دنیا بھر میں لوکل گورنمنٹ کو سیاسی تربیت کی پرائمری نرسری تصور کیا جاتا ہے۔ مقامی حکومتیں اس لحاظ سے بھی بہت اہم ہیں کیونکہ بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے نئے شہر وجود میں آ رہے ہیں جہاں نظم و نسق اور بہتر انتظامات کی ضرورت ہے تاکہ اختیارات مرکز کی بجائے نچلی سطح پر منتقل ہوں۔حال ہی میں ساؤتھ افریقہ کے صدر نے دنیا میں عدم مساوات کے موضوع پر ایک بین الاقوامی کمیٹی قائم کی ہے جس نے کہا ہے کہ دولت کی غیر مساوی تقسیم نہ صرف جمہوریت بلکہ معاشی ترقی کو بھی کمزور کر رہی ہے۔ ڈیجیٹلائزیشن اور مصنوعی ذہانت جہاں سماج کو کچھ فائدے پہنچا رہی ہیں وہیں سماجوں کے اندر مزید عدم مساوات کے اضافے کا باعث بھی بن سکتی ہے۔ اس کمیٹی نے کہا ہے کہ اس غربت کو کم کرنے کیلئے مقامی حکومتوں کی سطح پر ایسے طریقے موجود ہیں جس سے یہ عدم مساوات کم ہو سکتی ہے۔لیکن مقامی حکومتوں کے حوالے سے ہماری روایات اس کے بالکل برعکس ہیں جس کی اصل وجہ پاکستان میں وراثتی سیاسی جماعتیں ہیں جو نظام پر جاگیرداروں، قبائلی سرداروں، سجادہ نشینوں اور سول بیوروکریسی کے قبضوں کو زیادہ مقدم سمجھتی ہیں اور ان کا خیال ہے کہ اس نظام کے ذریعے ایک لاکھ سے زائد منتخب ہونیوالے کونسلرزسماجی شعور سے مزین سیاسی لیڈر بن کہ ان کے مفادات کے حصول میں کہیں رکاوٹ نہ بن جائیں۔ فوجی حکومتوں نے بھی سب سے زیادہ فوقیت مقامی حکومتوں کے نظام کو دیتے ہوئے ان کو اپنی حمایت، اقتدار کو طول دینے اور اسے اپنی سیاسی مداخلت کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش کی۔ گوکہ مقامی حکومتوں کے ادارے انگریزوں کے دور میں قائم ہو چکے تھے اور انہیں ایوب خان، ضیاالحق اور پرویز مشرف نے تقویت دی جبکہ پاکستان کی بڑی سیاسی پارٹیوں نے یہ ادارے قائم کرنے سے ہمیشہ گریز کیا۔ جب بھی کوئی صوبائی حکومت تبدیل ہوتی ہے تو وہ مقامی حکومتوں کے تسلسل کو روک دیتی ہے اور اس نظام میں بنیادی تبدیلیاں کر کے اس کو غیر موثر بنا دیتی ہے۔ اسی وجہ سے آج کل الیکشن کمیشن، اسلام آباد ہائیکورٹ اور پنجاب ہائیکورٹ میں مقامی حکومتوں کے انتخابات کے متعلق کیسز کافی عرصے سے پینڈنگ پڑے ہیں۔نئی آنے والی صوبائی حکومتیں مقامی حکومت کے حوالے سے قانون سازی اور عمل درآمد کیلئے حزب اختلاف کے ساتھ کبھی ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش نہیں کرتیں۔گزشتہ کئی سال سے پنجاب میں مقامی حکومتوں کے انتخابات التوا کا شکار ہیں،پہلے 2013ء کا ماڈل لایا گیا پھر 2019ء، 2021ء اور2022ء کے ماڈل تواتر سے لائے گئے۔ اب2025ء کا ماڈل اسمبلی نے تو پاس کر دیا ہے لیکن اس میں ضلعی حکومتیں ڈپٹی کمشنر کے ماتحت ہوں گی یوں بلدیاتی نظام ایک عجیب مذاق بن کر رہ جائے گا۔ پنجاب کے اس قانون میں ریاستی افسر شاہی کی مداخلت اور کنڑول و نگرانی دراصل ایک غیر جمہوری عمل ہے جس سے یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ منتخب نمائندے غیر ذمہ دار اور بدعنوان ہوتے ہیں، یوں ان کی نگرانی پر افسر شاہی کو تھونپا جاتا ہے کیونکہ وہ غیر جانبدار اور ریاستی اداروں سے مخلص ہوتی ہے۔
آئینِ پاکستان کے آرٹیکل32کی رو سے مقامی حکومتوں کو بھی مملکت کا حصہ بیان کیا گیا ہے جبکہ آرٹیکل140-A میں صوبوں کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ نہ صرف مقامی حکومتوں کا نظام بنائیں بلکہ ان اداروں کو سیاسی، انتظامی اور مالیاتی ذمہ داریاں بھی تفویض کریں۔ 27ویں آئینی ترامیم کے وقت بھی ہم نے آرٹیکل 140-Aمیں تبدیلیوں کی بات سنی لیکن حکومت کو عدلیہ پر تسلط حاصل کرنے کی اتنی جلدی تھی کہ مقامی حکومتوں کے بارے میں آئینی ترمیم کو پس پشت ڈال دیا گیا۔اس سلسلے میں پاکستان انسٹیٹیوٹ آف لیجسلیٹو ڈویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرنسی کے ایک مجوزہ بل میں چھتیس شعبوں کو مقامی حکومتوں کے حوالے کرنے کی سفارش کی گئی ہے لیکن یہ بل بھی جولائی 2023ءسےسینٹ میںزیرالتواہے۔آئین کے آرٹیکل140-Aکے تحت ہر صوبے کو مقامی حکومتوں کا نظام تو قائم کرنا ہے لیکن اس میں مقامی حکومتوں کیلئے کوئی واضح ڈھانچہ موجود نہ ہونے کی وجہ سے صوبائی حکومتیں اس کو التوا میں ڈالتی رہتی ہیں۔ کیونکہ موثر مقامی حکومتوں کی عدم موجودگی کی وجہ سے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ارکان مقامی ترقیاتی فنڈز پر بڑا اثر رکھتے ہیں، اس لیے وہ مقامی حکومتوں کو بااختیار بنانے میں دلچسپی ہی نہیں رکھتے۔ ہر نئی حکومت اپنی مرضی کا لوکل گورنمنٹ نظام لاتی ہے تاکہ جمہوری ادارے اپنی بنیادوں پر کھڑے نہ ہوسکیں اور یوں وراثتی کلچر کا تسلط سماج پر برقرار رہے۔
یاد رہے کہ مقامی حکومت دراصل جمہوری نظام کی ایک اکائی ہوتی ہے جو نہ صرف سماج میں جمہوری اقدار کو فروغ دینے کا ذریعہ بنتی ہے بلکہ عوام میں مل کر کام کرنے اور مسائل کے حل کا جذبہ بھی پیدا کرتی ہے یوں سیاسی کارکنوں کا شعور مزید پختہ ہوتا ہے، اسی لیے مقامی حکومتوں کو سیاسی ارتقاء کی سیڑھی مانا جاتا ہے۔ ہمیں یورپین نمائندگان سے مل کر اس سیاسی شعور کا احساس ہوتا ہے کہ وہ کس طرح بلدیاتی نظام میں سیاسی کارکنوں کی پرورش کرتے ہیں جو انہیں صوبائی اور وفاقی ذمہ داروں کیلئے تیار کرتا ہے۔پاکستان میں جب تک مقامی حکومتوں کی تشکیل جدید خطوط پر نہیں کی جائیگی اس وقت تک ملکی سیاست میں باشعور سیاسی رہنماؤں کا قحط ہی رہے گا۔ آج اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ وفاقی حکومت آرٹیکل 140-A کے مطابق ایک مکمل اور مربوط مقامی حکومتوں کے قانون کو اس طرح نافذ کرے کہ صوبائی حکومتیں مقامی حکومتوں کے انتخابات مقررہ وقت پر کرانے کی پابند ہوں اور تمام صوبوں میں مقامی حکومتوں کا ڈھانچہ بھی یکساں ہو۔ نئے صوبے بنانے کی جو آوازیں وقتاً فوقتاً اٹھتی رہتی ہیں وہ اختیارات کو نچلی سطح پر منتقل کرنے سے ہی زائل ہو سکتی ہیں۔