• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ضمنی انتخابات میں ساری سیٹیں جیت لینا حکومت کی بڑی سیاسی کامیابی ہے لیکن حالات و واقعات کی رَو جس طرح چل رہی ہے اس میں کوئی بھی اعتبار کرنے کو تیار نہیں۔ تشہیر پر اربوں روپے خرچ کیے جا رہے ہیں۔ جمہوریت بھی عجیب و غریب چیز ہے۔ جب آتی ہے تو عدل و انصاف، وقار و متانت اور اعتبار ساتھ لیکر آتی ہے۔ جب اسے دم توڑنے پر مجبور کیا جاتا ہے تو جمہوریت کی علامت بلکہ ریاست کی شناخت ادارے سب اس کیساتھ ہی اپنی وقعت کھو ڈالتے ہیں۔ آپ بے شک کروڑوں کے اشتہارات شائع کریں۔ شہر در شہر فلائر لٹکائیں پورے پورے خاندان کی تصویریں آویزاں کریں۔ ٹاک شوز میں اپنے ماہرین بٹھائیں۔ جب اعتبار اٹھ گیا ہو تو دیکھنے سننے پڑھنے والوں کی دماغی کیفیت کچھ عجیب ہو جاتی ہے۔ طبیعت ادھر آتی ہی نہیں ہے۔بقول میر تقی میر’’یا ں وہی ہے جو اعتبار کیا‘‘ Perception ایک عالمی حقیقت اور مسلمہ طاقت بن گیا ہے۔ شاہوں کے دورے بے اثر ہورہے ہیں۔پہلے وزیر خارجہ بھی اپنے نقش قدم ثبت کر جاتا تھا۔ جب انصاف اٹھ جائے جمہوریت کے آثار ترامیم کے ذریعے مٹائے جا رہے ہوں تو لوگوں میں ایک بیگانگی اور لا تعلقی پیدا ہو جاتی ہے ۔وہ کسی بھی واقعے کو، کوشش کو ماننے پر تیار نہیں ہوتے۔ یہ خطرے کی گھنٹی ہے۔ اب صورتحال یہ ہے، پہلے تو ہر پارٹی ہر لابی کو اپنے پیروکاروں کو قائل کرنا پڑتا ہے کیونکہ سوشل میڈیا پر ایسی ہوائیں چل رہی ہیں جو اعتماد کو لرزاں کر دیتی ہیں۔ ایسے ایسے انکشافات کہ بہت زیادہ عقیدت مند بھی لرز کر رہ جاتا ہے۔ مینار پاکستان پر جماعت اسلامی کی چار نسلیں اپنے امیر، اپنے قائدین، اپنے قیموں کی تقریریں سنکر اپنے اپنے گھروں میں واپس پہنچ چکی ہیں غیر ملکی ماہرین کے افکار بھی انہیں سنائے گئے۔ اب بلوچستان ،سندھ ،کے پی کے، پنجاب، آزاد جموں کشمیر، گلگت بلتستان کے ڈرائنگ روموں چوپالوں چائے خانوں مسجدوں میں تبصرے ہوں گے ۔اجتماع کے شرکاء سے کئی سوالات ہوں گے انہیں اپنے اپنے علاقے کے فعال سیاسی کارکنوں کو قائل کرنا ہوگا۔ اس اجتماع سے پہلے اور بعد میں جماعت اسلامی کے عہدے داروں کی کوششیں یقیناً لائق ذکر ہیں ۔آپ سیاسی اور علمی طور پر لاکھ اختلاف کریں لیکن یہ تو تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ اپنا پیغام جماعت اسلامی ،منصورہ کےصالحین متفقین پورے خلوص سے اور جدید ترین ٹیکنالوجی کے ساتھ پہنچا رہے ہیں۔ پرنٹ کے ضمن میں انکا 210صفحات کا ’’جسارت‘‘ کا خصوصی شمارہ 21ویں صدی کی اہم سیاسی فکری علمی ادبی دستاویزوں میں شمار ہوگا۔ مستقبل کے مورخین کو 2025 کی سیاسی گردشوں پر تحقیق میں معاون ثابت ہوگا۔ اس میں’’جماعت‘‘ اور’’جسارت‘‘ نے بہت فراخدلی کا مظاہرہ کیا ہے۔ ہم جیسے جماعت کے ناقدین کے تجزیے بھی قطع و برید کے بغیر شائع کیے ہیں ۔کسی اور سیاسی جماعت کو ایسا حوصلہ نہیں ہو سکتا ۔ایسی منظم کوششیں رنگ ضرور لاتی ہیں۔ کہنے والے تو آسانی سے کہہ رہے ہیں کہ پی ٹی آئی کو تو مینار پاکستان پر ایک جلسے کی اجازت بھی نہیں ملتی ہے۔ جماعت اسلامی کو پورا مینار پاکستان دیدیا گیا اب ہم منتظر رہیں گے کہ جماعت اسلامی کیا اپنے صالحین اور متفقوں پر اپنا اعتبار بحال کرنے میں کامیاب رہی ہے۔ تاریخ اور جمہوریت کے ادنی طالب علم کی حیثیت سے میں تو اس اجتماع عام کو ایک مثبت قدم ہی قرار دونگا کہ ایک جماعت اپنے کارکنوں کو فعال کرنے میں کامران ہوئی ہے۔ ہر اہم مسئلے پر بات کی گئی۔ 27 ویں آئینی ترمیم، سول ملٹری تعلقات، غیر سیاسی طاقتوں کے غلبے پر تنقید بھی ہوئی ہے۔میڈیا ،پارلیمنٹ پر کنٹرول پر بھی تبادلہ خیال ہوا۔ دنیا کے نئے عالمی نظام کشمیر فلسطین اسرائیل کو تسلیم کروانے کی مہم، کون سا موضوع ہے جس کا تقریروں میں ذکر نہیں کیا گیا۔ جماعت کے کارکنوںکیلئے تو یہ ایک ورکشاپ تھی۔یہ منظم کوشش ایسے دور میں ہوئی ہے جب ریاست، ریاست کے ادارے، 'وفاقی اتحادی حکومت، صوبائی حکومتیں اپنے تمام تر کمشنروں ڈپٹی کمشنر وں 'لا تعداد افسروں کے باوجود اپنا اعتبار قائم نہیں کر پا رہی ہیں۔ ہمیں اور آپ کو روزانہ ہی یہ تجربہ ہو رہا ہے۔26 اور 27ویں ترمیم کے بعد اب 28ویں ترمیم لائی جا رہی ہے ۔آئینی ترمیم ایسا سنجیدہ اقدام ہوتی تھی کہ ہر پہلو، ہر جہت کا خیال رکھا جاتا تھا۔ جس لیبارٹری میں بھی یہ تجربے کیے جا رہے ہیں وہاں عجلت میںکچھ چیزیں رہ جاتی ہیں۔ یا ممکن ہے کہ یہ اکیسویں صدی کی حکمت عملی ہو کہ لوگوں کو انہی تجربوں میں مصروف رکھو۔ ’’ہم پہ ہونے ہیں تجربے کیا کیا ،ہم پہ گزریں گے سانحے کیا کیا ،آسماں کر رہا ہے سرگوشی، منتظر ہیں مواخذے کیا کیا‘‘۔یہ ایک قومی خسارہ ہے کہ ریاست اور ریاستی اداروںپر عوام کا اعتبار کم ہوتا جائے۔ حکمرانوں کی باتوں پر شک کیا جائے۔ میڈیا کی خبروں تجزیوں سے لوگ لا تعلق ہو رہے ہوں۔ عدلیہ کے فیصلوں پر بڑی آسانی سے کہہ دیا جائے کہ فیصلے تو کہیں اور سے آرہے ہیں۔ درسگاہوں کے وائس چانسلروں پر اساتذہ پر اپنے ہم جماعتوں کی باتوں پر اعتبار نہ ہو اور انہیں سچ نہ تسلیم کیا جائے۔ اب تو علمائے کرام کے فرمودات بھی متنازع قرار دیے جا رہے ہیں۔ غیرسرکاری تنظیموں یا این جی اوز نے اپنا ایک مقام بنایا تھا لیکن گزشتہ چند برس میں ان کے بارے میں بھی ایسے ایسے اعتراضات سامنے آئے ہیں کہ یہ بھی اپنا اعتبار کھو چکی ہیں۔ اس بے اعتمادی کے نقصانات ہمہ جہت ہیں معاشی نقصانات بھی ہیں سماجی بھی اور یہ پہلو بھی سامنے رہے کہ بہت سے اقتصادی منصوبوں پر عمل درآمد میں مشکل پیش آتی ہے۔ مختلف اسکیموں کا اعلان ہوتا ہے مگر وہ چشم زدن میں جھٹلا دی جاتی ہیں۔ جا بجا سچائی کی قبریں نظر آرہی ہیں۔ اعتبار کے اس خسارے کو کیسے پورا کیا جائیگا اور یقین کے اس بحران کو کیسے دورکیا جائیگا۔ ہر روز اتنی زد پہنچ رہی ہے کہ اس بارDamage control میں بہت مشکل پیش آئیگی۔ میرے خیال میں اس اہم پیچیدگی پر یونیورسٹیوں اور میڈیا ہاؤسوں میں بات ہونی چاہیے معروضی اور غیر جانبدارانہ مبسوط تجزیے کی ضرورت ہے۔ ریاست کا اہل ،ریاست پر اعتبار بحال ہونا عین قومی اور تاریخی ضرورت ہے۔ ایسے تجزیے قوم کی بہتری کیلئے ناگزیر ہیں اس میں کوئی خوف مانع نہیں ہونا چاہئے۔ اگر کوئی کہتا ہے کہ ایسا نہیں ہے۔ لوگ تو اعتبار کر رہے ہیں تو غالب کی زبان میں یہ کہنا پڑتا ہے: ’’کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا‘‘۔

تازہ ترین