رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے مراتب اور شمائل و خصائل میں یہ خصوصیت اور امتیاز بھی ہے کہ آپ ؐ سیرت و صورت اور شمائل و خصائل میں تمام بنی نوع آدم اور کل انبیاء و رسل میں سب سے بلند مرتبے کے حامل ہیں، بالخصوص اخلاقِ حسنہ میں آپ ؐ خلق ِ عظیم کے لقب سے ممتاز کیے گئے۔
چناں چہ قرآن کریم میں آپؐ کے متعلق فرمایا گیا کہ آپ اخلاق کے اعلیٰ مرتبے پر فائز ہیں۔ علّامہ سیّد سلیمان ندویؒ اس حوالے سے لکھتے ہیں۔ ’’مگر اس وصف میں سارے انبیاء علیہم السّلام یک ساں نہیں ہیں، بلکہ اُن کے مختلف مدارج ہیں، اُن کی عملی حیثیت کے کامل ہونے کے ساتھ ضرورت یہ ہے کہ اُن کے اس درجۂ کمال کی ایک ایک ادا عمل کی صورت نمایاں ہو، تاکہ ہر ذوق اور رنگ کے رفیق اور اہلِ صحبت اپنی اپنی استعداد کے مطابق ان کی عملی مثالوں سے متاثر ہوں، اور پھر وہ روایتوں کے اوراق میں محفوظ رہیں، تاکہ بعد کے آنے والے بھی اُن کے نشانِ قدم پر چل کر منزل تک پہنچ سکیں۔
الغرض، ایک کامل و مکمل اور آخری معلّم کے لیے حسبِ ذیل معیاروں پر اُترنا ضروری ہے۔ (1) اُس کی زندگی کا کوئی پہلو پردے میں نہ ہو۔(2) اُس کی ہر زبانی تعلیم کے مطابق، اُس کی عملی مثال لوگوں کے سامنے موجود ہو۔(3) اُس کی اخلاقی زندگی میں یہ جامعیت ہو کہ وہ انسانوں کے ہر کارآمد گروہ کے لیے اپنے اندر اتّباع اور پیروی کا سامان رکھتی ہو۔(سیرت النبیؐ۔ 6/19)
ان معیارات پر اگر ہم تمام انبیاءؑ اور مذاہب کے بانیوں کی زندگیوں کو جانچیں، تو معلوم ہوگا کہ ایسے کسی کی زندگی بھی پیغمبرِ اسلام علیہ السّلام کی حیاتِ پاک کے برابر جامع کمالات نہیں۔ دنیا کا کوئی پیغمبر یا مذہب کا بانی ایسا نہیں ہے، جس کی اخلاقی زندگی کا ہر پہلو ہمارے سامنے اس طرح واضح ہوکہ گویا وہ خود ہمارے سامنے موجود ہے۔
تورات کے پیغمبروں میں کون سا پیغمبر ہے، جس کے اخلاقی کمالات ہمارے علم میں ہیں؟ ان غیر اخلاقی قصّوں کا ذکر فضول ہے، جنہیں تورات کے راویوں نے اُن مقدّس ہستیوں کے حالات میں شامل کردیا ہے۔ قرآن نے ہر جگہ اُنھیں ان بے ہودہ الزامات سے پاک اور بری قرار دیا ہے۔
حضرت نوحؑ سے لے کر حضرت موسیٰؑ تک تورات کے ایک ایک پیغمبر پر نگاہ ڈالیں، اُن کی معصوم زندگی کے حالات کی کتنی سطریں ہمارے سامنے ہیں اور کیا اُن کی اخلاقی شکل و صورت کی پوری شبیہ دنیا کے سامنے کبھی موجود رہی؟
حضرت عیسیٰؑ کی تینتیس برس کی زندگی میں سے صرف تین برس کا حال ہمیں معلوم ہے اور اُن تین برسوں کے حالات میں بھی معجزات و خوارق کے سوا کوئی اور بات بہت کم معلوم ہے۔ ایسی صورت میں کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اُن کی اخلاقی زندگی کا کوئی پہلو پردے میں نہیں ہے؟(سیّد سلیمان ندوی/ سیرت النبیؐ 6/20)۔
انبیاء علیہم السّلام کے علاوہ غیر الہامی مذاہب کے بانیوں میں ہندوستان، ایران اور چین کے بانیانِ مذاہب کی اخلاقی زندگیوں کا جائزہ لیں، تو معلوم ہوگا کہ اُن کے لیے دنیا میں کوئی سامان ہی موجود نہیں۔ کیوں کہ اُن کی اخلاقی زندگی کے ہر پہلو پر ناواقفیت کا پردہ پڑا ہوا ہے۔
صرف اسلام ہی کے ایک معلّم، صاحبِ خُلق عظیم، امام الانبیاء، سیّدالمرسلین حضرت محمد ﷺکی حیاتِ پاک ایسی ہے، جس کا حرف حرف دنیا میں محفوظ اور سب کو معلوم ہے اور بقول باسورتھ اسمتھ ’’یہاں (سیرتِ محمدیؐ) پورے دن کی روشنی ہے، جن میں محمد(ﷺ) کی زندگی کا ہر پہلو روزِ روشن کی طرح نمایاں ہے۔‘‘
آنحضرتﷺ کا خود یہ حکم تھا کہ ’’میرے ہر قول اور عمل کو ایک سے دوسرے تک پہنچائو۔‘‘ محرمانِ راز کو اجازت تھی کہ ’’جو مجھے خلوت میں کرتے دیکھو، اُسے جلوت میں برملا بیان کرو، جو حجرے میں کہتے سنو، اسے چھتوں پر چڑھ کر پکارو۔‘‘’’الا فلیبلّغ الشّاھد الغائب۔‘‘(ایضاً 6/30)۔
انبیاء علیہم السّلام نے مختلف ادوار میں ’’معلّمینِ اخلاق‘‘ کا تاریخ ساز کردار ادا کیا۔ اُنہوں نے وحی ربّانی سے جو محاسن اور مکارمِ اخلاق کا بنیادی سرچشمہ ہے، انسانیت کو مثالی اخلاق و کردار کی تعلیم دی۔ تاہم، یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ خاتم النّبیین، سیّدالمرسلین، معلّمِ انسانیت، رہبرِ آدمیت، معلّمِ اخلاق حضرت محمد ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے مکارمِ اخلاق کی تکمیل کے لیے مبعوث فرمایا، قرآن نے آپؐ کے خُلقِ عظیم کی شہادت دی۔
آپؐ کا اسوۂ حسنہ اور آپؐ کی سیرتِ طیّبہ تمام انبیاءؑ اور رسولوں کی سیرت کا ایک بے مثال اور جامع نمونہ ہے۔ بقول قاضی محمد سلیمان منصور پوری ’’آپؐ کی ذاتِ مبارک میں حضرت نوح علیہ السّلام کی سی گرمی، حضرت ابراہیم علیہ السّلام جیسی نرم دلی، حضرت یوسف علیہ السّلام کی سی درگزر، حضرت داؤد علیہ السّلام کی سی فتوحات، حضرت یعقوب علیہ السّلام کا سا صبر، حضرت سلیمان علیہ السّلام کی سی سطوت، حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کی سی خاک ساری، حضرت یحییٰ علیہ السّلام کا سا زُہد، حضرت اسماعیل علیہ السّلام کی سی سُبک رُوحی، کامل ظہور بخش تھی ؎ اے کہ بر تختِ سیادت زازل جاداری..... آں چہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری(منصور پوری، قاضی محمد سلیمان/رحمۃ للعالمینؐ، 1/40)۔
قول کے ساتھ عمل، معلّمِ اخلاق ؐ کا مثالی فلسفہ
اسلام کے اخلاقی معلّمؐ کی شان اس حیثیت سے بھی بلند ہے کہ آپؐ نے جو کچھ کہا، سب سے پہلے اسے کرکے دکھایا۔ آپؐ کا جو قول تھا، وہی آپ کا عمل تھا۔ آپؐ نے یہودیوں کو متنبّہ فرمایا۔ ترجمہ:’’کیا اوروں کو نیکی کی بات بتاتے ہو اور خود کو بھول جاتے ہو۔‘‘ (سورۃ البقرہ/44)۔ اور مسلمانوں کو متنبہ کیا۔ ترجمہ:’’تم ایسی بات کیوں کہتے ہو، جو کرتے نہیں، بڑی بے زاری ہے، اللہ کے یہاں کہ کہو وہ، جو نہ کرو۔‘‘ (سورۃالصّف/2۔3)
معلّمِ اخلاق ﷺ کے فلسفۂ اخلاق کا امتیاز اور جامعیت
ایک شخص نے امّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ سے دریافت کیا کہ آنحضرت ﷺ کے اخلاق کیا تھے؟ آپؓ نے فرمایا۔ ’’کیا تم نے قرآن نہیں پڑھا؟ ‘‘ جو قرآن پاک میں الفاظ کی صورت میں ہے، وہی حامل قرآنؐ کی سیرت میں بصورتِ عمل تھا۔ اگر آپؐ نے غریبوں اور مسکینوں کی امداد و اعانت کا حکم دیا، تو پہلے خود اس فرض کو ادا کیا۔ خود بھوکے رہے اور دوسروں کو کِھلایا، اگر آپؐ نے دشمنوں کو معاف کرنے کی نصیحت کی، تو پہلے خود اپنے دشمنوں کو معاف کیا۔
کھانے میں زہر دینے والوں سے درگزر کیا، اپنی ذات کے لیے کسی سے انتقام نہیں لیا۔ جنہوں نے آپؐ پر تیر برسائے اور تلواریں چلائیں، تمام تر اختیار اور طاقت کے باوجود کبھی اُن پر ہاتھ نہیں اُٹھایا۔ شدید ضرورت کے وقت بھی جس نے آپؐ سے جو مانگا، آپ نے عطا فرمادیا۔
یہی وجہ ہے کہ دیگر مذاہب کے پیروکار اپنے ہادیوں اور مذہبی رہنماؤں کی صرف تعلیمات اور اقوال سُناتے ہیں اور اُن کی پیروی کی دعوت دیتے ہیں اور مسلمان اپنے پیغمبرؐ کے نہ صرف اقوال و نصائح بلکہ اُن کے عملی نمونوں اور کارناموں کو بھی پیش کرتے اور اُن کی پیروی کی دعوت دیتے ہیں۔
محمد رسول اللہ ﷺ کے صحیفۂ اخلاق نے سب سے آگے بڑھ کر بلاخوف و خطر اپنے داعی اور مبلّغ کی اخلاقیات خود اس کے معاصرین کے سامنے پوری وضاحت سے پیش کیں۔ (سیّد سلیمان ندوی/سیرت النبیؐ 6/21)
بحیثیت معلّمِ اخلاق رسول اللہ ﷺ کا مقام اور تاریخ ساز کردار
اخلاقی معلّم کے کمال کی ایک شرط یہ ہے کہ اس کی تعلیم میں یہ تاثیر ہو کہ وہ دوسروں کو بھی اپنے فیض سے بہرہ مند کرسکے، یعنی وہ خود کامل ہو اور دوسروں کو بھی کامل بناتا ہو، وہ خود پاک ہو اور دوسروں کو بھی اپنے کردار و عمل سے پاک و صاف کردیتا ہو۔ اخلاق کے تمام معلّموں کی فہرست پر ایک نظر ڈالی جائے کہ یہ تکمیل کی شان سب سے زیادہ کس میں تھی؟
کیا اس میں، جسے قدم قدم پر بنی اسرائیل کی سنگ دلی اور کج روی کا گِلہ کرنا پڑا، کیا اُس میں جس کے پورے گیارہ شاگرد بھی امتحان کے وقت پورے نہ اُترسکے، یا اُس میں تھی، جس کی نسبت اس کے صحیفۂ وحی نے باربار اعلان کیا۔ ترجمہ: ’’وہ انہیں اللہ کی باتیں سُناتا، اُنہیں پاک و صاف بناتا اور اُنہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔‘‘ (سورۃ الجمعہ/2)۔
یہاں یہ بات خاص طور پر قابلِ لحاظ ہے کہ اس میں اسلام کے معلّمؐ کی نسبت صرف یہی دعویٰ نہیں ہے کہ وہ لوگوں کو کتاب و حکمت کی باتیں سکھاتا اور اللہ کے احکام سُناتا ہے، بلکہ یہ بھی ہے کہ وہ اُنہیں اپنے فیض و اثر سے پاک و صاف و مصفّیٰ بھی بنا دیتا ہے۔
وہ ناقصوں کو کامل، گناہ گاروں کو نیک، اندھوں کو بینا اور تاریک دلوں کو روشن دل بنا دیتا ہے، چناں چہ آپؐ کی حیاتِ طیبہ کے آخری دَور تک کم از کم ایک لاکھ انسان آپؐ کی تعلیم سے عملاً بہرہ مند ہوچکے تھے اور وہ عرب، جو اخلاق کے پست ترین نقطے پر تھا، تئیس برس کے بعد وہ اخلاق کے اُس اوجِ کمال پر پہنچا، جس کی بلندی پر کوئی ستارہ آج تک نہ پہنچ سکا۔(سیرت النبی 6/22)۔
اخلاق کے دوسرے معلّمین کی درس گاہوں پر ایک نظر ڈالنے سے معلوم ہوگا کہ وہاں صرف ایک فن کے طالبِ علم تعلیم پاتے ہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السّلام کی تربیت گاہ میں فوجی تعلیم کے سوا کوئی فن نمایاں نہیں، حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کے مکتب میں عفوو درگزر کے سوا کوئی اور سبق نہیں، بودھ کے دربار اور خانقاہ میں دربدر بھیک مانگنے والے محتاجوں، فقیروں کے سوا کوئی اور موجود نہیں۔
لیکن حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی درس گاہِ اعظم میں آکر دیکھو تو معلوم ہوگا کہ یہ اخلاق و کردار سازی کی ایک عمومی جامعہ ہے، جس میں انسانی ترقی ہر وقت نشوونما پارہی ہے، خود معلّمِ اعظمؐ کی ذات گرامی تعلیم و تربیت کی ایک مثالی درس گاہ ہے، جس کے اندر علم و فن کا ہر شعبہ اپنی جگہ قائم ہے اور ہر جنس اور ہر مزاج کے طالبِ علم آتے ہیں اور اپنے اپنے ذوق اور اپنی اپنی استعداد کے مطابق کسبِ کمال کررہے ہیں۔ (ایضاً 6/22)۔
حضرت محمد ﷺ کے فلسفۂ اخلاق کی جامعیت
آپؐ کے فلسفۂ اخلاق اور بلند اخلاقی اقدار کی انفرادیت اور اثر انگیزی کے متعلق علّامہ سیّد سلیمان ندوی کیا خوب لکھتے ہیں۔ ’’آپؐ کی حیثیت ایک انسان، ایک باپ، ایک شوہر، ایک دوست، ایک خانہ دار، ایک تاجر، ایک منتظم، ایک حاکم، ایک قاضی، ایک سپہ سالار، ایک بادشاہ، ایک استاد، ایک واعظ، ایک مرشد، ایک زاہد و عابد اور آخر ایک پیغمبر کی نظر آتی ہے۔
یہ تمام انسانی طبقے آپؐ کے سامنے آکر زانوئے ادب تہ کرتے ہیں اور اپنے اپنے پیشہ و فن کے مطابق آپؐ کی تعلیمات سے بہرہ مند ہوتے ہیں۔ مدینۃ النّبی کی درس گاہِ اعظم کو غور سے دیکھو، جس کی چھت کھجوروں کے پتّوں اور ستون کھجور کے تنوں سے بنائے گئے تھے اور جس کا نام ’’مسجدِ نبویؐ‘‘ ہے۔ اس کے الگ الگ گوشوں میں ان انسانی جماعتوں کے الگ الگ درجے کُھلے ہوئے ہیں۔
کہیں ابوبکرؓ و عمرؓ و عثمانؓ و علیؓ جیسے فرماں روا زیرِ تعلیم ہیں، کہیں طلحہؓ و زبیرؓ و معاویہؓ و سعدؓ بن معاذؓ و عبداللہ بن زبیرؓ جیسے ارباب رائے و تدبیر ہیں۔ کہیں خالدؓ، ابوعبیدہؓ، سعدؓ بن ابی وقاصؓ اور عمرو بن العاصؓ جیسے سپہ سالارہیں، کہیں وہ ہیں، جو بعد میں صوبوں کے حکم راں، عدالتوں کے قاضی اور قانون کے مقنّن بنے۔ کہیں ان زہّاد و عباد کا مجمع ہے، جن کے دن روزوں میں اور راتیں نمازوں میں کٹتی تھیں۔
کہیں ابوذرؓ و سلمانؓ وابوالدّرداءؓ جیسے وہ خرقہ پوش ہیں، جو ’’مسیح اسلام‘‘ کہلاتے تھے۔ کہیں وہ صفّہ والے طالب علم تھے، جو جنگل سے لکڑی لاکر بیچتے اور گزارہ کرتے اور دن رات علم کی طلب میں مصروف رہتے۔ کہیں حضرت علیؓ، حضرت عائشہؓ، حضرت ابنِ عباسؓ، حضرت ابن مسعودؓ اور حضرت زید بن ثابتؓ جیسے فقیہ و محدّث تھے، جن کا کام علم کی خدمت اور اشاعت تھا۔
ایک جگہ غلاموں کی بھیڑ ہے، تو دوسری جگہ آقائوں کی محفل ہے، کہیں غریبوں کی نشست ہے اور کہیں دولت مندوں کی مجلس ہے، مگر ان میں ظاہری عزّت اور دنیوی اعزاز کی کوئی تفریق نہیں پائی جاتی۔ سب مساوات کی ایک ہی سطح پر، اور صداقت کی ایک ہی شمع کے گرد پروانہ وار جمع ہیں۔
سب پر توحید کا یک ساں نشہ چھایا اور سینوں میں حق پرستی کا ایک ہی ولولہ موجیں لے رہا ہے اور سب اخلاق و کردار کے ایک ہی آئینۂ قدس کا عکس بننے کی کوشش میں مصروفِ عمل ہیں۔‘‘ (سیّد سلیمان ندوی، علامہ/سیرت النبیؐ 6/23)۔ (جاری ہے)