یہ کوئی ماضی بعید کے من گھڑت قصے یا افسانوی کہانیاں نہیں بلکہ تحریک انصاف اور ’’قائد تحریک‘‘ عمران خان کی جانب سے مبینہ غیر ملکی ایجنڈے کی تکمیل کے لئے ملک میں سیاسی اور انتظامی بے چینی پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ سلامتی کے خلاف سازشوں پر عمل درآمد کرنا مقصود تھا جس کی بنیاد پر معیشت کے مسائل اور قومی سلامتی کے خطرات سر اٹھانے لگے کیونکہ یہ وہ وقت تھا جب تحریک انصاف کی حکومت عوام اور انتظامی ڈھانچے کو مختلف سیاسی ہتھکنڈوں کے ذریعے ریاستی اداروں کے خلاف بغاوت پر اکسا کر مخصوص مفادات اور مقاصد حاصل کرنے کی کوشش تھا جو ملک کو تین حصوں میں تقسیم کرنے کے خفیہ ایجنڈے کو حقیقت میں بدلنے کی خواہش ابتدائی مراحل میں تھی۔
اڈیالہ جیل کے باہر تحریک انصاف کی پرتشدد سیاسی سرگرمیوں میں آئے روز اضافے، دہشتگرد تنظیموں اور پی-ٹی-آئی کے شرپسند عناصر کی جانب سے خیبر پختون خوا میں ہونے والے جلسوں کے علاوہ اسلام آباد پر کی جانے والی مسلح یلغار کے دوران جیل پر حملہ آور ہو نے اور عمران خان کو بزور طاقت رہا کرانے کی دھمکیوں کی صورت میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو درپیش چیلنجز میں شدت اور امن قائم رکھنے میں درپیش مشکلات میں تشویشناک حد تک اضافہ ہوا۔
جیلوں میں سیاسی قیدیوں پر جبر ، ذہنی اور اعصابی اذیت اور گھٹن کا ماحول رکھنے کی ابتداء بعض مقتدر سیاسی جماعتوں اور فوجی حکومتوں نے کی تھی جس کی انتہا تحریک انصاف نے 2014 کے دھرنوں اور 2018 میں فارم 45 اور 47 کے چکروں میں پڑنے کی بجائے براہ راست فوج کے کندھوں پر بیٹھ کر اقتدار پر قبضہ کیا اور علی الاعلان اپنے’’مشن‘‘ کا آغاز کیا۔
کیا ماضی کے سیاسی یا فوجی حکومتوں کی جانب سے جیلوں کے اندر اس قدر مراعات ذوالفقار علی بھٹو کو نہیں دی تھیں جتنی عمران خان کو حاصل ہیں؟ کیا یہ درست نہیں کہ اصل قید تنہائی بھٹو کو دی گئی جبکہ عمران خان کو تمام تر مراعات کی ساتھ ’’پرتعیش قید‘‘کی’’نام نہاد سزا‘‘دی گئی ہے۔ جہاں عمران خان کی قید تنہائی کا سوال ہے اسے جیل حکام بین الاقوامی توجہ حاصل کرنے کا ’’سیاسی شوشہ‘‘ قرار دیتے ہیں۔ذوالفقارعلی بھٹو کو جس سیل میں رکھا گیا تھا وہ ایک کمرے کے ساتھ ایک لیٹرین اور ایک چھوٹے صحن پرمشتمل تھا جبکہ عمران خان کو آٹھ کمروں پر مشتمل پوری بیرک ہے جس میں ورزش کی مکمل اور جدید مشین موجود ہے، دوسرا کمرہ لائبریری کے لئے مختص ہے جہاں عمران خان کی ڈیمانڈ اور خواہش کے مطابق کتابیں اور میگزینز فراہم کئے جاتے ہیں جبکہ بھٹو کو صرف سفید کاغذ حاصل کرنے کے لئے جیل حکام سے بار بار درخواستیں کی جاتی تھیں۔
تیسرا کمرہ میٹگز کے لئے مختص ہے جہاں عمران خان اس خوف سے سیاسی ملاقاتیں کرنے سے اجتناب کرتے ہیں کہ کہیں ملک کے خلاف سازشوں کے راز فاش نہ ہو جائیں۔ایک کمرہ کچن کے طور پر استعمال ہوتا ہے جہاں عمران خان کی ’’خوش خوراکی‘‘ کو مدنظر رکھتے ہوئے دیسی گھی، دیسی مرغ اور مٹن سے’’قید تنہائی‘‘ میں زندگی گزارنے والے قیدی کی تواضع کی جاتی ہے۔پانچواں کمرہ بیڈ روم کے طور پر استعمال ہوتا ہے جہاں قیدی نمبر 804 تمام تر آسودگی کے ساتھ اسطراحت فرماتے ہیں۔اس کے باوجود تحریک انصاف عمران خان کی آسودگی سے مطمئن نہیں کیونکہ عدلیہ کی نوازشوں سے وہ جیل میں بھی ایسی پر تعیش زندگی گزار رہے ہیں جو آزاد لوگوں کو بھی میسر نہیں۔
یہ ہمارے ملک کا ’’عدل عظیم‘‘ ہی ہے جس کی عنایات سے عمران خان کو جیل میں تحریک انصاف کے ایسے شرپسند رہنماؤں سے طویل ملاقاتوں کے مواقع میسر آتے ہیں جن کے ذریعے حکومت کو گرانے اور ریاست مخالف تحریک چلانے کے منصوبوں کے علاوہ ریاست اور ریاستی اداروں کو دنیا میں بے توقیر کرنے کی سازشیں تیار اور ان پر مؤثر عمل درآمد منصوبہ بندی کی جاتی ہے۔جیلوں کی عالمی تاریخ میں ایسا دیکھا نہ سناکہ جیل کے ایک قیدی کی سربراہی میں سیاسی جوڑتوڑ کے لئے اجلاس طلب کرنے کے علاوہ خیبر پختون خواء کی کابینہ سازی کے اجلاس بھی جیل میں ہوتے ہوں، نئے وزیر اعلیٰ کی تعیناتی اور پرانے کی برطرفی بھی جیل میں ہی کرنے کی اجازت دینا قانونی طور پر جائز ہے؟ عدل کی نگاہ میں کیا یہ درست ہے کہ وزراء کی برطرفی یا تعیناتی کے اجلاس جیل میں کئے جائیں؟ جیلوں میں سیاسی سرگرمیاں کرنا، سیاسی اتحاد میںردوبدل، قائد حزب اختلاف کی نامزدگیاں، ملک گیر مظاہروں اور تحریکوں کے فیصلے اور سیاسی حکومتوں کی بجائے فوج کی اعلیٰ قیادت سے مذاکرات کے فیصلے کیا آئینی عمل ہے، کیا ماضی کی سیاسی روایات میں ایسی مثالیں موجود ہیں جن کی بنیاد پرعدلیہ ایسے اعمال کو جائز قرار دے رہی ہے جو بھٹو اور نوازشریف کے لئے ناجائز اور غیرقانونی تھے۔ کیا انہی اعمال کو قید تنہائی قرار دینا قرین انصاف ہے؟