• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یو اے ای پاکستانیوں کو ویزے نہیں دے رہا، حکام وزارت داخلہ کی سینیٹ کمیٹی کو بریفنگ

فائل فوٹو
فائل فوٹو 

حکام وزارت داخلہ نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کو بریفنگ میں بتایا ہے کہ یو اے ای پاکستانیوں کو ویزے نہیں دے رہا، صرف بلیو پاسپورٹ اور ڈپلومیٹک پاسپورٹ ہولڈرز کے لیے ویزے مل رہے ہیں۔

سینیٹ کمیٹی کو بریفنگ میں حکام نے بتایا کہ پاکستانی پاسپورٹ پر یو اے ای اور سعودی عرب میں پابندی لگتے لگتے بچی ہے، اگر پابندی لگ گئی تو اسے ہٹوانا مشکل ہوگا۔

حکام کا کہنا تھا کہ یو اے ای والے ویزا نہیں دے رہے، صرف بلیو پاسپورٹ اور ڈپلومیٹک پاسپورٹ ہولڈرز کے لیے ویزے مل رہے ہیں۔

حکام وزارت داخلہ کا کہنا تھا کہ پڑوسی ملک نے ہمارے سسٹم میں مداخلت کی اور پاسپورٹس بنوائے، اس میں ہماری بھی ذمہ داری ہوگی کہ کرپشن ہوئی ہوگی، چند ماہ قبل سعودی عرب سے بڑے پیمانے پر پاکستانی نکالے گئے، ان میں کئی افغان شہری پاکستانی بن کر مقیم تھے۔

بریفنگ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ 61 ممالک میں 21 ہزار 647 پاکستانی  قید ہیں۔

قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کی چیئر پرسن ثمینہ ممتاز نے کہا کہ انسانی اسمگلنگ کے خطرات کے بارے میں عوام کو آگاہ کرنے کی اشد ضرورت ہے، کیا ایف آئی اے اور متعلقہ اداروں نے ان علاقوں میں کوئی آگاہی مہم شروع کی؟ بیرون ملک غیر قانونی راستوں سے جانے کے سنگین نتائج سے عوام ناواقف ہیں، مختلف ایئرپورٹس پر آگاہی بینرز نہ ہونے پر بھی تشویش ہے۔

چیئر پرسن کمیٹی نے کہا کہ ہماری ذمہ داری ہے کہ نوجوانوں کو انسانی اسمگلروں کے دھوکے سے بچائیں، بیرون ملک جانے والے اسٹوڈنٹس کو جعلی کورسز اور جعلی ڈگریاں دی جا رہی ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ انسانی اسمگلنگ میں ملوث گروہ ہمارے اپنے ملک کے اندر سے کام کر رہے ہیں، غریب لوگ لاعلمی میں نشہ لے جانے جیسے جرم میں ملوث کر دیے جاتے ہیں، نشہ لے جانے والوں کو پتا نہیں ہوتا کہ سزا پوری زندگی بدل سکتی ہے، ایئرپورٹس پر منشیات کی سخت سزاؤں سے متعلق آگاہی مہم کی کمی ہے۔

ثمینہ ممتاز نے پوچھا کہ ایران میں حالیہ سخت سزاؤں کے بعد وہاں زیرِ حراست پاکستانیوں کی تعداد کیا ہے؟ متعلقہ وزارت نے اب تک کتنی آگاہی مہمات شروع کیں؟ کمیٹی کو بریف کیا جائے۔

سیکریٹری وزارت داخلہ کا کہنا ہے کہ چند ماہ قبل سعودی عرب سے بڑے پیمانے پر پاکستانی نکالے گئے، کئی افغان شہری پاکستانی بن کر مقیم تھے، اب ہم نے 18 سے 20 کروڑ پاکستانیوں کا ڈیٹا ڈیجیٹل طور پر جمع کر لیا ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ تمام شہریوں کا ریکارڈ موجود ہے اور تصدیق فوراً ہو جاتی ہے، شہری کی شناخت کی تصدیق کے بعد ہی پوچھا جاتا ہے اسے کیا معاونت چاہیے، مختلف ملکوں کے اپنے اپنے قوانین ہیں، ہر جگہ وکیل کرنا ممکن نہیں ہوتا، کئی ملک صرف اپنے ملک کے وکیل کی اجازت دیتے ہیں۔

سیکریٹری وزارت داخلہ کا کہنا تھا کہ بیرونِ ملک گرفتار پاکستانیوں کی اکثریت معمولی نوعیت کے جرائم میں ملوث ہوتی ہے، زیادہ تر گرفتاریاں اوور اسٹے، شناختی فراڈ یا بینک فراڈ کی ہوتی ہیں، قتل، منظم جرائم یا دہشت گردی میں پاکستانی شہری نہ ہونے کے برابر ہیں۔

انہوں نے کہا کہ انسانی اسمگلنگ کے بڑھتے واقعات پر وزیراعظم کی ہدایت پر متعدد ممالک کے دورے کیے، پنجاب کے کئی اضلاع سے بڑے پیمانے پر غیر قانونی بیرونِ ملک روانگی کے کیس سامنے آئے، گجرات، وزیرآباد، شیخوپورہ اور لاہور سے انسانی اسمگلنگ کے منظم نیٹ ورک چل رہے ہیں،  انسانی اسمگلرز دبئی اور مشرقِ وسطیٰ کے مختلف مقامات پر سرگرم ہیں۔

سیکریٹری وزارت داخلہ نے بتایا کہ معصوم نوجوانوں کو لالچ دے کر 43 سے 50 لاکھ روپے تک وصول کیے جاتے ہیں، انسانی اسمگلرز نوجوانوں کو یورپ پہنچانے کے بہانے غیر قانونی راستوں پر دھکیل دیتے ہیں، کئی پاکستانیوں کو 6 سے 8 ماہ تک جبری محنت اور غیر انسانی حالات میں رکھا جاتا ہے۔

قومی خبریں سے مزید