حنا نور، شکارپور
دیگر امراض کی نسبت جِلد کی بیماریاں محض جسمانی تکلیف تک محدود نہیں رہتیں، بلکہ کیل مہاسے، ایگزیما اور سورائسز جیسی اِسکن ڈیزیز ہماری ذہنی صحت اور جذباتی توازن پر بھی نمایاں اثرات مرتّب کرتی ہیں، کیوں کہ جِلد ہماری ظاہری شخصیت کی پہلی جھلک ہوتی ہے اور جب یہ متاثر ہوتی ہے، تو اس کا براہِ راست اثر ہماری خُود اعتمادی اور شخصیت کے دیگر مختلف پہلوؤں پر بھی پڑتا ہے۔
تو آئیے، اِس مسئلے کو ذرا تفصیل سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ جِلد کی بیماریوں کا ہماری دماغی صحت پر کیا اثر ہوتا ہے اور اس پر کیسے قابو پایا جا سکتا ہے۔
خُود اعتمادی کی کمی: جِلدی امراض کے خُود اعتمادی پر مرتب ہونے والے اثرات کا اندازہ اس بات لگایا جا سکتا ہے کہ جب ہمارے چہرے پر دانے، داغ دھبّے یا کیل مہاسے نمودار ہوتے ہیں، تو ہم دوسروں کا سامنا کرتے ہوئے خُود کو غیر مطمئن محسوس کرتے ہیں۔
ایسی صُورت میں ہر بار آئینہ دیکھنے اور لوگوں کا سامنا کرنے پر خود کو اعتماد سے عاری اوردباؤ کا شکارمحسوس کیا جاتا ہے۔ ایسا لگتاہے، جیسے سب لوگوں کی توجّہ ہمارے چہرے پر موجود کیل مہاسوں، داغ دھبّوں ہی پر ہے، جس کے نتیجے میں ہم خُود کو دوسروں سے کم تر اورکشش سے عاری محسوس کرتے لگتے ہیں۔
ڈیپریشن اور اضطراب: اگر کوئی طویل عرصے سے کسی جِلد کی بیماری میں مبتلا ہو، تو وہ بتدریج مایوسی، یاسیت کا شکار ہونے لگتا ہے، کیوں کہ جب کسی قسم کا علاج معالجہ کارگر ثابت نہیں ہوتا اور ’’درد بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی‘‘ کے مصداق بیماری طول پکڑتی جاتی ہے، تو اس کے نتیجے میں ڈیپریشن اور اضطراب بھی بڑھتا چلا جاتا ہے۔ متاثرہ افراد اکثر یہی سوچتے ہیں کہ شاید اب اس بیماری سے کبھی نجات نہیں مل پائے گی اور یوں ذہنی حالت پر مسلسل منفی اثرات مرتّب ہوتے چلے جاتے ہیں۔
لوگوں سے کنارہ کَشی: عموماً لوگ کسی بھی جِلدی مرض میں مبتلا ہونےکےسبب خود کوعام افرادسےالگ تھلگ محسوس کرتے اور سماجی طور پر تنہائی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ عام لوگوں سے محض اس وجہ سے ملنے جُلنے سے کترانے لگتے ہیں کہ وہ عجیب و غریب نظروں سے دیکھیں گے، مذاق اُڑائیں گے۔ نتیجتاً، سماجی تعلقات کو نقصان پہنچتا ہے اور متاثرہ افرادبہ تدریج تنہائی کا شکار ہونے لگتے ہیں۔
شرمندگی اور احساسِ کم تری: بعض جِلدی امراض، جیسا کہ ایگزیمااورسورائسز وغیرہ جسمانی تکلیف کے ساتھ شرمندگی کا احساس بھی دلاتے ہیں۔ متاثرہ فرد اِس ضمن میں بار بار خُود ہی کو موردِ الزام ٹھہرانے لگتا ہے کہ ’’اگرمیری جِلد صاف ہوتی، تو مَیں زیادہ پُراعتماد ہوتا۔‘‘ اور یہی منفی احساسات، مزید احساسِ کم تری میں مبتلا کردیتے ہیں۔
اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جِلدی امراض کےاِن منفی نفسیاتی اثرات سے کیسے چُھٹکارا پایا جاسکتا ہے اور ہم اپنی ذہنی وجسمانی صحت کیسے بحال رکھ سکتے ہیں؟
ماہرِ نفسیات سے رجوع: اِس کے لیے سب سے پہلے تو اپنی ذہنی و جسمانی کیفیت کو سمجھیں اور اُسے قبول کریں۔ اگر محض جِلد کے کسی عارضے کے سبب نفسیاتی مسائل کا سامنا ہے، تو فوری طور پر ایک مستند ماہرِ نفسیات سے مشورہ لینا اچّھی پیش رفت ہو سکتی ہے، کیوں کہ ایک ماہرِ نفسیات ہی بہت بہتر طور پر یہ بتائے گا کہ ہم نے اپنی بیماری کے ساتھ کس طرح زندگی گزارنی اورمنفی جذبات وخیالات پر کیسے قابو پانا ہے۔ یقین کریں، ایک اچھے نفسیاتی معالج کے مشوروں سے ذہنی کیفیت میں بہتری لانے اور دوبارہ نارمل زندگی کی طرف لوٹنے کی اَن گنت مثالیں موجود ہیں۔
معاون گروپس میں شرکت: مختلف جِلدی امراض کےشکار افراد کے معاون گروپس میں شرکت سے بھی دیگر افراد کے تجربات سُننے اور جاننے کا موقع ملتا ہے، جو ہم جیسی ہی مشکلات کا سامنا کر رہے ہوتے ہیں۔ نیز، اس سے یہ احساس بھی ہوتا ہے کہ ہم تنہا ہی اِن مسائل کا شکار نہیں۔ جب کہ اُن افراد کی معاونت سے ایک ذہنی و قلبی، جذباتی و روحانی سُکون کا احساس بھی اجاگر ہوتا ہے۔
مراقبہ اور دیگر ذہنی مشقیں: مراقبے اور یوگا جیسی ذہنی مشقیں بھی ذہنی سُکون اور خُود اعتمادی کی بحالی میں خاصی مدد فراہم کرسکتی ہیں۔ یہ مشقیں دراصل ہمارے جسم و دماغ کے درمیان توازن پیدا کرنے میں معاون ثابت ہوتی ہیں اور اِس عمل کے نتیجے میں ہم اپنے منفی جذبات پر کافی حد تک قابو پا سکتے ہیں۔
المختصر، جِلدی امراض اور ذہنی صحت کے درمیان ایک گہرا تعلق ہوتا ہے اور کوئی بھی جِلدی بیماری جسم کےعلاوہ، ذہنی کیفیت پر بھی گہرے اثرات مرتّب کر سکتی ہے۔ لہٰذا، اگرآپ بھی خدانخواستہ کسی جِلدی بیماری کے شکار ہیں، تو سب سے پہلےتو خُود کو وقت دیں، اپنی ذہنی صحت کا خیال رکھیں اور ماہرین سے مدد لینے میں تاخیر نہ کریں۔ یاد رکھیں، آپ کی جِلد، آپ کی مکمل شخصیت کا احاطہ ہرگز نہیں کرتی، بلکہ یہ محض اُس کا ایک چھوٹا سا حصّہ ہے۔