• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مزید دو دن گزرنے کے بعد5 جولائی کا دن چڑھے گا اور پاکستان کی زندگی میں 5جولائی وہ تاریخ ہے جس کی صبح پاکستانیوں کے لئے سحر نہیں قہر کا سورج لئے طلوع ہوئی۔ 5 جولائی 1977 ء کی شب جنرل(ر) ضیاء الحق کا فوجی شب خون پاکستان میں ’’قانون اور تہذیب کا قتل تھا‘‘ ایسا ہی کہنا ہے ،گزرے 37 برسوںنے ان کے قول کی تصدیق وطن کے ہر ذرے پر ثبت کردی ہے!
سوویت یونین فتح ہوا یا نہیں؟ اور کل کلاں دہلی کے کسی قلعے پر لال جھنڈا لہرائے گا یا نہیں؟ پاکستان کے عام آدمی کے پاس اس سوال کا جواب تو نہیں مگر وہ اپنی زندگی میں پاکستان کی دھرتی پہ انسانوں کے لہو کی ارزانی قبول کرچکا، مقدس افراد اور گردھوں نے نارمل زندگی کے ہر لمحے کو اس کی فطری جبلت اور ساخت میں برباد کرکے رکھ دیا ، اپنے ہی وطن کی دھرتی پہ’’مہاجرین‘‘ کی آمد اس پاکیزہ جہاد یا جہادوں کی وہ جنت ہے جن کے ذریعہ ان مقدس افراد اور گردھوں نے ابھی پوری دنیا فتح کرنی اورعالمی برادری کو ’’راہ ہدایت‘‘ پر لاکے رہنا ہے!پاکستان میں تاریخ اور سوچ کی معروضیت کے تناظر میں سچ نہیں لکھا جاسکتا ، اب یہاں صرف قتل کا بازار گرم ہے۔5 جولائی1977ء کی آمد پر ذوالفقار علی بھٹو نے بہت کچھ کہا تھا، آئیے اس صدائے بازگشت کی ذہنی فلم کے مناظر میں آج 37 برس بعد کے پاکستان کا چہرہ پہچاننے کی کوشش کریں۔ذوالفقار علی بھٹو کا کہنا تھا’’بگاڑ کا یہ عمل 5 جولائی 1977ء کو شروع نہیں ہوا تھا بلکہ اس کا آغاز اس وقت ہوگیا تھا جب اکتوبر 1954ء کو پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی کو تحلیل کردیا گیا۔ پاکستان کی وفاقی عدالت نے اسمبلی کی تحلیل کو اس مبہم عمومی سچائی پر جائز قرار دے دیا کہ لوگوں کی فلاح و بہبود ہی اعلیٰ ترین قانون ہے‘‘۔’’ حالات بڑی سنگدلی کے ساتھ حتمی تصادم کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ اس کا انجام انتہائی بھیانک بھی ہوسکتا ہے۔ سپین بھی اس طرح کے تصادم سے دو چار ہوچکا ہے ، چالیس سال کا عرصہ بیت چکا ہے لیکن ہسپانوی عوام کو اس وقت کی یادیں ایک ڈرائونے خواب کی طرح آج بھی ڈراتی ہیں، سپین آج بھی ان زخموں کی وجہ سے لنگڑارہا ہے۔ مغربی مورخ یہ ثابت کرنےکی کوشش کرتے ہیں کہ سپین سے اسلام کا نام مٹانے میں فرڈینڈ اور ازابیلا کا ہاتھ ہے۔ اسلام اپنے غرناطہ تک اس وجہ سے پہنچا کہ مسلم دشمن نے غداری کی اور اس کے خلاف حد سے کام لیا تھا۔ سپین پاکستان کو دو طرح سے انتباہ کرتا ہے۔ ان میں سے ایک انتباہ فوج اور عوام کے درمیان متوقع تصادم کے بارے میں ہے اور دوسرا اس اسلامی ریاست کے خاتمے سے متعلق ہے۔ہسپانوی کہتے ہیں’’سپین زندہ باد‘‘ جبکہ پاکستانی پاکستان زندہ باد کہتے ہیں‘‘۔
’’ہر نقطہ نظر‘‘ میں قومی نقطہ نظر کسی بھی دوسرے نقطہ نظر سے زیادہ شامل ہوتا ہے۔4 جولائی کی رات کو تقریباً 12 بجے کھانے کے بعد یا پھر 5 جولائی 1977ء کی صبح کھانے کے بعد جب سازشی وار کر چکے تھے تو اس وقت مسٹر حفیظ پیرزادہ نے مجھے کہا’’مبارک ہو، سربحران ختم ہوگیا ہے‘‘ میں نے انہیں پوچھا’’ ایسا کیا ہوا ہے؟‘‘ انہوں نے’’حزب اختلاف کے غبارے سے ہوا نکل چکی ہے‘‘۔ میں ہنس پڑا اور میں نے ممتاز علی بھٹو سے کہا کہ ’’وہ پیرزادہ کی دائمی رجائیت کو دور کرے‘‘۔ ممتاز علی بھٹو نے جواب میں کہا’’پیرزادہ کی رجائیت دور کرنے کے لئے جب زوروں کا سیلاب آئے گا تو انہیں سکھر بیراج لے جائوں گا‘‘۔ اس جواب پر ہم تینوں قہقہہ لگا کر ہنس پڑے۔ آدھے گھنٹے بعد ہم نے کسی اور قہقہے کی آواز سنی، جب وقت آئے گا تب پتہ چل جائے گا کہ آخری قہقہہ کس کا ہوگا؟‘‘۔
’’جب ہم اعلیٰ اور طاقتور لوگوں کے بارے میں بات کررہے ہیں تو یہ پوچھنا بے جانہ ہوگا کہ اس وقت ان جیسے اعلیٰ اور طاقتور لوگوں کے ساتھ کیا ہوا تھا کہ انہوں نے پاکستان کے جاں بلب خالق کو ماری پور میں شدید گرمی میں تین گھنٹوں تک ایک ناکارہ ایمبولینس میں بے یارو مددگار چھوڑ دیا تھا۔ قائد اعظم کے معالج کرنل الٰہی بخش نے ان کے آخری ایام کے بارے میں جو اپنی کتاب میں تحریر کیا اس کتاب کو آخر کس لئے ممنوع قرار دے دیا گیا تھا۔ ان اعلیٰ اور طاقتور لوگوں کے ساتھ کیا ہوا جنہوں نے پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کو قتل کرنے کی سازش تیار کی اور جنہیں راولپنڈی میں ایک عوامی جلسے کے دوران گولی ماردی گئی؟اس پولیس افسر کو جس نے قاتل کو گولی ماری تھی اسے ترقی سے کیوں نوازا گیا؟ اسے ترقی کے انعام سے اس لئے نوازا گیا کیونکہ مردے کبھی بولا نہیں کرتے۔’’میں یہ بھی جاننا چاہوں گا کہ وہ جرنیل جنہوں نے یہ موجودہ فوجی حکومت بنائی ہے اس وقت اتنے پریشان کیوں ہوگئے تھے جب مجیب الرحمن نے دھمکی دی تھی کہ وہ ڈھاکہ میں جنگی مقدمات شروع کرے گا؟ یہ جرنیل اتنے کیوں پریشان تھے کہ ان مقدمات کی کارروائی شروع نہ کی جائے؟‘‘ ’’میرے اندر بہت ساری خامیاں ہیں۔ میں نے عظیم ا لشان عوامی اجتماعات کے اندر اپنی ان کمزوریوں کا برملا اعتراف کیا ہے۔ میں غلطیوں سے بھرا پڑا ہوں۔ میرے اندر کوئی بھی غلطی ہوسکتی ہے لیکن میں ایک کرپٹ انسان نہیں ہوں....... تیس سے پینتیس سال کی خدمات میرے پس منظر میں کھڑی ہیں۔ یہ وقت ہی بتائے گا کہ آیا میرا نام برصغیر کے مجرموں کے نام کے ساتھ آئے گا یا پھر ان عظیم لوگوں کے ساتھ میرا نام آئے جن کی شہرت دنیا بھر میں پھیلتی ہے۔ میرا نام اور میری نیک نامی لوگوں کی حفاظت میں ہے اور تاریخ کے دل میں دھڑکتا ہے‘‘۔
’’میرے پاس پوچھنے کے لئے کئی مدلل سوالات موجود ہیں۔ان سوالوں کو پوچھنے کا وقت بھی آئے گا اگر مجھے پھانسی دے کر قتل کردیا گیا تو پھر یہ سوالات ا ور اونچی آوازوں میں پوچھے جائیں گے، جب تک ان سوالوں کے جوابات نہیں مل جاتے ملک میں شور و غل، گڑ بڑ، تصادم اور آتشزدگی رہے گی‘‘۔ذوالفقار علی بھٹو یہ سوالات نہ پوچھ سکے مگر وقت شور و غل تصادم اور آتشزدگی کی شکل میں ان سوالات کا جواب دے رہا ہے۔5 جولائی 1977ء پاکستان میں قانون اور تہذیب کا قتل تھا۔4 اپریل 1977ء کو اس قتل کی لاش لاڑکانہ لے جائی گئی اور 17 اگست 1988ء کو جنرل ضیاء کی ہلاکت کی صورت میں وقت کی جہت نے اپنے جواب کی صرف ایک پرت اتاری تھی، اس کے بعد آج2014ء اپنی پرتیں اتاررہا ہے، قدرت کے قوانین اس کے ساتھ ہیں کسی قسم کی لچر گوئی اور نعرہ بازی ہمیں ان پرتوں سے محفوظ نہیں رکھ سکتی۔یہ سوال ابھی تک موجود ہے کہ کس ذہنی عقیدے کے تحت تم نے ایک کلمہ گو مسلمان کی ’’مسلمانی چیک‘‘ کرنے کے کبیرہ ترین گناہ کا ارتکاب کیا اور پاکستان کی تاریخ میں، پنجاب ہی واحد صوبہ ہے جس پر اس سوال سمیت سب سوالوں کے جواب کا بوجھ موجود ہے اور موجود رہے گا، باقی تینوں صوبے اور ان کے عوام پنجاب اور پنجابی عوام کے قرض خواہ ہیں جنہیں ان سوالوں کے جواب کی صورت میں ادائیگی کرنا پڑے گی۔معروف ترقی پسند کالم نگار شاہد جتوئی نے گزشتہ دنوں سوفیصد صحیح یاد دلایا’’ضیاء الحق کی اجتماعی مذمت نہیں ہوئی‘‘ ، میں بھی جنوبی پنجاب کے اس بزرگ دانشور کا یہ قول ریکارڈ پر لانا چاہتا ہوں جس نے مجھے کہا تھا ’دکچھ بھی کرلو، ان سب ذمہ داروں کو بھٹو کی قبر پہ جاکے معافی مانگنا پڑے گی‘‘۔ 5 جولائی 1977ء کے بعد پاکستان اور خدا کی اس دنیا کو’’ راہ ہدایت‘‘ پہ لانے کا وہ طبقہ براہ راست اور بالواسطہ برسراقتدار آگیا جس نے پاکستان کے نارمل سماج کی اینٹ سے اینٹ بجا کے رکھ دی ، ان کے سفید پوش کلچر کے عین مطابق روزگار کے بجائے خیرات، انصاف کے بجائے رحم، کام کے بجائے استحصال انتہائی فروغ پذیر ہوچکے، پنجاب کو ہی یہ فیصلہ کرنا ہے کہ سقوط مشرقی پاکستان، ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی، طالبان کی تشکیل، پرائیویٹ جہاد، غیر ممالک میں پاکستان کے’’ جہادی جذبے‘‘ کی پرورش اور عمل پذیر ی، ان سارے اعمال کے دورانیوں میں اقتدار کے مختلف فیصلہ کن مراکز کس قومیت کے فیصلہ کن ہاتھوں میں تھے؟ اور کس صوبے کی ’’سیاسی قیادت‘‘ منوانے کی کوشش کی گئی جس کی کوئی بھی انتخابی فتح، متنازعہ اور مشکوک نہیں تھی؟
پاکستان پیپلز پارٹی زندہ ہے یا مرچکی ہے؟ فیصلہ کرنے میں عجلت سے کام لیا جارہا ہے، ان قلمکاروں کو خاص طور پر اپنی اس ذاتی عادت پر قابو پانا چاہئے جس کے ہاتھوں ان کی تحریروں اور پیش گوئیوں میں نہایت قابل مذمت تفادات تلاش کئے جاسکتے ہیں۔ پیپلز پارٹی پاکستان کی ہی نہیں برصغیر کے تاریخی افق کا سب سے بڑا عوامی استعمارہ ہے، اسے محض ایک’’منظور وٹو‘‘ کے پس منظر میں تلاش کرنا غیر منطقی تو ہے ہی غیر فطری حد تک مفروضہ بھی ہے۔ آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو اس استعارہ کے وارثوں کے طور پر محترم و مکرم ہیں، ان کی ذات کی نعوذ باللہ کسی کو محتاجی نہیں، ان میں سے کوئی اگر اس جماعت کو’’ ڈیرے داری‘‘ کی سیاست میں بدلنا چاہئے وہ اس کی مرضی مگر پی پی کے اصل وارث عوام ہیں، وہ ایسے کسی فرد کے سر پر تاریخ سازی کا تاج قائم نہیں رہنے دیں گے ۔ کوئی کسی احساس برتری، احساس دانائی یا احساس تونگری میں مبتلا نہ رہے!
تازہ ترین