• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہم لاہور میں مینار پاکستان کے سائے میں موجود ہیں ۔جماعت اسلامی کا یہ اجتماع تین روزہ ہے۔ انتہائی سردی میں کھلے آسمان تلے بلوچستان ،کے پی کے، پنجاب ،سندھ، آزاد جموںکشمیر، گلگت بلتستان سے جماعت اسلامی کی کم از کم چار نسلیں جمع ہیں۔ کتنی آرزوئیں کتنی حسرتیں اور کتنے عزائم۔ پیشانیوں پر چمک۔ مینار پاکستان کئی سو ایکڑ کا رقبہ نظام بدلنےکیلئے قرآن و سنت کی روشنی میں ایک عادلانہ باوقار اور کرپشن سے پاک نظام کیلئے اپنی تمام تر قوتیں لگانے کیلئے تیار ۔بار بار نوجوان اور بزرگ ’حافظ حافظ ‘کے نعرے لگا رہے ہیں ۔کنونشن کا ایک طائرانہ جائزہ لینے کے بعد فوری طور پہ تو ذہن یہ کہتا ہے جماعت اسلامی ڈیجیٹل بھی ہو گئی ہے اور کارپوریٹ بھی۔

ہم تو ان کالموں میں بار بار زور دیتے رہے ہیں کہ قومی سیاسی پارٹیوں کو پہلے اپنے ضلعی کنونشن پھر صوبائی کنونشن منعقد کرنے چاہئیں ۔ان میں مندوبین باقاعدہ منتخب کیے جائیں جو قومی کنونشن میں شریک ہو کر ملک کے مالی معاشی سماجی سیاسی آئینی مسائل پر اپنی تجاویز مرتب کریں۔ قومی سیاسی پارٹیاں ایسے کنونشنوں کے ذریعے اپنے کارکنوں میں ملک گیر بیداری بھی پھیلا سکتی ہیں اور ان کارکنوں کے ذریعے وہ ملک کی اکثریت کی رائے سے بھی آگاہ ہو سکتی ہیں ۔ملک عوام کا ہے وہی اس کے مالک ہیں ان کو ہی فیصلہ کرنا چاہیے کہ وہ کس بین الاقوامی معاہدے میں شریک ہوں ۔کس میں نہیں۔ کون سی آئینی ترمیم ہونی چاہیے یہ فیصلہ بھی عوام کا ہی ہونا چاہیے ۔

جماعت اسلامی کے اجتماع پہلے بھی ہوتے رہے ہیں لیکن 21ویں صدی کی تیسری دہائی کا ، سوشل میڈیا کے عروج کے دورکاپہلا اجتماع اورحافظ نعیم الرحمن کی امارت کابھی پہلا اجتماع۔ تو اس کو پہلے والے اجتماعات سے یقیناً مختلف ہونا چاہیے ۔جدید دور کے سب ٹیکنیکل تقاضے بھی پورے ہونے چاہئیں ۔ایک طرف تو اسے ’’اجتماع عام بدل دو نظام‘‘ کہا جا رہا ہے دوسری طرف اسے انگریزی میں General convention کا نام بھی دیا گیا ہے۔

ہم تو ایک مشاعرے میں شرکت کیلئے مینار پاکستان پہنچ رہے ہیں ۔خوشی ہو رہی ہے کہ مینار پاکستان کے ارد گرد ہر ساخت کی گاڑیاں رکشے، موٹر سائیکلیں پارک ہیں۔مہنگی گاڑیاں،عوامی گاڑیاں، بسیں ،منی بسیں، پوسٹرلگے ہیں ۔حافظ نعیم الرحمن کی تصویر اور بدل دو نظام کے نصب العین کے ساتھ نظر آرہی ہے۔ مختلف زبانیں بولنے والے مختلف عمروں کے پاکستانی ایک جذبے اور ایک اقرار کے ساتھ نظر آرہے ہیں۔ اسٹیج کئی فٹ بلند ہے سیڑھیاں بھی ہیں اور ایک عارضی لفٹ بھی ۔روشنیوں کا سیلاب امڈرہا ہے۔ کارکن واکی ٹاکی لیے سرگرم ہیں۔ مشاعرے کو بھی انقلابی کہا جا رہا ہے پہلے انقلابی کی اصطلاح کامریڈ استعمال کرتے تھے اب اگر تقریروں ،بیانات ،نغموں اور انتظامات کے حوالے سے دیکھا جائے تو جماعت اسلامی ہی سب سے بڑی انقلابی پارٹی لگتی ہے۔ فیض احمد فیض کی نظمیں، غزلیں اور قطعات تو استعمال ہوتے ہی ہیں مگر جس قسم کا معاشرہ لانے کی بات ہو رہی ہے وہ بھی بہت زیادہ جمہوری اور ترقی پسندانہ ہے۔ میں نے الخدمت کے شعیب ہاشمی صاحب سے کہا کہ اب اور کوئی سیاسی پارٹی شعر و ادب سے لگاؤ نہیں رکھتی ۔ پہلے ایک دور تھا جب ہر پارٹی کے پاس ایک دو شاعر، افسانہ نگار، نقاد ضرور ہوتے تھے ۔پاکستان پیپلز پارٹی کے پاس اسلم گرداسپوری تھے ۔بہت اعلیٰ معیاری انقلابی شاعری۔ مسلم لیگ کنونشن ایوب کے دور میں ان کے پاس مشیر کاظمی تھے۔ حبیب جالب نیشنل عوامی پارٹی کے جلسوں کی کامیابی کی ضمانت سمجھے جاتے تھے۔ مسلم لیگ نون کو شاعر نقاد کالم نویس عرفان صدیقی کی سرپرستی حاصل رہی ۔لیکن اب کسی جلسے جلوس یا کنونشن میں یہ جماعتیں شعرا اور ادبا کو زحمت نہیں دیتیں اور اب حرف و دانش سے ان کا کوئی علاقہ نہیں رہا۔ جماعتیں نظریات سے خالی ہیں اور ذہن دانش سے ۔اب صرف طاقت ہی شناخت ہے۔

اس اجتماع کے موضوعات بہت اہم ہیں۔ ملاحظہ کیجئے:سید مودودی اور جماعت اسلامی۔ پھر دوسرا سیشن ہے ۔’’بدل دو نظام ‘‘جو اہم ترین ہے۔ ہمیں یہ سیشن دیکھنے کا موقع نہیں ملا۔اس کے موضوعات میں سیاست، عدلیہ، معیشت، صحت، تعلیم،  یعنی جتنے شعبے بھی زبوں حالی کا شکار ہیں،ان پر گفتگو ہوئی ہوگی۔دوسرے روز بلدیاتی نظام، محنت کشوں کے مسائل،زراعت '،قرارداد معیشت کے سیشن رہے ۔خواتین کانفرنس ہے۔ ایک سیشن ٹیکنالوجی سے مخصوص ہے۔ ’’ڈیجیٹل پاکستان‘‘ایک اہم سیشن ہے۔عالمی سطح کا نظام نو پیدا ہو رہا ہے۔اتوار کے روز ایک میرے نزدیک حساس سیشن ہے ۔جس میں جماعت اسلامی کے تمام صوبوں کے امیر اپنے اپنے صوبوں کے مسائل پر تبادلہ خیال کریں گے۔اس میں خاص بات یہ دکھائی دے رہی ہے کہ سندھ کے امیر کراچی کے امیر الگ الگ ہیں ۔پنجاب میں شمالی اور جنوبی کے الگ الگ۔ اسی طرح خیبر پختونخوا وسطی، شمالی اور ہزارہ کے الگ۔ اقلیتی ونگ کے رہنما بھی اس گفتگو میں شامل ہیں ۔ ایک الگ سے لیکچر جناب مشاہد حسین کا بھی عالمی منظر نامے پر رکھا گیا ہے۔

مشاعرہ بھی اسی بلند اسٹیج سے ہو رہا ہے۔ فاصلہ سامعین اور شاعروں کا اتنا ہے کہ مشاعرے کے صدر انور مسعود کہہ رہے ہیں کہ ایسا لگ رہا ہے شاعر لاہور میں سامعین شاہدرہ میں ۔انقلابی مشاعرہ ہے اس لیے زیادہ تر سینئر شاعر اپنا انقلابی کلام ہی سنانے پر مجبور ہیں۔ سامعین قابل تحسین ہیں کہ صبح سے مختلف سیشن سننے کے بعد تھکے نہیں ہیں۔ مشاعرے میں بھی تازہ دم نظر آرہے ہیں۔ انقلابی نظموں اور غزلوں پر کھل کر تالیاں بجاتے ہیں ۔ان میں ہر صوبے کے ہر زبان بولنے والے لوگ ہیں جماعت اسلامی کے کارکن بہت سخن فہم بھی لگ رہے ہیں اور میں دیکھ رہا ہوں کہ ان میں ہر عمر کے پاکستانی ہیں ۔خورشید رضوی ،سحر انصاری، انور شعور، حکیم ناصف،شعیب بن عزیز،خالد شریف،سعد اللہ شاہ، احمد حاطف صدیقی، سعود عثمانی سب کو داد مل رہی ہے۔ جماعت اسلامی سے وابستہ اپنے شعراء کے ہاں بھی بہت بلاغت اور فصاحت ہے ۔عبدالرحمن مومن کی نظامت نے تو مشاعرے میں جان ڈال رکھی ہے۔

اجتماع عام کے ذریعے نظام بدلا جائے گا یا نہیں یہ تو ابھی نہیں کہہ سکتے لیکن جماعت اسلامی کے اپنے کارکن تو واہگہ سے گوادر تک بیدار ہو گئے ہیں۔ خواتین اور نوجوانوں کیلئے الگ سیشن بھی رکھے گئے ہیں۔ دیکھنا یہ ہوگا کہ اس وقت ملک جن آئینی پیچیدگیوں کا شکار ہے۔ نا انصافیوں کا سامنا کر رہا ہے ۔غربت کی لکیر سے نیچے لوگوں کی تعداد بڑھ رہی ہے اس کے تدارک کیلئے کچھ مداوا ہوتا ہے یا نہیں۔ بہت اچھے انتظامات اور اخراجات کر کے یہ کنونشن چلایا گیا ہے ۔کیا اس سے توقع کی جائے کہ ایسا انتظام کرنے والی جماعت ملک بھی چلا سکتی ہے اور کیا پاکستان کے عوام اپنے آپ کو جماعت اسلامی کے ہاتھوں میں محفوظ سمجھیں گے۔

تازہ ترین