آج سوشل میڈیا کا دَورہے۔ گرچہ اس جدید ذریعۂ ابلاغ کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں، لیکن اس کے مُضر اور منفی اثرات بھی کم نہیں، جو سب سے زیادہ بچّوں پر مرتّب ہو رہے ہیں۔ آج سوشل میڈیا کے مشہور و معروف پلیٹ فارمز پر بھی ایسا مواد بِلا روک ٹوک اَپ لوڈ کیا جا رہا ہے کہ جسے دیکھ کر ہماری نئی نسل تیزی سے جرائم کی طرف راغب ہو رہی ہے اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز یہ سب کچھ آزادیٔ اظہار کی آڑ میں کر رہے ہیں، جس کے نتیجے میں ہماری نوجوان نسل اور بچّے تباہ و برباد ہو رہے ہیں۔
اِسی خطرے کے پیشِ نظر آسٹریلیا میں یہ قانون بنایا گیا کہ 16سال سے کم عُمر بچّوں کو سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر اپنا اکاؤنٹ بنانے اور کھولنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ یہ قانون 10 دسمبر سے نافذ العمل ہوگا، جب کہ اس قانون کی خلاف ورزی پر 49.5 ملین ڈالرز کا جرمانہ ہوگا۔
یاد رہے، آسٹریلیا کی حکومت نے دانش مندی سے کام لیتے ہوئے یہ جُرمانہ بچّوں یا اُن کے والدین پر عائد نہیں کیا، بلکہ اُن سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر عائد کیا ہے، جو 16 برس سے کم عُمر بچّوں کے اکاؤنٹ کھولیں گے۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ اسلامی مُلک، ملائیشیا نے بھی ایسی ہی پابندی عائد کرنے اور اُس سے متعلق قانون سازی کا اعلان کیا ہے۔
دوسری جانب یورپی یونین نے بھی یہ قراداد پاس کی ہے کہ اُس کے اٹھائیس رکن ممالک کے بچّے والدین کی مرضی کے بغیر سوشل میڈیا استعمال نہیں کرسکتے۔ علاوہ ازیں، نیوزی لینڈ اور دیگر ترقّی یافتہ ممالک بھی ایسے ہی اقدمات کررہے ہیں۔ تاہم، دُکھ سے کہنا پڑتا ہے، پاکستان جیسے مُلک میں کہ جہاں ڈیجیٹل میڈیا کے فروغ اور آرٹیفیشیل انٹیلی جینس کوحکومت کی اوّلین ترجیح قرار دیا جا رہا ہے، ابھی تک بچّوں یعنی اپنی آئندہ نسلوں کو منفی، زہریلے اور مُہلک مواد سے بچانے کے لیے غوروفکر تک شروع نہیں ہوا۔
یاد رہے، پاکستان میں اس وقت 18 کروڑ اسمارٹ فون صارفین موجود ہیں اور زیادہ تر گھرانوں میں بچّوں کو اسمارٹ فون استعمال کرنے کی کُھلی اجازت ہے۔ والدین بغیر سوچے سمجھے نہ صرف اپنے بچّوں کو اسمارٹ فون دیتے ہیں بلکہ اس پر فخر بھی کرتے ہیں، چاہے اُن کا بچّہ اس پر کوئی تخریبی مواد ہی کیوں نہ دیکھ رہا ہو۔
اب ہم اس ضمن میں آسٹریلیا اور ملائیشیا میں ہونے والی قانون سازی پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔ آسٹریلیا کے قانون میں کہا گیا ہے کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز ایسے اقدامات کریں گے، جن کےنتیجےمیں 16 سال سے کم عُمر بچّے اُن پر اکاؤنٹ ہی نہیں کھول سکیں گے۔ ان پلیٹ فارمز میں یو ٹیوب، فیس بک، انسٹاگرام، ٹک ٹاک، اسنیپ چیٹ، تھریڈز اور ریڈٹ سمیت دیگر کھربوں ڈالرز کا ریونیو کمانے والے پلیٹ فارمز شامل ہیں۔ یاد رہے، قانون سازی سے قبل آسٹریلوی حکومت نے اِن پلیٹ فارمز کو ایک سال کا وقت دیا تھا کہ وہ اِس کی تیاری کرلیں۔
قبل ازیں، آسٹریلوی حکومت نے اس ضمن میں رائے عامّہ جاننے کے لیے سروے کروایا، جس میں عوام کی بھاری اکثریت نے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو بےلگام قرار دیتے ہوئے اُن پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا۔ مذکورہ قانون کے ضمن میں آسٹریلوی حکومت کا کہنا ہے کہ آسٹریلیا میں 10سے15برس کی عُمر کے96فی صد بچّے سوشل میڈیا استعمال کرتے ہیں اور ہردس میں سے سات بچّوں کو اس کے مُضر اور تباہ کُن مواد سے نقصان پہنچا۔
اس مواد میں اُنہیں تشدد پر اُکسانے سے لے کر سائبر بُلینگ تک کی ترغیب دی گئی اور کئی بچّے اس پر عمل کرتے ہوئے پکڑے گئے، جن کے والدین بے بسی کی تصویر بنے ہوئے تھے۔ آسٹریلوی حکومت نے مذکورہ قانون پرعمل نہ کرنے کی صُورت میں 49.5 ملین ڈالرز کاجرمانہ عائد کیا ہے، جو بےبس والدین کی بجائے بےقابو سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو ادا کرنا ہوگا۔
آسٹریلیا کے بعد ملائیشیا نے بھی مستقبل میں 16برس سے کم عُمر بچّوں کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر پابندی لگانےکا فیصلہ کیا ہے۔ ملائیشیا یہ قدم اُٹھانے والا اسلامی دُنیا کا پہلا مُلک ہے۔ یاد رہے، ملائیشیا میں شرحِ خواندگی ایک سو فی صد ہے اور یہ ایک ترقّی یافتہ مُلک ہے۔ اس ضمن میں ملائیشیا کے وزیرِ مواصلات، فہمی فاضل کا کہنا ہے کہ حکومت 16سال سے کم عُمر کے بچّوں کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر جلد ہی پابندی لگا رہی ہے۔
انہوں نے توقّع ظاہر کی کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز فی الفور ایسے اقدامات کریں گے، جن کے نتیجے میں بچّوں پر سوشل میڈیا کے منفی اثرات کو ختم کیا جاسکے۔ واضح رہے، نیوزی لینڈ میں بھی آسٹریلیا کے طرز کا قانون تیار کیا جا چُکا ہے اور جلد ہی اُسے لاگو کیا جائے گا، جب کہ بعض یورپی ممالک پہلے ہی مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر اُن کے منفی رویّوں کے سبب بھاری جُرمانے عاید کرچُکے ہیں اور اس ضمن میں یورپی یونین نے قرارداد منظور کرکے ایک اور بڑا قدم اٹھایا ہے۔
اس قرارداد کے مطابق، بچّے اپنے والدین کی مرضی کے بغیر سوشل میڈیا استعمال نہیں سکتے، جب کہ فرانس، اٹلی، اسپین، یونان اور ڈنمارک مشترکہ طور پر ایک ایسا ٹیمپلیٹ تیار کررہے ہیں، جس کے ذریعے سوشل میڈیا صارفین کی عُمرکی تصدیق کی جاسکے گی اور اس کے نتیجے میں قانون پر مِن وعن عمل درآمد آسان ہو جائے گا۔
واضح رہے، ملائیشیا میں گزشتہ کئی برسوں سےسوشل میڈیا پلیٹ فارمزکی کڑی نگرانی کی جا رہی ہے، کیوں کہ وہاں حکومت اور عوام دونوں ہی سوشل میڈیا کے انتہائی مُضر مواد سے عاجز آچُکے ہیں اور اس ضمن میں سوشل میڈیا پلیٹ فارمز سے متعلق مؤثر قانون سازی پر آمادہ ہیں۔ یہاں یہ اَمر بھی قابلِ ذکر ہے کہ ملائیشیا میں سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو باقاعدہ لائسینس جاری کیا جاتا ہے اور یہ قانون جنوری 2025ء سے لاگو ہوچُکا ہے۔
اس وقت دُنیا بَھر میں ریاستیں اور عوام سوشل میڈیا کے منفی اثرات کی وجہ سے شدید تشویش بلکہ خوف میں مبتلا ہیں اور ترقّی یافتہ ممالک انہیں کنٹرول کرنے کے لیے نت نئے پہلوؤں پر غور کررہے ہیں۔ سوشل میڈیا پرموجود منفی مواد کے تباہ کُن اثرات کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ آج سے چند برس پیش تر امریکا میں ایک 12سالہ طالبہ نے اپنے ہم جماعت کو 19مرتبہ چاقو کے وار کر کے ہلاک کر ڈالا تھا اور اس انتہائی اقدام کی تحریک و ترغیب اُسے ایک ایسے پُرتشدّد ویڈیو گیم سے ملی تھی کہ جس میں بچّوں کو طاقت وَر بننے کے طریقے بتائے گئے تھے۔
اس بچّی کو 40 سال کے لیے ایک بحالی مرکز میں قید کرنے کی سزا سُنائی گئی، جہاں اس کی ذہن سازی کی جائے گی۔ دوسری جانب اگر ہم پاکستان پر نظر دوڑائیں، تو یہاں ایسے ادارے ہیں اور نہ اصول و ضوابط کہ جن کے تحت سوشل میڈیا کو لگام ڈالی جا سکے۔ آپ کسی بھی گھر میں چلے جائیں، تو وہاں آپ کو بچّے اسمارٹ فون، ٹیبلیٹ یا لیپ ٹاپ سے چپکے دکھائی دیں گے۔
گرچہ والدین اپنے بچّوں کی اس عادت سے سخت نالاں ہیں، لیکن ساتھ ہی اس بات پر فخر بھی کرتے ہیں کہ ان کے بچّے کتنی مہارت سے سوشل میڈیا استعمال کرتے ہیں۔ دراصل، ایسے والدین یہ سمجھتے ہیں کہ یہ رجحان پڑھے لکھے ہونے کی نشانی ہے یا پھر اسٹیٹس سمبل، حالاں کہ ان کے پاس ایسی کوئی ٹیکنالوجی موجود نہیں، جس سے وہ یہ جان سکیں کہ اُن کا بچّہ سوشل میڈیا پر کیا دیکھ رہا ہے۔
ان دنوں بالخصوص پاکستانی بچّوں میں پُرتشدد ویڈیو گیمز اور موویز مقبول ہیں، کیوں کہ اس طرح وہ خود کو حقیقت میں بھی انتہائی طاقت وَر سمجھنے لگتے ہیں، جب کہ اس کے برعکس بچّوں کی اخلاقی تربیت نہ ہونےکے برابرہے۔ یاد رہے، بچّوں کو اخلاقی اقدار سکھانا اور اُن کی معصومیت کی حفاظت کرنا جہاں والدین کا فرض ہے، وہیں یہ ذمّے داری ریاست اور حکومت پر بھی عائد ہوتی ہے، کیوں کہ ریاست کے پاس ہی تمام وسائل اور طاقت ہوتی ہے اور ہمارے عوامی نمائندے، وزیرِ اعظم اور وزرا، جو عوام سے ووٹ لیتے ہیں اور جن کا دعویٰ ہے، اُن کے ہاتھ عوام کی نبض پر ہیں، تو اُن پر یہ لازم ہے کہ وہ قانون سازی کے ذریعے سوشل میڈیا پلیٹ فارمزکومنفی مواد پھیلانے سے روکیں۔ بچّوں کو ایسا مواد اپ لوڈ کرنے سے روکنے کے لیے اُن کے اکاؤنٹ بنانے پر پابندی لگائیں۔
واضح رہے، سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کیا جانے والا بیش تر مواد تخلیقی نہیں، بلکہ بے راہ روی پر مبنی ہوتا ہے۔ جب ہم قانون سازی کی بات کرتے ہیں، تو اس کا مقصد ہرگز بچّوں کو سزا دینا نہیں، بلکہ اُن کی حفاظت کرنا ہے اور نہ ہی اس کا مقصد انہیں جدید ٹیکنالوجی سےدُورکرنا ہے، بلکہ اس تجویز کا سبب اُن کی سمت دُرست کرنا ہے، تاکہ وہ ایک متوازن شخصیت کےحامل بن سکیں۔ یاد رہے، کوئی بھی بچّہ پیدائشی طور پر منفی جذبات کا حامل نہیں ہوتا، ماحول میں پائے جانے والے پُرتشدد،نفرت انگیزرویّےہی اس پراثرانداز ہوتے ہیں۔
آج کا بچّہ اس ماحول میں پیدا نہیں ہوا، جس میں ہم پیدا ہوئے تھے۔ آج کی دُنیا ’’ڈیجیٹل ورلڈ‘‘ کہلاتی ہے اور اس کے معمار وتخلیق کار وہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز ہیں، جو غیر معمولی سرمائے اور اثرات کےحامل ہیں۔ یہ کمپنیز لوگوں کی ذہن سازی پر ہر سال اربوں ڈالرز خرچ کر کے نِت نئے فیچرز متعارف کرواتی ہیں اور ان کا الگورتھم سسٹم منفی سوچ کو پروان چڑھاتا ہے، کیوں کہ وہ سمجھتی ہیں، منفی مواد لوگوں بالخصوص بچّوں کی توجّہ فوراً اپنی طرف کھینچ لیتا ہے۔
یہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز صرف تعلیم و تربیت یا اطلاعات فراہم کرنے کے لیے نہیں بنائےگئے، اِن کا مقصد صارفین بالخصوص بچّوں کو خُود سے جُوڑے رکھنا ہے اور بچّوں کے معصوم اذہان ان دُنیا کی امیر ترین کمپنیز کے حَربوں کو کس طرح سمجھ سکتے ہیں اور پھر اب مصنوعی ذہانت یا آرٹیفیشل انٹیلی جینس کا ہر سُو چرچا ہے۔ گرچہ ہمیں اے آئی سے دِل چسپی و شغف تو بہت ہے، لیکن ہم اس کی حسّاسیت کا ادراک نہیں رکھتے۔
ہم نے صرف یہ سُن رکھا ہے، اے آئی کمائی کا بہت بڑا ذریعہ ہے اور اس کی مدد سے ہم انٹ شنٹ مواد تیار کرکے ڈالرز کمانا شروع کردیتے ہیں، لیکن یاد رہے کہ منشیات فروشی بھی کمائی کا بڑا ذریعہ ہے اور منشیات کے تاجر اربوں ڈالرز اور غیر معمولی طاقت کے مالک ہیں، لیکن کیا کوئی صحت مند معاشرہ منشیات فروشی کے کاروبار کی کُھلے عام اجازت دے سکتا ہے۔
ایک بچّے کی شخصیت سازی میں برسوں لگتےہیں، جب کہ سوشل میڈیا اس پر سیکنڈز میں اثر انداز ہوتا ہے۔ لہٰذا، یہ تو طے ہے کہ کسی مؤثر قانون سازی کے بغیر بچّوں کی سوشل میڈیا تک رسائی روکنا ناممکن ہے۔
آج ترقّی یافتہ ممالک میں والدین، سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے سامنے بےبس ہیں، جب کہ پاکستان جیسے کم تعلیم یافتہ، پس ماندہ مُلک میں تو یہ کہیں زیادہ بےلگام ہیں اور اُس پر مستزاد یہ کہ یہاں ہر طرف سوشل میڈیا، اے آئی اور آئی ٹی سے ڈالرز کمانے کا شور مچا ہوا ہے۔
ہر روزحکومت فخر سےبتاتی ہے، اس سال آئی ٹی ایکسپورٹس میں اتنے ارب ڈالرز کا اضافہ ہوا ہے اور اتنے کروڑ اسمارٹ فونز درآمد کیے گئے ہیں، لیکن سوشل میڈیا کے بچّوں پر بھیانک اثرات روکنے کے اقدامات کا ذکر تک نہیں کیا جاتا، اقدامات تو دُورکی بات، اِس کےمنفی اثرات تک پر بات نہیں ہوتی۔
نیز یہ کہ آن لائن کلاسز کے بہانے بھی بچّوں کو اسمارٹ فونز اور لیپ ٹاپس میسّر آگئے ہیں، لیکن اساتذہ اور والدین یہ نہیں جانتے کہ پڑھائی سے فراغت کے بعد بچّہ اِن گیجٹس کے ذریعے کس قسم کا مواد دیکھتا ہے۔ غالباً والدین اور اساتذہ کو اس سے کوئی دل چسپی بھی نہیں۔ اِسی لیے انہوں نے منفی مواد سے بچاؤ کے لیے بچّوں کی تعلیم وتربیت سے متعلق کبھی سوچا تک نہیں۔ یوں بھی آن لائن اساتذہ کو ٹیچرز ٹریننگ کے دوران آن لائن لرننگ کے روایتی طریقے توسکھائے جاتے ہیں، لیکن شاید ہی کوئی ٹیچراس کے الگورتھم کو بھی سمجھتا ہو۔
اس صورتِ حال میں پاکستانی حکومت کو خُود بچّوں کے محفوظ مستقبل کے لیے میدان میں اُترنا ہوگا۔ پارلیمان میں موجود عوامی نمائندے سوشل میڈیا کے منفی اثرات سے بخوبی واقف ہیں۔ پاکستان میں کسی رہنمائی کے بغیر جس طرح سوشل میڈیا کو منفی اثرات پھیلانے کے لیے استعمال کیا گیا، اِس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اب ان اثرات کو زائل کرنے کے لیے اعلیٰ ترین عُہدے داران اور ادارے میدان میں ہیں۔
آئی ایس پی آر کے سربراہ خود تعلیمی اداروں میں جاکرطلبہ کی سوچ اور سمت درست کرنے کی قابلِ قدر خدمات انجام دے رہے ہیں۔ اُن کےاُس عمل سے فرق ضرور پڑے گا، لیکن اِس کے ساتھ ہی قانون سازوں اور عوام کا ساتھ بھی اشد ضروری ہے۔ بےلگام سوشل میڈیا کو، جسے پُرتشدد اور نفرت انگیز مواد کو پُرکشش بنا کر پیش کرنے کے لیےاستعمال کیا جاتا ہے، معصوموں اور نوجوانوں پر اثرانداز ہونے سے روکنے کے لیے ضروری ہے کہ اس ضمن میں جزا و سزا کا نظام موجود ہو۔
بچّوں اور اُن کے سرپرستوں کواس بات کا یقین اور اعتماد ہونا چاہیے کہ ان اربوں ڈالرز کمانے والی کمپنیز کا حملہ روکنے کے لیے ریاست کی طاقت موجود ہے اور وہ طاقت قانون ہے، جیسا کہ آسٹریلیا نے جرمانے کا قانون اور مسلسل نگرانی کا نظام قائم کیا ہے۔ حکومت قانون کے سائے ہی میں اُن اقدامات اور اداروں کو آگے بڑھنے کا موقع دے سکتی ہے، جو اس کام میں معاون ثابت ہوں۔
اگر سوشل میڈیا کو بچّوں کے اذہان منتشر اور پراگندہ کرنے سے نہ روکا گیا، تو یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ہماری آئندہ نسلوں کی سوچ اور اخلاقی اقدار کیسی ہوں گی۔ اِن دنوں کچھ نظارے تو ہم دیکھ ہی رہے ہیں اور کل جب یہ بچّے جوان ہو کر ہم سے یہ سوال کریں گے کہ نسلِ نو کو تباہی سے بچانے کے لیے ہم نے کیا کیا، تو ہم اُنہیں کیا جواب دیں گے۔