• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاک، افغان تناؤ اور دہشت گردی کے واقعات

درحقیقت، پاکستان اس وقت حالتِ جنگ میں ہے۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ پاک فوج دہشت گردوں کے خلاف جنگ صرف پاک، افغان سرحد پر اور بلوچستان کے دُور دراز علاقوں میں لڑ رہی ہے، تو گزشتہ دِنوں اسلام آباد کچہری میں ہونے والا خودکُش حملہ ہی یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ یہ پوری پاکستان قوم کی بقا کی جنگ ہے، جو پاک فوج لڑ رہی ہے۔ حالات کی سنگینی کا اندازہ وزیرِ دفاع، خواجہ آصف کے اس بیان سے لگایا جا سکتا ہے کہ پاک، افغان تعلقات اب سفارت کاری کی حدود سے نکل کر جنگ کے دائرے میں داخل ہوچُکے ہیں۔

وزیرِ دفاع کا یہ بھی کہنا ہے کہ دہشت گردوں کے حملے کے بعد افغانستان میں کارروائی کر سکتے ہیں اور یہ پاکستان کی جانب سے اپنے حقِ دفاع کا استعمال ہوگا۔ اُدھر اس حملے کی ذمّےداری کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان نے قبول کرلی ہے، جو اس وقت افغان سرزمین سے پاکستان کے خلاف کارروائیوں میں مصروف ہے۔ 

اسلام آباد کچہری پر خُودکُش حملے کے روز ہی جنوبی وزیرستان کے شہر، وانا کے کیڈٹ کالج میں650افراد کو، جن میں 525کیڈٹس شامل تھے، یرغمال بنایا گیا۔ تاہم، سیکیوریٹی فورسز نے بروقت آپریشن کرتے ہوئے ان تمام افراد کوبحفاظت بازیاب کروالیا۔ بعد ازاں، وفاقی وزیرِاطلاعات، عطا تارڑ کا کہنا تھا کہ یہ سانحہ اے پی ایس سے دس گُنا بڑا ہوسکتا تھا۔ تاہم، پاک فوج نے قوم کو بڑے نقصان سے بچا لیا۔ واضح رہے کہ یہ حملہ بھی افغان سرزمین سے آئے دہشت گردوں ہی کی کارروائی تھی۔

ایک ہی دن میں دہشت گردی کے دو خوف ناک واقعات درحقیقت پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کی کوشش ہے۔ امریکا، برطانیہ، تُرکی اور سعودی عرب سمیت دُنیا کے زیادہ تر ممالک نے پاکستان پرحملوں کی شدید مذمّت کی ہے۔ قبل ازیں، پاکستان ملٹری اکیڈمی کی پاسنگ آئوٹ پریڈ سےاپنے خطاب میں فیلڈ مارشل عاصم منیر نے افغان طالبان کی حکومت کو خبردار کیا تھا کہ وہ اپنی سرزمین سے ہونے والی دہشت گردی کی کارروائیوں کولگام دے۔ 

دوسری جانب قطراورتُرکیےکی ثالثی میں پاک، افغان مذاکرات جاری ہیں، لیکن اب تک یہ نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوئے اور یوں لگتا ہےکہ مذاکرات کا ڈراما رچا کر افغان طالبان اپنی سرزمین پر موجود دہشت گردوں کے لیے مُہلت حاصل کر رہے ہیں، جب کہ اسلامی ممالک اُن کی یہ چال سمجھ نہیں پا رہے۔ 

اگر ماضی کا جائزہ لیا جائے، تو معاہدوں کی پاس داری کے اعتبار سے افغان طالبان کا ریکارڈ خاصا مایوس کُن رہا ہے۔ مثال کے طور پر افغان طالبان نےامریکا سے ہونے والے دوحا معاہدے میں پوری دُنیا کے سامنے یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ افغان سرزمین کو دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہونے دیں گے، لیکن ایسا لگتا ہے کہ یہ بھی افغان طالبان کی ایک چال تھی، جس سے دُنیا دھوکا کھا گئی اور بعض ممالک انسانی ہم دردی کے نام پر اُن سے سفارتی تعلقات قائم کررہے ہیں، جن میں بھارت بھی شامل ہے، حالاں کہ افغان طالبان کے اندازِ حُکم رانی سے کسی طور بھی افغانستان کے ایک ریاست ہونے کا تاثر نہیں ملتا۔ 

ہر چند کہ ماضی میں پاکستان سفارت کاری کے میدان میں افغان طالبان کی رہنمائی کرتا رہا ہے، لیکن اس کے باوجود وہ ابھی تک ایک عسکریت پسند تنظیم کے خول سے باہر نہیں نکل پارہے۔ افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے بعد دُنیا نے یہ سوچا تھا کہ اب افغانستان اورخطّے میں امن قائم ہوجائے گا، لیکن موجودہ صورتِ حال اس کے بالکل برعکس ہے۔

گزشتہ دنوں اسلام آباد کچہری اوروانا کے کیڈٹ کالج میں رُونما ہونےوالےدہشت گردی کے واقعات پر نظرڈالیں، توافغان سرزمین پر موجود دہشت گردوں کے ناپاک عزائم کا بخوبی پتا چلتا ہے۔ یہ دہشت گرد پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کی ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔ اس ضمن میں وزیرِاعظم، شہباز شریف نے کہا ہے کہ ان دہشت گردوں کو بھارت کی معاونت حاصل ہے۔ 

ہرچند کہ افغان طالبان نے پاکستان پر حملوں کی مذمّت کی ہے، لیکن یہ مذمّت اپنی ذمّےداریوں سے راہِ فرار اختیار کرنے کے لیے کی جانے والی بہانے بازی کے سوا کچھ نہیں۔ یہاں یہ سوالات بھی پیدا ہوتے ہیں کہ اگر ان دہشت گردوں کو بھارت کی معاونت حاصل ہے، تو کیا یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں بھارت کا ہندتوا ایجنڈا نافذ کرنا چاہے ہیں؟ 

کیا یہ پاکستان کوبھارت کی ذیلی ریاست بنانا چاہتے ہیں یا پھر محض پیسے کے لالچ میں یہ سب کچھ کر رہے ہیں؟ یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان اور بھارت دونوں ہی خُود مختار مُلک ہیں اور تمام تر تنازعات کے باوجود ان کے درمیان سفارتی تعلقات قائم ہیں اور یہ باہمی مذاکرات ہی سے تمام مسائل کا حل نکال سکتے ہیں، تو پھر کسی تیسرے فریق کو مداخلت کی ضرورت کیوں پیش آرہی ہے؟

افغان طالبان کا دعویٰ ہے کہ وہ جہاد کر رہے ہیں،لیکن یہ کیسا جہادہے،جس میں ایک اسلامی مُلک کے مسلمان اور بےگُناہ شہریوں کو خُود کُش حملوں کے ذریعےخُون میں نہلایا جارہا ہے۔ اگر مذکورہ بالا دہشت گردی کے واقعات پر نظر ڈالی جائے، تو اندازہ ہوتا ہے کہ یہ کسی شقی القلب دہشت گرد تنظیم کی انتہائی نفرت انگیز کارروائیاں ہیں۔ 

اسلام آباد کے ڈسٹرکٹ اینڈ سینٹرل کورٹ کے باہر ہونےوالے دھماکے میں کم ازکم 12 افراد شہید اور27 زخمی ہوئے۔ مذکورہ جوڈیشل کمپلیکس میں تقریباً 70 عدالتیں ہیں اور جب دھماکا ہوا، تو اس وقت یہ کمپلیکس وکلا اور سائلین سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ بم دھماکے کے نتیجے میں ہر طرف انسانی اعضا بکھر گئے، جب کہ دھماکے کی شدّت سے عمارتوں کے شیشے اور کھڑکیاں ٹوٹ گئیں۔ 

بعدازاں، وفاقی وزیرِداخلہ، محسن نقوی نے بتایا کہ حملہ آوروں کی کوشش تھی کہ وہ عمارت میں داخل ہوجائیں، لیکن فورسز نے اُن کا یہ منصوبہ ناکام بنا دیا۔ اِسی طرح کیڈٹ کالج، وانا میں دس نومبر کی شام پانچ بجے چار دہشت گردوں نے حملہ کیا۔ 

دہشت گردوں نے بارود سے بھری گاڑی کالج گیٹ سےٹکرادی اوراندر داخل ہوگئے۔ اِن دہشت گردوں اور اندر چُھپے اُن کے سہولت کاروں کی کوشش تھی کہ وہاں موجود تمام افراد کو یرغمال بنالیا جائے، جن میں سے زیادہ تر اُس پس ماندہ علاقے کے طلبہ تھے۔ 

تاہم، سکیوریٹی فورسز نے بروقت کارروائی کرتے ہوئے تمام یرغمالیوں کو بحفاطت بازیاب کروا لیا اور چاروں دہشت گرد ہلاک کردیے۔ حملے کے وقت کالج میں 650 افراد موجود تھے جن میں سے 525 طلبہ تھے۔ ان تمام دہشت گردوں کا تعلق فتنۃ الخوارج سے تھا اور وفاقی وزیرِ داخلہ کے مطابق اس واقعے میں افغانستان براہِ راست ملوث تھا اور حملہ آور افغانستان سے رابطے میں تھے۔

اگر افغانستان کی گزشتہ پچاس سالہ تاریخ پر نظر ڈالی جائے، تو یہ بات بخوبی ثابت ہوجاتی ہے کہ افغان حکومتوں نے ہمیشہ پاکستان کو دبائو میں رکھنے کی کوشش کی، حالاں کہ پاکستان اُن کی ہر طرح سے مدد کرتا رہا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ سوویت یونین سے افغانستان کی جنگ افغان حُکم ران کے باہمی جھگڑوں کے باعث شروع ہوئی تھی۔ 

ظاہر شاہ کے خلاف بغاوت، سردار داؤد کا قتل اور ببرک کارمل کی سوویت سرپرستی میں حکومت کوئی زیادہ پرانی بات نہیں، جو سوویت یونین کے خلاف جنگ پرمنتج ہوئی۔ سوویت یونین کےانتشار کے بعد افغانستان میں خانہ جنگی شروع ہوگئی، جس سے بڑے پیمانے پر ہلاکتیں ہوئیں۔ 

پھر مُلّا عُمرکی سربراہی میں طالبان حکومت قائم ہوئی، جسے سعودی عرب اور پاکستان کے علاوہ کسی مُلک نے تسلیم نہیں کیا۔ اس موقعے پر مُلاّعُمر ہی نے اُسامہ بن لادن کو افغانستان میں پناہ دی، بلکہ یہ کہنامناسب ہوگا کہ تب افغانستان ملیشیاز کا گڑھ بن گیا۔ 

ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملے کی سازش بھی افغانستان ہی میں تیار کی گئی، جس نے پورے عالمِ اسلام کومشکل میں ڈال دیا۔ نتیجتاً، دُنیا بَھر میں انتہا پسندی، دہشت گردی اور اسلاموفوبیا نے جڑیں پکڑیں۔ اس موقعے پر بھی پاکستان نے حتی الامکان اپنے پڑوسی مُلک کی مدد کی کہ وہ دُنیا کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چل سکے۔ 

یہی وجہ ہے کہ افغانستان پر امریکی قبضے کے بعد جب طالبان کو ساری دُنیا دہشت گرد قرار دیتی تھی، تو پاکستان اُن کا امیج بہتر کرنے کے لیے اُن کی معاونت کرتا رہا اور اس کے ساتھ ہی تقریباً 70 لاکھ افغان مہاجرین کو پشاور سے لے کر کراچی تک پناہ دی اور اس کے بھیانک معاشرتی و معاشی نتائج اب تک بُھگت رہا ہے۔ 

اُس وقت سے شروع ہونے والی دہشت گردی آج تک ختم نہیں ہوئی اور کم و بیش 70 ہزار پاکستانی شہری دہشت گردوں کا نشانہ بن چُکے ہیں۔ اِسی طرح پاکستانی معیشت کو 80ارب ڈالرز کا نقصان ہوا، جو پاکستان کے غریب عوام کے خُون پسینے کی کمائی تھی، جب کہ افغان مہاجرین اور اِملاک کی تباہی نے ناقابلِ برداشت بوجھ ڈالا، جس کے نتیجے میں ہماری قومی معیشت آج تک سنبھل نہیں پائی۔

امریکا سے دوحا معاہدے کے بعد افغان طالبان نے دُنیا کے سامنے یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ اپنی سرزمین کو دہشت گردوں سے پاک رکھیں گے، خواتین کو تعلیم اورکام کی آزادی ہوگی اور ایک جامع حکومت قائم کی جائے گی، جس میں مُلک کے ہر حصّے کے نمائندے شامل ہوں گے، لیکن اِن میں سے کوئی ایک بھی شِق پوری نہیں کی گئی۔ 

اس موقعے پر پاکستان نے افغان طالبان کو مرکزی دھارے میں لانے کے لیے اہم کردار ادا کیا، لیکن اس کے باوجود افغان طالبان نے اپنی سرزمین پرایسےدہشت گردوں کو پناہ دے رکھی ہے کہ جو پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کےدرپے ہیں۔

دوسری جانب حیرت انگیز طور پرافغان طالبان بھارت سے اپنی قُربت بڑھا رہےہیں، حالاں کہ وہ یہ بات اچّھی طرح جانتے ہیں کہ کچھ عرصہ پہلے تک بھارت ان پر مقبوضہ کشمیر میں دہشت گردی کا الزام عائد کرتا رہا ہے۔ 

نیز، دہشت گردی کے موضوع پر بننے والی بالی وُڈ موویز، بھارتی ڈراما سیریلز اور قصّے کہانیوں میں ہمیشہ افغان پشتونوں کو دہشت گردوں کے رُوپ میں پیش کیا گیا، لیکن اب پاکستان دُشمنی میں بھارت اور افغان طالبان اس طرح یک جا ہوگئے ہیں کہ جیسے بھارت ہمیشہ سے ابن کا سپورٹر رہا ہو، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ بھارت نے آج تک کسی ایک افغان باشندے کو بھی اپنے مُلک میں سکونت اختیار کرنے کی اجازت نہیں دی اور نہ ہی وہاں کسی طالبان لیڈر کی اس طرح میزبانی اور آئوبھگت کی گئی، جیسے پاکستان کرتا رہا ہے۔ 

افغان طالبان کی پاکستان دشمنی دیگر ممالک کے لیے بھی ایک سبق ہے۔ اب دُنیا کو یہ سمجھ لینا چاہیےکہ عسکری تنظیموں کی حمایت کے نتائج کس قدربھیانک ہوتے ہیں اور ایسے عسکری گروہ اور تنظیمیں کہ جنہیں حُکم رانی کا کوئی تجربہ نہ ہو، جدید زمانے کے تقاضوں سے بےبہرہ ہوں اور صرف طاقت کی زبان سمجھتی ہوں، وہ اپنی ہم درد ریاست کی سالمیت کے لیے کتنا بڑا خطرہ بن سکتی ہیں۔ 

افغان وزیرِ خارجہ، مولوی عامر خان متّقی نے بھارت میں بیٹھ کر ڈیورنڈ لائن کے حوالے سے جو بیانات دیے، کیا انہیں افغان طالبان اور افغان باشندوں پر پاکستان کے مسلسل احسانات کا بدلہ کہا جا سکتا ہے؟ وہ کہتے ہیں کہ افغان بہت بہادر ہوتے ہیں۔ وعدوں کی پاس داری اُن کا ایمان ہے اور احسان کرنے والے کو جان سے زیادہ عزیز رکھتے ہیں، تو پھر یہ سوال اُٹھتا ہے کہ افغان طالبان کون سی افغان روایات کی پاس داری کر رہے ہیں؟

پاکستان اور افغان طالبان کے مابین دوحا اور استنبول میں مذاکرات کے تین دَور ہوئے۔ برادر اسلامی مُلک، تُرکیہ اورقطر کی خواہش تھی کہ دو پڑوسی مسلمان ممالک مل بیٹھ کر اپنے تمام تنازعات طے کریں، لیکن افغان طالبان کے رویّے اور طرزِعمل کو دیکھ کرایسا لگتا ہے کہ انہیں قیامِ امن سے کوئی سروکار ہی نہیں۔

حتیٰ کہ اس دوران اسرائیل اور حماس، ایران اور اسرئیل اور پاکستان اور بھارت کے درمیان سیز فائر ہوچُکا ہے، لیکن افغان طالبان پاکستان کی یہ معمولی سی بات سمجھنے اور ماننے پر آمادہ نہیں کہ اُن کی سر زمین پر پھیلے دہشت گردوں کوسرحد پارکرنے سےروکا جائے، تاکہ پڑوسی مُلک میں اسلام آباد کچہری اور کیڈٹ کالج وانا جیسے دہشت گردی کے واقعات کا تدارک ہو سکے۔ آج نہ صرف اسلامی ممالک بلکہ چین اور رُوس کی بھی یہ خواہش ہے کہ اس خطّے میں امن قائم ہو اور لوگوں کو ترقّی کے مواقع ملیں۔ 

دُنیا بَھر میں جب ’’اسلاموفوبیا‘‘ کی لہر چلتی ہے، تو غیرمسلم ممالک جواز کے طور پر مسلمان ممالک میں رُونما ہونے والے دہشت گردی کے واقعات اور عسکریت پسند تنظیموں کی مثالیں دیتے ہیں۔ اُمّتِ مسلمہ میں اغیار کی سازشوں کا ذکر توعام ہے، لیکن اگر دو مسلمان ممالک آپس میں بیٹھ کراپنے تنازعات طے نہیں کرسکتے اور صرف طاقت ہی کو ہر مسئلے کا حل مانتے ہوں، تو پھر دُنیا بَھر میں اُمّتِ مسلمہ کے ضمن میں کیسا تاثرجنم لے گا۔ 

افغان طالبان شاید اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ بھارت اور دُنیا یہ بُھول گئی ہے کہ پاکستان اور پاکستانیوں نے اُن پر کتنے احسانات کیے اور آج بھی کر رہےہیں۔کیاخُود بھارت کےلوگ یہ نہیں سوچتے ہوں گے کہ اُن افغان طالبان کا کیا بھروسا کریں کہ جو اپنے پاکستان جیسے محسن مُلک کے ساتھ دشمنی پراُترآئے ہیں۔ 

یاد رہے، فلاح و ترقّی، امن و امان ہی میں پوشیدہ ہے، لیکن اگر افغان طالبان اپنی سرزمین پر موجود دہشت گردوں کو لگام نہیں دیتے، تو پاکستان اپنے دفاع کا حق محفوظ رکھتا ہے اور پاکستان کو ایسے دہشت گردوں کو لگام دینی بخوبی آتی ہے۔