• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تعلیماتِ نبویؐ اور اُسوۂ رسولِ اکرمﷺ اعلیٰ انسانی اقدار اور مثالی اخلاق کیلئے دائمی نمونۂ عمل (قسط نمبر3)

علّامہ ندوی مزید لکھتے ہیں۔’’ایسی کامل و جامع ہستی، جو اپنی زندگی میں ہر نوع اور ہر قسم، ہرگروہ اور ہر صنفِ انسانی کے لیے ہدایت کی مثالیں اور نظیریں رکھتی ہو، وہی اس لائق ہے، جو اس اصناف و انواع سے بھری ہوئی دنیا کی عالم گیر اور دائمی رہنمائی کافریضہ انجام دے، جو غیظ و غضب اور رحم و کرم، جُود و سخا اور فقر و فاقہ، شجاعت و بہادری اور رحم دلی و رقیق القلبی، خانہ داری اور خدادانی، دنیا اور دین دونوں کے لیے ہمیں اپنی زندگی کے نمونوں سے بہرہ مند کردے، جو دنیا کی بادشاہی کے ساتھ آسمان کی بادشاہی اور آسمان کی بادشاہی کے ساتھ دنیا کی بادشاہی کی بھی بشارت دے اور دونوں بادشاہتوں کے قواعد و قوانین اور دستورالعمل کو اپنی زندگی میں برت کر دکھا دے۔ 

ایک کامل معلّم وہی ہوسکتا ہے، جو انسانیت کے ان تمام قویٰ اور جذبات میں اعتدال پیدا کرکے ان کے صحیح مصرف متعین کردے۔ حضرت نوحؑ کی زندگی، کفر کے خلاف غیظ و غضب کا ولولہ پیش کرتی ہے۔

حضرت ابراہیمؑ کی حیات، بُت شکنوں کا منظر دکھاتی ہے۔ حضرت موسیٰؑ کی زندگی، کفار سے جنگ و جہاد، شاہانہ نظم و نسق اور اجتماعی دستور و قوانین کی مثال پیش کرتی ہے۔ حضرت عیسیٰؑ کی زندگی، صرف خاک ساری، تواضع، عفو و درگزر اور قناعت کی تعلیم دیتی ہے۔ حضرت سلیمانؑ کی زندگی، شاہانہ اولوالعزمی کی جلوہ گاہ ہے۔ 

حضرت ایوبؑ کی حیات، صبر و شکر کانمونہ ہے، حضرت یونسؑ کی سیرت، ندامت و انابت اور اعتراف کی مثال ہے، حضرت یوسف علیہ السلام کی زندگی، قیدو بند میں بھی دعوتِ حق اور جوشِ تبلیغ کا سبق ہے، حضرت داؤدؑ کی سیرت گریہ و بکا، حمد و ستائش اور دعا و زاری کا صحیفہ ہے، حضرت یعقوبؑ کی زندگی امید، خدا پر توکّل اور اعتماد کی مثال ہے، لیکن محمد رسول اللہ ﷺ کی سیرتِ مقدّسہ کو دیکھو کہ اس میں نوحؑ اور ابراہیمؑ، موسیٰؑ اور عیسیٰؑ، سلیمانؑ اور داؤدؑ، ایوبؑ اور یونسؑ، یوسفؑ اور یعقوبؑ سب کی زندگیاں اور سیرتیں سمٹ کر سما گئی ہیں۔‘‘(ایضاً صفحہ 90۔91)۔

قرآنِ کریم میں اخلاقی تعلیمات کا احاطہ

معلّمِ اخلاق، حاملِ قرآن، پیغمبرِ آخرالزّماں حضرت محمد ﷺ پر نازل ہونے والے ابدی ضابطۂ حیات اور رُشد و ہدایت کے مثالی سرچشمے قرآنِ کریم کا مقصد ِ نزول بنی نوع آدم کو رُشد و ہدایت سے سرفراز کرنا، اُنہیں توحید کے نور سے منور اور محاسنِ اخلاق سے آراستہ و پیراستہ کرنا ہے۔ ذیل میں قرآنی اخلاقیات کی فہرست ملاحظہ فرمائیں۔

’’سچ بولنا، جھوٹ کی مذمّت، بے عملی کی مذمّت، عفو و درگزر، توکّل، صبرو شُکر، حق پر استقامت، اللہ کی راہ میں جان دینا۔ سخاوت اور خیرات کا حکم، بخل سے پرہیز، اسراف اور فضول خرچی کی ممانعت، میانہ روی کی تاکید، عزیزوں، قرابت داروں، یتیموں، مسکینوں اور پڑوسیوں سے حسن سلوک، مسافروں، سائلوں اور غریبوں کی امداد، غلاموں، قیدیوں کے ساتھ احسان، فخر و غرور کی مذمّت، امانت داری، وعدے کا ایفاء، عہد کا پورا کرنا، معاہدوں کا پاس و لحاظ، صدقہ و خیرات، نیکی اور بھلائی کی بات کرنا، آپس میں لوگوں کے درمیان محبّت پیدا کرنا، کسی کو بُرا بھلا نہ کہنا، کسی کو چِڑانا، نہ بُرے ناموں سے یاد کرنا، والدین کی خدمت و اطاعت، ملاقاتوں میں باہم بھلائی اور سلامتی کی دُعا دینا، حق گوئی، انصاف پسندی، سچّی گواہی دینا، گواہی کو نہ چُھپانا، جھوٹی گواہی کا دل پر برا اثر، نرمی سے بات کرنا۔

زمین پر اکڑ کر نہ چلنا، صلح جوئی، اتحاد و اتفاق، ایمان داری، انسانی برابری، اکل حلال، روزی خود حاصل کرنا، تجارت کرنا، گداگری کی ممانعت، لوگوں کواچھی بات کی تعلیم دینا اور بُری بات سے روکنا، اولاد کُشی، خُودکشی اور کسی دوسرے کی ناحق جان لینے کی ممانعت، یتیم کی کفالت، اس کے مال و جائیداد کی نیک نیتی سے حفاظت، ناپ تول میں بے ایمانی نہ کرنا، ملک میں فساد برپا نہ کرنا، بے شرمی کی بات سے باز رہنا، زنا کی حرمت، آنکھیں نیچی رکھنا، کسی کے گھر میں بلا اجازت داخل نہ ہونا، ستر اور حجاب کا اہتمام کرنا، خیانت کی مذمّت، آنکھ، کان اور دل کی باز پُرس، نیکی کے کام کرنا، لغو باتوں سے اعراض، امانت و عہد کی رعایت، ایثار، تحمّل، دوسروں کو معاف کرنا، دشمنوں سے درگزر، بدی کے بدلے نیکی، غصّے کی مذمّت، مناظروں اور مخالفوں سے گفتگو میں آداب کا لحاظ، مشرکوں کے بتوں تک کو بُرا نہ کہنا، فیصلے میں عدل و انصاف، دشمنوں تک سے عدل و انصاف، صدقہ و خیرات کے بعد لوگوں پراحسان دھرنے کی مذمت، فسق و فجور سے نفرت، چوری، ڈاکا، رہزنی اور دوسرے کے مال کو بے ایمانی سے لے لینے کی ممانعت، دل کا تقویٰ اور پاکیزگی، پاک بازی جتانے کی مذمّت، رفتار میں وقار و متانت، مجالس میں حسنِ اخلاق، ضعیفوں، کم زوروں اور عورتوں کے ساتھ نیکی، شوہر کی اطاعت، بیوی کا حق ادا کرنا، ناحق قسم کھانے کی مذمّت، چغل خوری، طعنہ زنی اور تہمت دھرنے کی ممانعت، جسم و جان اور کپڑوں کی پاکیزگی اور طہارت، شرم گاہوں کی ستر پوشی، سائل کو نہ جھڑکنا، یتیم کو نہ دبانا، اللہ کی نعمت کو ظاہر کرنا، غیبت نہ کرنا۔ 

بدگمانی نہ کرنا، سب پر رحم کرنا، ریا اور نمائش پر ناپسندیدگی، قرض دینا، قرض معاف کرنا، سُود اور رشوت کی ممانعت، استقلال اور شجاعت و بہادری جیسے اوصاف، جہاد اور جنگ کے گھمسان سے بزدلی سے بھاگ کھڑے ہونے کی مذمت، شراب پینے اور جوا کھیلنے کی ممانعت، بھوکوں کو کھانا کھلانا، ظاہری اور باطنی ہر قسم کی بے شرمی کی باتوں سے پرہیز، بے غرض نیکی کرنا۔ 

مال و دولت سے محبت نہ ہونا، ظلم کی ممانعت، لوگوں سے بے رُخی نہ برتنا، گناہ سے بچنا، ایک دوسرے کو حق پر قائم رکھنے کی فہمائش، معاملات میں سچّائی اور دیانت داری۔‘‘(سیّد سلیمان ندوی، علامہ/ سیرت النبیؐ، 6/569،570)۔

مشہور مستشرق مارگولیوتھ (G.S.Margolouth) جو دینِ اسلام کے حوالے سے اپنی تنگ نظری اور تعصّب کے حوالے سے خاص شہرت رکھتا ہے۔ اس نے راڈوِل (J.M.Rodwell) کے ترجمۂ قرآن کے مقدمے میں اعترافِ حقیقت کے طور پر یہ تحریر کیا۔ 

’’دنیا کے عظیم مذہبی صحیفوں میں ’’قرآن‘‘ ایک اہم مقام رکھتا ہے، حالاں کہ اس قسم کی تاریخ ساز تحریروں میں اس کی عمر سب سے کم ہے، مگر انسان پر حیرت انگیز اثر مرتّب کرنے میں وہ کسی سے پیچھے نہیں ہے۔ اس نے ایک نئی انسانی فکر پیدا کی اور ایک نئے اخلاق کی بنیاد ڈالی۔‘‘

(G.S.Margoliouth in Introduction to the Koran, by J.M.Rodvell, London, 1918,بحوالہ: ابوالحسن علی ندوی، مولانا/ تہذیب و تمدّن پر اسلام کے اثرات و احسانات، کراچی مجلس نشریات اسلام، صفحہ 102)۔

اسوۂ رسولؐ اور تعلیماتِ نبویؐ میں بلند اخلاقی اقدار اور مثالی اخلاقی تعلیمات کا احاطہ:

اسلام کی اخلاقیات کا بڑا ذخیرہ امام الانبیاء، سیّدالمرسلین، خاتم النبیین، صاحب خُلقِ عظیم، سرورِ کائنات ﷺ کے ان اقوال اور ارشادات و فرامین میں ملتا ہے، جو قرآنِ کریم کی اخلاقی تعلیمات کی تفسیراور تشریح کے حوالے سے احادیث میں مذکور ہیں۔ 

علّامہ سیّد سلیمان ندوی کے بقول ’’ان کی کثرت کا اندازہ اس سے ہوسکتا ہے کہ ’’کنزالعمال‘‘ میں جو ہر قسم کی حدیثوں کا سب سے بڑا مجموعہ ہے۔ آنحضرت ﷺ کی اخلاقی تعلیمات باریک ٹائپ کی بڑی تقطیع کے187صفحوں میں بیان کی گئی ہیں۔ ذیل میں آنحضرت ﷺ کی اخلاقی تعلیمات کے صرف وہ عنوانات ذکر کیے جارہے ہیں، جو صحیح بخاری، جامع ترمذی اور سنن ابو داؤد میں مذکور ہیں۔

صلۂ رحمی، ماں باپ کے ساتھ حُسنِ سلوک، بچّوں سے محبت، چھوٹوں سے شفقت اور بڑوں کی عزت، اپنے بھائی کو اپنی ہی مانند چاہنا، ہم سایوں سے حسنِ سلوک، غلاموں سے حسنِ سلوک، غلاموں کا قصور معاف کرنا، اہل و عیال کی کفالت، یتیموں کی پرورش، بیوہ کی خبر گیری، حاجت مندوں کی امداد، اندھوں کی دست گیری، عام انسانوں کے ساتھ ہم دردی، قرض داروں پر احسان، فریادیوں کی فریاد رسی، خلقِ خداکو نفع رسانی، مسلمانوں کی خیر خواہی، جانوروں پر شفقت و رحم، محسنوں کی شکرگزاری، ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان پر حق، بیماروں کی خدمت و عیادت، بغض اور حسد کی ممانعت، دوسروں کی مصیبت پر خوش ہونے کی ممانعت، شجاعت و بہادری، میدانِ جہاد سے بھاگنے کی مذمّت، امیر و امام کی اطاعت، مداومتِ عمل، اپنے ہاتھ سے کام کرنا، شیریں کلامی، خوش خلقی، فیّاضی، بدزبانی سے اجتناب، مہمان نوازی، شرم و حیا، حلم و وقار، غصّے کو ضبط کرنا، عفو و درگزر، صبر و تحمّل، حسب نسب پر فخر کی مذمّت، بدگمانی کی مذمّت، کسی کے گھر بِلا اجازت داخل نہ ہونا۔ 

دوسروں کے گھر جاکر اِدھر اُدھر نہ دیکھنا، دوسرے بھائی کے لیے پیٹھ پیچھے دُعا کرنا، رفق و نرمی، قناعت و استغناء، گداگری کی ممانعت، اپنے گناہوں کی پردہ پوشی، اپنے بھائیوں کے عیوب پر پردہ ڈالنا، چغل خوری کی ممانعت، تہمت لگانے کی مذمّت، غیبت کی ممانعت، بغض و کینہ کی ممانعت، دوسروں کی ٹوہ لگانے کی ممانعت، رازداری، تواضع و خاک ساری، امانت داری، گالی کی ممانعت، منہ پر مدح و ستائش کی ممانعت، لعنت کرنے کی ممانعت، بخل کی ممانعت، فضول گوئی کی ممانعت، فضول خرچی کی ممانعت، کبر و غرور کی مذمت، بے جا ہنسی مذاق کی ممانعت، نفسِ انسانی کا احترام، ظلم کی ممانعت، عدل و انصاف کا حکم، تعصّب کی ممانعت، سخت گیری کی ممانعت، غم خواری و غم گساری، توکل کی تعلیم، لالچ کی ممانعت، رضا بالقضا، قمار بازی کی ممانعت، سچائی کی ہدایت اور جھوٹ کی ممانعت، جھوٹی گواہی کی ممانعت، جھگڑا فساد کرنے کی ممانعت، باہم مصالحت کروانا، ایک مسلمان دوسرے مسلمان سے تین دن سے زیادہ ناراض نہ رہے، منافقت اور دورخی چال کی مذمّت، وعدہ خلافی کی ممانعت، خیانت اور فریب کی ممانعت، شراب نوشی، زنا کاری اور چوری کی ممانعت، طہارت و پاکیزگی کا اہتمام، دوست، احباب کی ملاقات، سلام و تحیت، مصافحہ و معانقہ، دیگر آدابِ ملاقات، آدابِ مجلس، آدابِ طعام، آدابِ لباس، آداب نشست و برخاست، خانہ داری کے آداب، سونے جاگنے کے آداب، عورتوں کے متعلق خاص آداب و اخلاق و سلوک کے احکام۔‘‘ ان تفصیلات سے بہ خوبی واضح ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کے ذریعے اخلاقیات کا کتنا عظیم الشان ذخیرہ انسانوں کو عطا کیا گیا ہے۔(سیّد سلیمان ندوی/ سیرت النبیؐ 6/70۔71)

معلّمِ اخلاقﷺ کی سیرتِ طیّبہ اور تعلیمات کا امتیاز و جامعیت:

اخلاقی معلّمین میں امام الانبیاء معلّمِ انسانیت، پیکر خُلق عظیم حضرت محمد ﷺ کے فلسفۂ اخلاق کی جامعیت، انفرادیت اور امتیازی شان کا انسانی تاریخ کے دیگر معلّمین سے تقابل کرتے ہوئے علّامہ سیّد سلیمان ندوی کیا خوب لکھتے ہیں۔

’’دنیا میں اخلاق کے بڑے بڑے معلّم پیدا ہوئے، جن کے مکتب میں آکر بڑی بڑی قوموں نے ادب کا زانو تہ کیا اور آداب و اخلاق کے وہ سبق ان سے حاصل کیے، جو سیکڑوں اور ہزاروں برس گزر جانے کے بعد بھی اب تک انہیں یاد ہیں، سچ تویہ ہے کہ آج جہاں کہیں بھی حُسنِ اخلاق کا کوئی نمونہ ہے، وہ انہی کے صحیفۂ تعلیم کا ایک ورق ہے، مگر ایک تنقیدی نظر یہ بتادے گی کہ ان اخلاقی معلّمین میں باہمی نسبت کیا ہے؟ ان کے تعلیمی نصاب کی ترتیب کِن کِن اصولوں پر مبنی ہے؟ 

ان میں درس گاہِ عالم کے سب سے آخری معلّم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کو کیا امتیاز حاصل ہے؟ اس حوالے سے ہم دیکھتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ سے پہلے نوعِ انسانی کے اخلاقی معلّمین کی دو جماعتیں رہی ہیں، ایک وہ، جنہوں نے اپنی تعلیم کی بنیاد کسی اخروی مذہب پر رکھی، جیسے عام انبیاء علیہم السلام اور بعض مذاہب کے بانی، دوسری وہ ہے، جس نے اپنے فلسفہ و حکمت اور علم و دانائی کی بنیاد پر اپنی عمارت کھڑی کی، ہم ان میں اوّل کو انبیاءؑ اور مصلحینِ دین اور دوسری جماعت کو حکماء کے نام سے تعبیر کرسکتے ہیں، ان دونوں جماعتوں نے اپنے درس و تعلیم کے اصول اور طریقے الگ الگ اختیار کیے۔ 

پیغمبروں اور مذاہب کے بانیوں نے اپنی تعلیمات کا ماخذ ’’حکمِ خداوندی‘‘ کو قرار دیا۔ اس حکم و فرمانِ الٰہی کے سوا ان کی تعلیم کی کوئی اور بنیاد نہیں، نہ ان کی تعلیمات میں علّت و معلول کا سلسلہ ہے، نہ اخلاق کے دقیق نکتوں کی گرہ کشائی اور نہ ان احکام و تعلیمات کی اخلاقی مصلحتوں اور عقلی حکمتوں کی تصریح ہے۔

دوسرے فریق کی تعلیمات میں علّت و معلول کی تحقیق، نفسیاتی خواص کی بحث، اخلاق کی غرض و غایت کی تعیین، قوائے عملی کی تحدید، یہ سب کچھ ہے، مگر بحث و نظر سے آگے عمل کا درجہ صفر ِمحض ہے، اگر ہے تو بے کیف اور بے لذت، مگر ؎ یارِ ما ایں دارد و آں نیز ہم۔ دنیا کے آخری مثالی اور تاریخ ساز معلّم، سرورِ کائنات، نبی آخرالزّماں ﷺ کی تعلیم میں حُکمِ خداوندی اور عقلی دقیقہ رسی، فرمانِ الٰہی اور اخلاقی نکتہ وری، امرِ ربّانی اور حکمِ فطرت، کتاب اور حکمت دونوں کی آمیزش ہے۔(ایضاً، حوالہ سابقہ 6/18)۔

انبیاءؑ اور حکماؑء میں جو اصلی فرق اور امتیاز ہے، وہ یہ ہے کہ انبیاءؑ کی اخلاقی تعلیمات کے ساتھ ساتھ ان کی معصوم زندگی، اُن کے مقدّس کارنامے اور اُن کے پاک اثرات ہوتے ہیں، جن کا فیض ان کے پیغام اور تعلیمات سے خیر و برکت کی سلسبیل بن کر نکلتا اور پیاسوں کو سیراب کرتا ہے، لیکن بلند سے بلند حکیم اور اخلاق کا دانائے راز جس کی اخلاقی سخن طرازی اور نکتہ پروری سے دنیا محوِ حیرت ہے اور جس نے انسان کے ایک ایک اندرونی جذبے، باطنی قوت اور اخلاقی فطرت کا سراغ لگایا ہے، عمل کے لحاظ سے دیکھو، تو اُس کی زندگی ایک معمولی بازاری سے ایک انچ بلند نہ ہوگی، وہ جو دوسروں کو روشنی دکھا سکتا ہے، مگر خود تاریکی سے باہر نہیں آتا، وہ دوسروں کی رہنمائی کا مدعی بنتا ہے، مگر خود عمل کی راہ میں بھٹکتا پھرتا ہے، وہ رحم و محبت کے طلسمات کے ایک ایک راز سے واقف ہے، مگر غریبوں پر رحم کھانا اور دشمنوں سے محبت کرنا، وہ نہیں جانتا، وہ سچّائی اور راست بازی پر بہترین خطبہ دے سکتا ہے، مگر وہ خود سچّا اور راست باز نہیں ہوتا۔(سیّد سلیمان ندوی، علامہ/ سیرت النبیؐ 6/19)۔

اس کا دوسرا نتیجہ یہ ہے کہ چونکہ وہ محض زبان یا دماغ ہوتا ہے، دل اور ہاتھ نہیں، اس لیے اُس کے منہ کی آواز کسی دل کی لوح پر کوئی نقش نہیں بناتی، بلکہ ہَوا کے تموّج میں مل کر بے نشان ہوجاتی ہے اور انبیاء علیہم السّلام چوں کہ جو کچھ کہتے ہیں، وہ کرتے بھی ہیں، جو اُن کی تعلیم ہے، وہی اُن کا عمل ہے، جو اُن کی زبان پر ہے، وہی دل میں ہے۔ اس لیے اُن کی تعلیم اور صحبت کا فیضان خوشبو بن کراُڑتا اور ہم نشینوں کو معطّرکر دیتا ہے۔ یہی وہ فرق ہے، جو انبیاءؑ اور حکماؑء، یعنی حضرت موسیٰ ؑ ، عیسیٰؑ ، محمد رسول اللہ ﷺ اور سقراط، افلاطون اور ارسطو میں نمایاں ہے۔

سقراط اور افلاطون کے مکالمات اور ارسطو کی اخلاقیات پڑھ کر ایک شخص بھی صاحبِ اخلاق نہ بن سکا، مگر یہاں قوموں کی قومیں ہیں، جو موسیٰ علیہ السّلام، عیسیٰ علیہ السّلام اور محمد رسول اللہ ﷺ کی تعلیم و تلقین سے اخلاق کے بڑے بڑے مدارج اور مراتب پر پہنچیں اور آج کرئہ ارض پر جہاں کہیں بھی حُسنِ اخلاق کی کوئی کرن ہے، وہ نبوت ہی کے کسی مطلع انوار سے چَھن کر نکل رہی ہے۔‘‘(سیرت النبیؐ 6/19)۔ (جاری ہے)

سنڈے میگزین سے مزید