معلّمِ اخلاق ﷺ کے اعلیٰ مراتب
دنیا اور آخرت دونوں جہانوں میں ربّ العزت نے خاتم النبیّینﷺ کو جن اعلیٰ مراتب پر فائز فرمایا ہے، آنحضرت ﷺ نے ایک حدیث میں اس کی تفصیل یوں بیان فرمائی۔ ’’مَیں اولادِ آدمؑ کا سردار ہوں، میرے ہاتھ میں حمد کا جھنڈا ہوگا اور آدم علیہ السّلام اور ان کے علاوہ دیگر انبیاءؑ سب اس دن میرے جھنڈے تلے جمع ہوں گے، مَیں سب سے پہلے زمین سے اُٹھایا جاؤں گا۔
شفاعت کرنے والا اوّلین شافع اور مشفّع بھی مَیں ہی ہوں گا اور مَیں سب سے پہلے جنّت کا دروازہ کھٹکھٹاؤں گا، مَیں ہی سب سے پہلے جنّت میں داخل ہوں گا اور یہ کوئی فخریہ کلمات نہیں ہیں۔‘‘ (ایضاً، سیرت مجمع کمالاتؐ صفحہ 202)۔
اسی بِنا پر آپؐ ہر لحاظ سے سب سے اعلیٰ اور انسانوں میں سب سے افضل ہیں۔ آپؐ عادات و خصائل، اخلاق و کردار، آداب و شمائل، غرض یہ کہ طبیعت اور جبلّت میں بھی تمام مخلوقات میں سب سے برتر و بہتر، اعلیٰ اور ارفع ہیں، جیسا کہ صحابۂ کرامؓ کے فرمودات کے اس شذرے سے واضح ہے۔
’’رسولِ اکرمﷺ تمام انسانوں میں سب سے زیادہ خُوب صُورت، سب سے زیادہ بخشش والے، سب سے زیادہ عبادت کرنے والے، سب سے زیادہ زہد والے، سب سے زیادہ پرہیزگار، سب سے زیادہ متّقی، سب سے زیادہ سخی، سب سے زیادہ بُردبار، سب سے زیادہ بہادر، سب سے زیادہ منصف کہ نہ تو کسی کے حق سے کم کرتے اور نہ ہی زیادہ اور لوگوں میں سب سے زیادہ عِفّت والے پاکیزہ تھے کہ آپؐ کی مملوکہ یا منکوحہ یا محرم عورت کے سوا آپؐ کا ہاتھ کسی عورت کو کبھی نہ لگا اور سب سے زیادہ حیا والے تھے کہ آپؐ کی چشمِ مبارک کسی کے چہرے پر جمتی نہ تھی۔‘‘
یہ ایک تاریخ ساز، ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ معلّمِ اخلاق، امام الانبیاء سیّدالمرسلین حضرت محمد ﷺ کی شخصیت تمام انبیاءؑ و مصلحین میں منفرد حیثیت کی حامل ہے۔ آپؐ نے صرف تعلیمات ہی نہیں دیں، اُن پر خود عمل کرکے بھی دکھایا۔
نیز، آپؐ کی تعلیمات اور آپؐ کا عمل، حیاتِ انسانی کے لیے مکمل اور لائقِ تقلید نمونہ ہے۔ انہی دو امتیازات کی وجہ سے آپؐ کی ذات سب سے بلند، روشن مینار ہے۔ آپؐ نے اپنے دَور کے انسانوں کو پیغامِ الٰہی کا صحیفہ، قرآنِ کریم پہنچایا اور اس کی تعلیمات کی طرف دعوت دی، تو اس کے ایک ایک لفظ پر عمل کرکے دکھایا۔ اسی لیے قرآن نے آپؐ کے اخلاق کی گواہی دی۔ ترجمہ:’’اے پیغمبرﷺ! آپؐ اخلاق کے اعلیٰ درجے پر فائز ہیں۔‘‘(سورۃالقلم/4)۔
انسانی شخصیت کے اوّلین گواہ اُس کے گھر کے افراد ہوتے ہیں یا وہ لوگ، جن کے ساتھ اُس کا اٹھنا بیٹھنا ہوتا ہے، بیوی سے بڑھ کر انسان کے اخلاق کا حال کِسے معلوم ہوتا ہے۔ اُمّ المومنین سیّدہ خدیجۃ الکبریٰؓ، جو نبوت سے پہلے اور نبوت کے بعد 25برس آپؐ کی رفاقت میں رہیں، آپؐ کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار ان الفاظ میں کرتی ہیں (یاد رہے کہ یہ الفاظ اُس وقت کہے گئے، جب آپؐ پر نبوت کا بارِ گراں ڈالا گیا) جن میں حُسنِ اخلاق کی جامع تصویر دکھائی دیتی ہے۔
’’ہرگز نہیں، اللہ تعالیٰ کی قسم، اللہ آپؐ کو کبھی غم گین نہ کرے گا، آپؐ صلۂ رحمی کرتے ہیں، مقروضوں کا بار اُٹھاتے ہیں، غریبوں کی اعانت کرتے ہیں، مہمانوں کی ضیافت کرتے ہیں، حق کی حمایت کرتے ہیں اور مصیبت میں لوگوں کے کام آتے ہیں۔‘‘(بخاری/الجامع الصحیح، باب بدأ الوحی 1/4)۔
اُمّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ ازواجِ مطہراتؓ میں سے ایک روشن دماغ اور عالمہ، فاضلہ تھیں، آپؓ نے حضوراکرم ﷺ کی زوجیت میں نہ صرف دینی تربیت حاصل کی، بلکہ مزاج شناسِ نبوت کا شرف بھی حاصل کیا۔ آپؐ کی ذاتِ بابرکات کے حوالے سے اُنؓ کے بیانات معجزانہ حقیقت کا درجہ رکھتے ہیں۔ جب ایک مرتبہ اُن سے حضوراکرم ﷺ کے اخلاق کے بارے میں دریافت کیاگیا، تو آپؓ نے فرمایا۔ ترجمہ:’’رسول اللہؐ کا خُلق قرآن تھا۔‘‘(کتاب الصلوٰۃ باب صلاۃ الّلیل 2/88)
ایک اور موقعے پر آنحضرتﷺ کے اخلاق کی تفصیل بیان کرتے ہوئے آپ فرماتی ہیں۔ ’’حضورِاکرم ﷺ کی عادت کسی کو بُرا بھلا کہنے کی نہ تھی۔ آپؐ بُرائی کے بدلے بُرائی نہیں کرتے، بلکہ درگزر کرتے اور معاف فرما دیتے تھے، آپؐ کو جب دو باتوں میں اختیار دیا جاتا، تو اُن میں سے جو آسان ہوتی، اُسے اختیار فرماتے، بشرط یہ کہ وہ گناہ نہ ہو، ورنہ آپؐ اس سے بہت دُور ہوتے۔ آپؐ نے کبھی کسی سے اپنے ذاتی معاملے میں انتقام نہیں لیا، لیکن کوئی احکامِ الٰہی کو توڑتا، تو اُسے سزا ملتی۔
اُمّ المومنین، حضرت عائشہؓ سے احادیث امام مسلم کی الجامع اور سنن ابودائود میں مروی ہیں، جن میں حسنِ خُلق کی ساری تفصیلات موجود ہیں۔(بحوالہ:خالد علوی، ڈاکٹر/انسان کاملؐ۔ صفحہ 102۔103)۔ ایک بار حضرت حسینؓ سے آنحضورﷺ کے اخلاق کے بارے میں سوال کیا گیا، تو آپ نے فرمایا۔’’رسول اللہﷺ خندہ جبیں، نرم خُو، مہربان طبع تھے، سخت مزاج اور تنگ دل نہ تھے۔ بات بات پر شور نہیں کرتے تھے۔ کوئی بُرا کلمہ منہ سے کبھی نہ نکالتے، عیب جُو اور سخت گیرنہ تھے۔ اگر کوئی بات ناپسند ہوتی، تو اس سے اغماض فرماتے۔
کوئی آپؐ سے اس کی اُمید رکھتا، تو اُسے مایوس نہ کرتے اور نہ منظوری ظاہر فرماتے، بلکہ خاموش رہتے اور مزاج شناس، آپؐ کے تیور سے آپؐ کا مقصد سمجھ جاتے۔ آپؐ نے تین چیزوں کو خود سے دُور کر رکھا تھا، بحث مباحثہ، ضرورت سے زیادہ بات کرنا اور جو بات مطلب کی نہ ہو، اُس میں پڑنا۔ دوسروں کے متعلق بھی تین چیزوں سے پرہیز کرتے تھے، کسی کو بُرا نہیں کہتے تھے، کسی کی عیب جوئی نہیں کرتے تھے اور کسی کی اندرونی باتوں کی ٹوہ میں نہیں رہتے تھے۔ وہی باتیں کرتے، جن سے کوئی مفید نتیجہ نکل سکتا تھا۔
جب آپؐ بات کرتے تو صحابۂ کرامؓ اس طرح خاموش ہوکر سر جھکا کر سنتے، گویا ان کے سروں پر پرندے بیٹھے ہیں، جب آپؐ خاموش ہوجاتے، تو پھر آپس میں بات چیت کرتے، کوئی دوسرا بات کرتا، تو جب تک وہ اپنی بات ختم نہ کرلیتا، خاموشی سے سنا کرتے، لوگ جن باتوں پر ہنستے، آپؐ بھی مسکرا دیتے، جن پر لوگ تعجب کرتے، آپؐ بھی کرتے، کوئی باہر کا آدمی بے باکی سے گفتگو کرتا، تو آپؐ تحمّل فرماتے، دوسروں کے منہ سے اپنی تعریف سننا پسند نہیں فرماتے تھے، لیکن اگر کوئی آپؐ کے احسان و انعام کا شکریہ ادا کرتا، تو قبول فرماتے، جب تک بولنے والا خود چُپ نہ ہوجاتا، آپؐ اس کی بات درمیان سے نہیں کاٹتے تھے۔‘‘(ترمذی، محمد بن عیسیٰ / الجامع الصحیح، کتاب الشمائل، باب ماجاء فی خُلقہ)۔
آپؐ نہایت فیاض اور راست گو، نہایت نرم طبع اور خوش صحبت تھے، اگر کوئی ایک دفعہ آپؐ کو دیکھتا، تو مرعوب ہوجاتا، لیکن جیسے جیسے آشنا ہوتا جاتا، آپؐ سے محبت کرنے لگتا۔(بحوالہ،خالد علوی، ڈاکٹر/ انسان کاملؐ، صفحہ 604)۔ ہند بن ابی ہالہؓ جو گویا حضوراکرم ﷺ کے آغوش پروردہ تھے، اپنی معرفت کی بنیاد پر آپؐ کی شخصیت کو ان الفاظ میں متعارف کرواتے ہیں۔
’’آپؐ نرم خو تھے، سخت مزاج نہ تھے، کسی کی توہین روا نہیں رکھتے تھے، چھوٹی چھوٹی باتوں پراظہارِ تشکّر فرماتے۔ کسی چیز کو بُرا نہ کہتے، کھانا جس قسم کا سامنے آتا، تناول فرماتے اور اسے بُرا بھلا نہ کہتے۔ آپ کو دنیا اور اس کی چیزیں غصّہ نہ دلا سکتیں، اگر کوئی حق کی مخالفت کرتا، تو ناراضی کا اظہار فرماتے اور حق کی حمایت کرتے، لیکن ذاتی معاملے پر کبھی غصّہ نہیں آیا اور نہ کسی سے انتقام لیا۔‘‘(ترمذی، محمد بن عیسیٰ/الجامع الصحیح، کتاب الشمائل، باب ماجاء فی خُلقہ)۔
’’انسانِ کاملؐ‘‘ کے مولّف ڈاکٹر خالد علوی لکھتے ہیں۔’’آپؐ نے جن لوگوں میں دعوت کا کام کیا، اُن میں مومنین، صادقین بھی تھے اور منکرین و معاندین بھی۔ اُن میں سے ہر ایک نے اپنے اپنے ظرف کے مطابق آپؐ کی عظمت کا اعتراف کیا ہے۔ مومنین صادقین میں حضرت جعفر طیارؓ کا بیان قابلِ توجّہ ہے۔
انہوں نے نجاشی کے دربار میں کھڑے ہوکر فرمایا تھا۔’’اے بادشاہ! ہم ایک جاہل قوم تھے، بُتوں کو پوجتے تھے، مُردار کھاتے تھے، بدکاریاں کرتے تھے، ہم سایوں کو ستاتے تھے، بھائی بھائی پر ظلم کرتا تھا، زبردست، زیر دستوں کو کھا جاتے، اسی اثناء میں ایک شخص ہم میں پیدا ہوا، اُس نے ہمیں تعلیم دی کہ ہم پتّھروں کو پُوجنا چھوڑ دیں، سچ بولیں، خوں ریزی سے باز آئیں، یتیموں کا مال نہ کھائیں، ہم سایوں کو آرام دیں، عفیف (پاک باز) عورتوں پر بدنامی کا داغ نہ لگائیں۔(احمد بن حنبل/ المسند، مصر دارالمعارف 1/202)۔
مخالفین میں سے ابوسفیان کا بیان، جو انہوں نے حالتِ کفر میں قیصرروم کے دربار میں دیا تھا، بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ اس مختصر بیان میں انھوں نے حضوراکرمﷺ کی تعلیمات کا جو نقشہ کھینچا، اس سے آپؐ کی شخصیت کا اندازہ ہوسکتا ہے، انہوں نے بادشاہ کے سوال پر کہا کہ محمد ﷺ نے کبھی جھوٹ نہیں بولا، کبھی غدر نہیں کیا، جب ہرقل نے ابوسفیان سے آپؐ کی تعلیمات کے بارے میں پوچھا تو کہا۔ ’’وہ کہتے ہیں، تنہا اللہ کی عبادت کرو اور اُس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو، تمہارے باپ، دادا جو کہتے ہیں، اُسے ترک کرو، وہ نماز، صداقت، پاک دامنی اور صلۂ رحمی کا حکم دیتے ہیں۔‘‘
ان دونوں بیانات سے واضح ہوتا ہے کہ آپؐ حُسنِ اخلاق کے اعلیٰ معیار پر قائم ہیں۔ آپؐ کی جن تعلیمات کا ذکر کیا گیا ہے، وہ صرف تعلیمات ہی نہ تھیں، آپؐ کے حُسنِ اخلاق کا عملی نمونہ بھی تھیں، کیوں کہ آپؐ نے کبھی کوئی ایسی بات نہیں کہی، جس پر خود عمل نہ کیا اور کسی ایسی بات سے نہیں روکا، جس سے خود پرہیز نہیں کیا، اپنوں اور غیروں نے حُسنِ اخلاق کے اس پیکر کو شان دار الفاظ میں خراجِ تحسین پیش کیا ہے۔ آنحضور ﷺ کی ذات گرامی میں حُسنِ اخلاق و عمل کی روشن مثالیں موجود ہیں۔ (خالد علوی، ڈاکٹر/ انسانِ کاملؐ۔ صفحہ605)۔
رسولِ اکرم ﷺ کا اسوۂ حسنہ، مکارمِ اخلاق کا بے مثال اور تاریخ ساز نمونہ
امام بخاریؒ کا قول ہے کہ ’’جس طرح ماں باپ اولاد کو سنگھارتے ہیں، ربّ تعالیٰ نبی کو سنگھارتا اور مزیّن کرتا ہے۔‘‘رب تعالیٰ نے جس حسین انداز میں اپنے محبوب ﷺ کی تزئین و آرائش فرمائی، اُس کی مثال نہیں کہ آپؐ کو اخلاقِ حسنہ کا کامل اور مکمل مجسّمہ بنا دیا اور کائنات کے سامنے بطور رول ماڈل پیش فرمایاکہ میری تخلیق کا شاہ کار یہ ہے۔
اسی لیے آپ ﷺ کو معراج پر لے جایا گیا، تاکہ معلوم ہوجائے کہ جتنا زمین سے آسمان اونچا ہے، اُسی قدر کائنات میں آپؐ کی شان اونچی ہے، کل فرشتوں نے آدمؑ کی تخلیق پراعتراض کیا تھا ،آج انہی فرشتوں کو حکم ہوتا ہے کہ احترام کے ساتھ قطار اندر قطار کھڑے ہوجاؤ۔ اس آدمؑ کے خلفِ صالح، اولاد آدمؑ کے سردار، خلاصۂ کائنات، حضرت محمد ﷺ تشریف لارہے ہیں۔
عالمِ غیب میں اس حسین منظر سے پہلے شبِ اسراء میں ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاءؑ کی امامت حضور انور ﷺ کی سیادتِ عامّہ اور امامتِ عظمیٰ کی ایک روشن دلیل ہے۔ اسی لیے صحابہؓ نے جب دریافت فرمایا کہ یا رسول اللہ ﷺ! آپؐ کو نبوت کب ملی؟ تو فرمایا، ’’اُس وقت جب حضرت آدم علیہ السّلام ابھی رُوح اور جسم کے درمیان تھے۔‘‘
اسوۂ نبویؐ کی جامعیت کے حوالے سے علّامہ سیّد سلیمان ندویؒ لکھتے ہیں۔’’عزم و استقلال، شجاعت و بہادری، صبرو شُکر، توکّل، رضا بتقدیر، مصیبتوں کی برداشت، قربانی، قناعت، استغناء، ایثار، جُودوسخا، تواضع و انکساری، مسکنت، غرض نشیب و فراز، بلند و پست، تمام اخلاقی پہلوؤں کے لیے جو مختلف انسانوں کو مختلف حالتوں میں یا ہر انسان کو مختلف صُورتوں میں پیش آتے ہیں، ہمارے لیے عملی ہدایت اور مثال کی بھی ضرورت ہے، مگر وہ کہاں مل سکتی ہے؟ صرف امام الانبیاء، سیّدالمرسلین، ہادیِ عالم، داعیِ اعظم، حضرت محمد مصطفیﷺ کے پاس۔
حضرت موسیٰ ؑ کے پاس سرگرم شجاعانہ قوتوں کا خزانہ مل سکتا ہے، مگر نرم اخلاق کا نہیں، حضرت عیسیٰؑ کے ہاں نرم اخلاق کی بہتات ہے، مگر سرگرم اور خون میں حرکت پیدا کرنے والی قوتوں کا وجود نہیں۔ انسان کو اس دنیا میں ان دونوں قوتوں کی معتدل مثالیں صرف پیغمبرِ اسلام ﷺ کی سوانح میں مل سکتی ہیں۔
غرض ایک ایسی شخصی زندگی، جو ہر طبقۂ انسانی اور ہر حالتِ انسانی کے مختلف مظاہر اور ہر قسم کے صحیح جذبات اور کامل اخلاق کا مجموعہ ہو، صرف محمد رسول اللہ ﷺ کی سیرتِ طیّبہ اور آپؐ کا اسوۂ حسنہ ہے، اگر دولت مند ہو، تو مکّے کے تاجر اور بحرین کے خزینہ دار کی تقلید کرو، اگر غریب ہو، توشعب ابی طالب کے قیدی اور مدینے کے مہمان کی کیفیت سنو، اگر بادشاہ ہو، تو سلطانِ عربؐ کا حال پڑھو، اگر رعایا ہو، تو قریش کے محکوم کو ایک نظر دیکھو، اگر فاتح ہو، تو بدروحنین کے سپہ سالارؐ پر نگاہ دوڑاؤ۔
اگر تم نے شکست کھائی ہے، تو معرکۂ اُحد سے عبرت حاصل کرو، اگر استاد اور معلّم ہو، تو صُفہ کی درس گاہ کے معلّمِ اقدسؐ کو دیکھو، اگر شاگرد ہو، تو رُوح الامینؑ کے سامنے بیٹھنے والے پر نظر جمائو، اگر واعظ اور ناصح ہو، تو مسجدِ نبویؐ میں مدینے کے منبر پر کھڑے ہونے والے کی باتیں سنو، اگر تنہائی و بے کسی کے عالم میں حق کے منادی کا فرض انجام دینا چاہتے ہو، تو مکّے کے بے یارومدگار نبیؐ کا اسوۂ حسنہ تمہارے سامنے ہے، اگر حق کی نصرت کے بعد اپنے دشمنوں کو زیر اور مخالفوں کو کم زور بنا چکے ہو، تو فاتحِ مکّہؐ کا نظارہ کرو۔
غرض جو کوئی بھی ہو، اور کسی حال میں بھی ہو، زندگی کے لیے نمونہ اور سیرت کی درستی واصلاح کے لیے سامان، ظلمت خانہ کے لیے ہدایت کا چراغ اور راہنمائی کا نُور محمد رسول اللہ ﷺکی جامعیت کبریٰ کے خزانے میں ہر وقت اور ہمہ دَم مل سکتا ہے۔
اس لیے طبقۂ انسانی کے ہر طالب اور نُور ایمانی کے ہر متلاشی کے لیے صرف محمد رسول اللہﷺ کی سیرتِ طیبہ اور آپؐ کا اسوۂ حسنہ ہدایت کا نمونہ اور نجات کا ذریعہ ہے، جس کی نگاہ کے سامنے محمد رسول اللہ ﷺکی سیرتِ پاک ہے، اس کے سامنے حضرت نوحؑ وِ ابراہیمؑ، ایوبؑ و یونسؑ، موسیٰؑ اور عیسیٰؑ سب کی سیرتیں موجود ہیں، گویا تمام انبیائے کرامؑ کی سیرتیں صرف ایک ہی جنس کی اشیاء کی دکانیں ہیں اور محمد رسول اللہﷺ کی سیرت اخلاق و اعمال کی دنیا کا سب سے بڑا بازار (مارکیٹ) ہے، جہاں ہر جنس کے خریدار اور ہر شے کے طلب گار کے لیے بہترین سامانِ ہدایت موجود ہے۔‘‘(ندوی، سیّد سلیمان، علامہ/ خطباتِ مدراس، ادارہ اسلامیات،صفحہ 86)۔ (جاری ہے)