصر اور سوڈان کی خاصی آبادیاں ہیں۔

ان کے پاس صلاحیت بھی ہے، مگر تنازعات، خانہ جنگیوں اور سیاسی عدم استحکام نے اُنہیں اپنی توانائی درست سمت میں استعمال کا موقع نہیں دیا۔نوجوان آبادیاں تو ہیں، لیکن مایوس اور بے کار، کیوں کہ وہ دیکھتے ہیں کہ اُن کی قیادت مُلکی خوش حالی کی بجائے لایعنی تنازعات ہی سے نکل نہیں پاتی۔معیشت کی کم زوریاں انہیں قرضوں اور جُھکنے پر مجبور کردیتی ہیں۔

کبھی ایک بڑی طاقت کی طرف بڑھتے ہیں، کبھی دوسرے کی طرف۔اب تو حُکم رانوں کو ہوش آجانا ہی چاہیے اور انہیں تنازعات کو طول دینے کی بجائے امن و خوش حالی پر توجّہ دینی چاہیے، جس میں عوام کے لیے آگے بڑھنے کے مواقع اور ان کی توانائی کا درست استعمال اہم ہو۔ اب مسلم دنیا کو ہتھیاروں کی بجائے ٹیکنالوجی کی منڈیاں تلاش کرنی ہوں گی کہ یہی وقت کا تقاضا اور ضرورت ہے۔

سنڈے میگزین سے مزید